Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Najaiz Daulat Kamaiye?

Najaiz Daulat Kamaiye?

مکیش امبانی دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار کیا جاتاہے۔ فوربز میگزین کے حوالے سے اس کی دولت نوے بلین ڈالر ہے۔ دو کمروں کے فلیٹ میں پیدا ہونے والا، انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والابچہ ہندوستان کا سب سے امیر آدمی بن جائے گا۔ چند دہائیاں پہلے سوچنا بھی محال تھا۔ بمبئی میں اس کا ذاتی گھر پندرہ ہزار کروڑ روپے کا ہے۔ ستائیس منزلہ گھر میں دنیا کی وہ ہر سہولت پر تعیش طریقے سے موجود ہے جس کا انسانی ذہن تصور کر سکتا ہے۔

باغات، سوئمنگ پولز، سینما، دو سو گاڑیوں کا گیراج، مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے قیمتی ہال، برق رفتار لفٹیں اور دیگر ہر آسائش موجود ہے۔ امبانی کی ذاتی زندگی حد درجہ سادہ ہے۔ پوری زندگی گوشت نہیں کھایا۔ صرف دال، سبزی اور چپاتی آج بھی اس کا من پسند کھاجا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ وہ برانڈڈ کپڑے نہیں پہنتا۔ بوشرٹ اور پتلون عام سے کپڑوں کی سلی ہوتی ہے۔

صبح پانچ بجے اٹھ کر اپنے گھر میں بنے جم میں ورزش کرتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہے۔ والدہ کی قدم بوسی کرتا ہے اور ریلانس گروپ کے دفتر روانہ ہو جاتا ہے۔ اس نے اپنی تنخواہ بھی دیگر امیر آدمیوں سے برعکس کم رکھی ہے۔ سالانہ دوملین ڈالر تنخواہ کو گزشتہ پندرہ برس سے منجمد کیا ہوا ہے۔ بہر حال ایک شوق ضرور ہے۔

دنیا کی قیمتی ترین گاڑیاں جمع کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک سو ستر گاڑیاں ہیں۔ امبانی اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکا۔ والد نے ایم بی اے کے دوران ہی اسے کاروبار میں جوت دیا۔ جو کہ ایک تقدیر بدلنے والا کام نکلا۔ عرض کرتا چلوں۔ دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری امبانی کی ہے۔

گجرات میں واقع اس ریفائنری میں 7 لاکھ بیرل تیل صاف کرنے کی استطاعت موجود ہے۔ اس کے گھر کے ہر کمرے میں والد کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ گھر کی دیکھ بھال کے لیے چھ سو ملازمین موجود ہیں۔ بتاتا چلوں کہ امبانی نے نوے بلین ڈالر کی دولت کو سرکاری گوشواروں میں ظاہر کیا ہوا ہے۔ یعنی تمام کی تمام وائٹ منی ہے۔ مکیش امبانی ریلانس گروپ کا سربراہ ہے اور دنیا کے کامیاب ترین تاجروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ذرا سوچیئے۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ، ہندوستان کے ایک تاجر کی دولت سے بھی حد درجہ کم ہے۔ یعنی صرف ایک آدمی ہمارے ملک کے تمام قرضوں کو ادا کر سکتا ہے۔ صرف ایک انسان ہماری تمام معیشت پر بھاری ہے۔ کیا گریہ کروں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔

ہم اتنے ابتر کیسے اور کیونکر ہیں۔ اب تو معاشی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ قرضہ واپس کرنے کے لیے بھی ہمیں قرضہ لینا پڑتا ہے۔ دنیا کے مالیاتی ادارے ہم پر بلکہ ہمارے ملک پر ہنستے ہیں۔ ہمارے اکابرین کی ڈھٹائی دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں۔ یہ کوئی ایک دو سال کے معاملات نہیں۔ گزشتہ چالیس پچاس سال سے تنزلی کا سفر جاری و ساری ہے۔ ہر ذی شعور انسان کافی کچھ جانتا ہے۔ مگر نظام نے ہر ایک کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ سب بے بس ہو چکے ہیں۔

طالب علم کی دانست میں ہمیں جھوٹ کے سمندر میں ڈبو دیا گیا ہے۔ سچ سننے کے لیے نہ اب کوئی حکومت تیار ہے اور نہ عوام۔ دراصل ہم دورغ گوئی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں حقیقت پسندی مکمل جھوٹ نظر آتا ہے۔ غیر متعصب رویہ ہمارے لیے گناہ کبیرہ بن چکا ہے۔ بے حسی کا اندازہ لگائیے کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی ہمارے لیے ہنسی مذاق سا بن گیا۔

