Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. NAB Ko Mazboot Kijiye

    NAB Ko Mazboot Kijiye

    سنگاپوردنیا کے جدیدترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ایشیاء کاخوبصورت اورامیرترین علاقہ۔ ملک کو بنانے والاعظیم لیڈرلی کون یو رات گئے سرکاری فائلیں نپٹارہاتھا۔ اچانک وزیراعظم کے سامنے ایک فائل آئی جس پرسیکرٹ لکھاہواتھا۔ سرخ رنگ کے فیتے میں بندیہ فائل ظاہرکررہی تھی کہ کوئی اہم مسئلہ موجودہے۔ لی کون یونے فائل کھولی۔ یہ اس کے قریبی وزیرٹی چونگ واہ کے متعلق تھی۔ تحقیق اوراحتساب کے ادارے نے "تعمیرات کے وزیر"کے متعلق لکھاتھاکہ اس نے 1981 اور1982میں دوبارچارچارلاکھ امریکی ڈالررشوت وصول کی ہے۔

    اس کے عوض وزیرنے ایک کاروباری گروپ کو سرکاری زمین اَلاٹ کی ہے۔ جس پریہ ادارہ بڑے بڑے پلازے اورہاؤسنگ کالونی بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ آدھی رات کو وزیراعظم نے پورے اسٹاف کوطلب کیا۔ اٹارنی جنرل کوبھی بلایاگیا۔ سب کے سامنے لی کون یونے حکم دیاکہ اس کے وزیرکے خلاف غیرجانبدارتحقیق کی جائے اوراسے اخبارمیں شایع کردیاجائے۔

    صبح چھ بجے تک یہ خبرسنگاپورکے تمام اخبارات میں شایع ہوچکی تھی۔ احتساب کے ادارہCorrupt Practices Investigation Bureauنے وزیرِموصوف کو طلب کرلیا۔ ٹی چونگ نے ایک مفلوک الحال، پسماندہ اوراَبترشہرکوجدیدترین بنانے کامشکل ترین کام کیا تھا۔ موٹرویز، پُل، فلک بوس عمارتیں، یونیورسٹیاں، سب کچھ، اسی انسان کی مرہونِ منت تھیں۔

    وہ لی کون یو کاسب سے قابل اعتمادساتھی تھا۔ وزیرنے احتساب کے ادارے سے صرف تین دن کی مہلت مانگی۔ ہرگزہرگز نہیں کہا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے یا سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ ٹی چونگ نے ہمارے قائدین کی طرح احتساب سے بچنے کے لیے کوئی حکمِ امتناعی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دفترکی بالکونی سے انگلیوں کاوی کانشان بھی نہیں بنایا۔ ہمارے رشوت خورسیاستدانوں کی طرح اخبار نویسوں کے سامنے اپنی معصومیت اوربے گناہی کاپکاراگ بھی نہیں سنایا۔ ایک عزت دارانسان کی طرح مکمل طور پر خاموش رہا۔ جس دن ٹی نے احتساب کے دفتر جانا تھا، اسی رات اس نے خودکشی کرلی۔

    زندگی ختم کرنے سے پہلے دوسطری نوٹ لکھاجوبعدمیں وزیراعظم لی کون یونے پارلیمنٹ میں پڑھ کرسنایا۔ درج تھا "کہ حددرجہ شرمندہ ہوں کہ مجھ سے سنگین غلطی سرزد ہوئی ہے۔ مجھے ایسا نہیں کرناچاہیے تھا۔ اپنے گناہ کوتسلیم کرتا ہوں اور اپنے لیے بذاتِ خودموت کی سزاتجویزکرتا ہوں "۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں یہ بھی کہا "سنگاپور میں ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی طاقتورشخص رشوت وصول کرے اورتحقیقاتی ادارے اسکوبخش دیں "۔

    یہ بھی کہاکہ "اگرمیں ٹی کو چھوڑ دیتا، توسنگاپورکاسسٹم منفی طرزپراُستوار ہوجاتا اور ہمارا خوبصورت اورامیرترین ملک بربادی کے ڈھیرمیں تبدیل ہوجاتا"۔ لی کون یوتین دہائیوں کے قریب سنگاپور کا کرتا دھرتارہا۔ اپنے ملک کواس عظیم آدمی نے کیاسے کیا بنا دیا۔ دیکھ کرانسان دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتا ہے۔

    وہاں غربت کانام ونشان تک نہیں ہے۔ شہری کی اوسط سالانہ آمدنی ساٹھ ہزارڈالرہے۔ جو امریکا سے صرف اور صرف فی کس پانچ ہزارڈالرکم ہے۔ یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی فی شہری کی آمدنی کا ذکر کروں۔ یہ صرف گیارہ سوڈالرسالانہ ہے۔ دیکھ کر ہمارا سرشرم سے جھک جاناچاہیے۔ لیکن فکرنہ کیجیے۔ ہمارے اکابرین پورے ملک کی دولت ہڑپ کرنے کے بعدبھی اپنا سر فخر سے بلندکیے رکھتے ہیں۔

    سنگاپورنے ترقی کی منزلیں کیسے طے کیں۔ یہ سب کچھ سب کے سامنے ہے۔ ہم نے ذلت کی شاہراہ پرکس برق رفتاری سے سفرکیا، وہ بھی دنیاکے سامنے عریاں ہے۔ یاددہانی کے لیے ضروری ہے کہ اس مکروہ قصے کوبیان کیاجائے۔ 1947میں جیسے ہی ملک معرضِ وجودمیں آیاتوایک پُرتاثیرمگرغیرقانونی کام شروع ہوگیا۔ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ، دہلی جاتے تھے۔ مٹھی گرم کرکے ملکیتی کاغذات بنواتے تھے۔ پھرپاکستان آکررشوت کے سہارے بہترین زرعی زمین، گنی چنی فیکٹریاں، سینما گھرانتہائی اطمینان سے اَلاٹ کروالیتے تھے۔ آج آپ جن بڑے بڑے نامی گرامی خاندانوں کودیکھتے ہیں۔

    ان کی اکثریت جعلی الاٹمنٹ کے دھندے سے دنوں میں امیر ہوئے ہیں۔ یہ لوگ غیرقانونی جائیدادوں کے ذریعے آج عزت داربھی ہیں اور سیاست کے بھی کرتا دھرتا ہیں۔ ان خاندانوں کے عظیم سپوت کسی قسم کی محنت کیے بغیرارب پتی بن گئے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ انھیں "حد درجہ باعزت"گرداننا ہماری سماجی مجبوری بن چکی ہے۔

    پچاس اورساٹھ کی صنعتی ترقی کی طرف نظر دوڑائیے۔ حکومتی ادارے پی آئی ڈی بی، ریاستی وسائل سے فیکٹریاں قائم کرتاتھا۔ تعمیرکرنے کے بعدانھیں چلاتا تھا۔ پھر حکومت کے نزدیکی کاروباری افرادکو دیدیا جاتا تھا۔ ان کاروباری افرادکی واضح اکثریت معمولی محنت کے ساتھ بیٹھے بٹھائے ان بائیس خاندانوں میں تبدیل ہوگئی جنکے پاس ملک کے ساٹھ سے سترفیصدمالی وسائل تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیایہ نظام کوچونالگاکرآگے نہیں آئے تھے۔ جواب اثبات میں ہے جب ڈاکٹرمحبوب الحق نے ان بائیس خاندانوں کی مالی بے ضابطگیوں اور قانونی قزاقی کوآشکارہ کیا۔ کہرام برپاہوگیا۔

    ایوب خان خش وخاشاک کی طرح بہہ گیا۔ عرض کرنے کامقصدصرف ایک ہے کہ اس ملک کے بنتے ہی بہتی گنگامیں ہاتھ نہیں بلکہ ڈبکیاں لگانے کاغلیظ کام شروع ہوگیا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اس میں صرف کاروباری لوگ ہی نہیں، سرکاری عمال اورریاستی اداروں کے اہم لوگ پوری طرح شامل تھے۔ بھٹونے کئی متنازعہ اقدامات اُٹھائے۔ مگر ان کے دورمیں بہرحال مالی بے ضابطگیاں نسبتاًکم نظر آئی ہیں۔ بھٹوبذاتِ خودایک رئیس آدمی تھااوراس میں کرپشن کے جراثیم موجودنہیں تھے۔

    لہٰذامعاملہ کسی نہ کسی بہتری سے چلتارہا۔ ایک تلخ بات عرض کرتا چلوں۔ مشرقی پاکستان کاہمارے ملک سے علیحدہ ہوناایک سیاسی عمل توتھاہی۔ مگرمغربی پاکستان سے بنگالیوں کی نفرت کی وجہ اقتصادی غیرانصافی اورمعتبرطبقوں کے لالچ کے اندرپنہاں تھی۔ لائل پورمیں بننے والی بنیان ہمارے ہاں دوروپے کی فروخت ہوتی تھی مگرڈھاکا پہنچتے ہوئے اس کی قیمت دس سے پندرہ روپے ہوجاتی تھی۔ جعلی اشرافیہ نے پیسہ کمانے کی حرص میں مشرقی پاکستان میں نفرت کا وہ بیچ بوڈالا، جس نے ملک کے جغرافیہ کوہی تبدیل کر دیا۔

    بعدازاں جنرل ضیاء نے پورے معاشرے کی ہولناک خطوط پرسوشل انجینئرنگ کرڈالی۔ ایک جعلی سیاسی قیادت کوہمارے اوپربٹھادیا جووقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپکوحقیقی قائدبناتے گئے۔ ایک اَمربہت زیادہ توجہ طلب ہے۔ پنجاب جوکہ ملک کی سیاست کا سرخیل ہے۔ یہاں حکومتی وسائل کی لوٹ مارسے ایسی قیادت مضبوط ترہوگئی جس نے اپنے سیاسی حواریوں کوبھی دولت سے سرفرازکیا۔ سوکے قریب لوگ چونتیس پنتیس برس پہلے پیدل پھرتے تھے۔ یکایک دھن دولت کے پہاڑوں کے مالک بن گئے۔

    انھی لوگوں نے بیوروکریسی، ریاستی اداروں، عدلیہ اورہرطبقہ میں پیسہ کے بل بوتے پرایک غیرمعمولی وفادارطبقہ پیدا کیا، جو آج تک ان کے ساتھ ہے۔ سندھ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ عمران خان سے ہزاراختلاف کریں۔ مگر پہلی بار کسی شخص نے ملک کے زمینی خداؤں کو پابندِ سلاسل کیا ہے۔ یہ بالکل معمولی کام نہیں ہے۔ عمران خان کی حددرجہ غلطیاں ہونگی، مگراحتساب کے معاملے میں اس شخص کی سنجیدگی قابلِ تعریف ہے۔

    ہردم ہمارے ہاں پروپیگنڈے کیا گیاہے۔ یعنی اس احتساب کاکیافائدہ۔ کوئی رقم تووصول نہیں ہوئی۔ اگرہوئی بھی ہے تواس کی مقداربہت کم ہے۔ اس بات میں کافی حدتک صداقت موجودہے۔ عمران خان کے دعوؤں کے مطابق تواس وقت ان بحری قزاقوں کوفٹ پاتھ پر ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ کیوں۔ جناب، اس کی اصل وجہ ہماراناقص عدالتی نظام ہے۔ موجودہ نیب قانون کوزچ کرنے کے لیے بہترین وکلا دستیاب ہیں۔ جن کے سامنے ہمارے عدالتی جج قانونی طورپربے بس نظر آتے ہیں۔ احتساب کے قانون کوحددرجہ تندخو اور طاقتور بنانا چاہیے۔ مقدمہ کافیصلہ ایک سے دوماہ میں ہونا چاہیے۔ اور حضور، جس شخص نے ملک کی دولت لوٹ کر لندن، امریکا، فرانس اور آسٹریلیا میں محلات اورجزیرے خرید لیے ہیں۔ اس کے لیے صرف اورصرف سزائے موت ہونی چاہیے۔

    انھوں نے ہمارے بچوں کے مستقبل پر ڈاکا ڈالاہے۔ ان کے ساتھ قیدکی رعایت کیوں ہو۔ سو فیصدحکومتی ذمے داری ہے کہ نیب کے قوانین کو اتنا آہنی بنادے کہ رقم کی وصولی فی الفور ہوجائے۔ شاید سینیٹ کے الیکشن کے بعد حکومت جابر قانون سازی کے قابل ہوجائے۔ طالبعلم کی دانست میں نیب کے قوانین کوحددرجہ طاقتوربنانا چاہیے۔ قیدو غیرہ ختم کرکے تختہ دار پر لٹکانے کی شق ہونی ضروری ہے۔ سوچیے اگرلی کون یواپنے وزیرتعمیرات کی معمولی کرپشن پر خاموش ہوجاتا، تو سنگاپوراتنااعلیٰ ملک نہیں بلکہ پاکستان جیساہوتا!