ملک ٹوٹنے کے اگلے دن ہماری اشرفیہ ایسا تاثر دے رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ہمارے مقتدر طبقوں نے انتہا یہ کی کہ اکثریت رکھنے والے سیاست دان کو اقتدار حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ طالب علم نے پڑھی ہے۔ اسے پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ طاقت ور طبقہ جشن در جشن منا رہا تھا۔ ہر رات دیوالی کی رات تھی۔ لوٹ مار کا بازار لگا ہوا تھا۔ ملک ٹوٹ گیا۔ مگرذمے داروں کو کوئی سزا نہیں ملی۔ بلکہ حقائق کو چھپا کر جھوٹ کا وہ ملغوبہ پیش کیا گیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ذرا ماضی قریب پر نظر دوڑائیے۔ بلکہ حال کو بھی شامل کر لیجیے۔ چنددن پہلے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ عمران خان نے اپنے مخالف سیاسی لوگوں کو شکست دی ہے۔ ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد پی ڈی ایم کی قیادت لاہور میں جمع تھی۔ قہقہے لگ رہے تھے۔ شکست کے تاثرات کسی کے چہرے پر نہیں تھے۔ وجہ کیا ہے۔ ملکی معیشت، موجودہ دور حکومت میں ڈوب رہی ہے۔ ڈالر ایک بھرپور عذاب کی طرح اوپر جا رہا ہے۔ روپیہ ذلت کی سطح پر ہے۔ پھر یہ کیوں دانت نکال رہے ہیں۔ صاف بات ہے۔ ان کی تمام دولت ڈالروں اور پاؤنڈز میں بیرون ممالک محفوظ ہے۔

ان کی آل اولاد بھی محفوظ ہے۔ ان کے نوکر تک محفوظ ہیں۔ جیسے جیسے روپیہ ڈوب رہا ہے۔ ان کی ذاتی دولت میں بیٹھے بیٹھے اضافہ ہو رہا ہے۔ تو جناب، انھیں کس بات کا غم اور کس چیز کی فکر۔ بلکہ ڈوبتی ہوئی معیشت تو ان کے فائدے میں ہے۔ مگر اس پوری تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے۔ ان سیاسی اور غیر سیاسی اکابرین کو اندازہ ہی نہیں کہ عوام میں ان کے خلاف کتنی نفرت جمع ہو رہی ہے۔

یہ الیکشن ایک طرح سے معاشرے کا ایکسرے ہے۔ کہ دراصل عوام کیا چاہتے ہیں۔ اور مقتدر طبقہ انھیں دے کیا رہا ہے۔ یہاں ایک چیز وضاحت سے عرض کر دوں۔ کہ میں ہرگز ہرگز یہ نہیں سمجھتا کہ خان صاحب ہمارے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ دقیق نکتہ یہ ہے کہ ان کا بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ اختلاف کا بیانیہ ملک کے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف حقیقت میں امریکا ہی کے بنائے ہوئے ادارے ہیں۔

اگر ہمارا ایک لیڈر ہر لمحہ امریکا کے خلاف منفی باتیں کرے گا تو پھر یہ توقع کرنی عبث ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہمارے لیے خیر کا کام کرے گا۔ ہماری ڈوبی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرے گا۔ اس وقت ہمارا حال بغداد جیسا ہے۔ سارا دن، ہر پل، ہم صرف مباحثے میں مصروف ہیں۔ کس سیاست دان نے کیسے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ کون لنگڑا کر چل رہا ہے، کون سہارا لے کر بیٹھ رہا ہے۔

کس کی کمر میں درد ہے۔ کس نے کتنی شادیاں کر رکھی ہیں۔ اس طرح کی لغو باتیں اور تقابلی جائزے ہماری بحث کا محور ہیں۔ اس کے علاوہ ہم شخصیت پرستی میں ہر طور مبتلا ہیں۔ عمران خان کے حامی اپنے لیڈر کو پرفیکٹ گردانتے ہیں۔ نواز شریف کے ووٹر انھیں دیوتا سمجھتے ہیں۔ زرداری صاحب کے مداح انھیں کیا سمجھتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے۔ اور ہاں سیاسی، مذہبی لیڈر ثواب دین کے جعلی محافظ بنے ہوئے ہیں۔ ذاتی مفادات کے لیے مذہب کا بھرپور استعمال جاری و ساری ہے۔ مگر اب مجھے کسی سے کوئی بھی گلہ نہیں۔ اس لیے کہ ان مٹی کے مادھووں کے علاوہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

شاید کوئی عذاب ہے کہ معاشرہ بانجھ ہو چکا ہے۔ دور دور تک کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جسے حقیقی معنوں میں ملک کی باگ ڈور سونپی جا سکے۔ اپنی اپنی غرضوں کے غلاموں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ بہرحال، ضمنی الیکشن نے مفادات کے قلعے پر کاری ضرب ضرور لگائی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ آنے والے چناؤ میں متعدد زمینی بت، عوام کی نفرت کے باعث مونہہ کے بل گر جائیں گے۔

ریاستی اداروں کے متعلق بھی اب منفی اور مثبت رائے موجود ہے۔ یہ حد درجہ خطرناک بات ہے کہ وہ ادارے جو اپنی جان پر کھیل کر ملکی سالمیت کی حفاظت کر رہے ہیں۔ عوام الناس میں اپنے چند سیاسی فیصلوں کی وجہ سے وجہ بحث ہیں۔ جن حکومتی ایجنسیوں کا نام تک لینا دشوارتھا۔ آج انھیں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کے القابات دیے جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال تشویشناک نہیں بلکہ خوفناک ہے۔ احتسابی ادارے کے سابق سربراہ کے متعلق ایک خاتون کی جنسی ہراسگی کے قبیح الزامات ہیں۔ اس طرح کے بہت سے نازک معاملات ہیں جو ہماری قومی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔

ویسے سوال یہ ہے کہ اگر مکیش امبانی پاکستان ہوتا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔ شاید وہ کسی ریاستی ادارے کی قید میں ہوتا اور ثابت کر رہا ہوتا کہ اس نے نوے بلین ڈالر جائز طور پر کمائے ہیں۔ شاید ہم اسے قومی چور ثابت کر دیتے۔ اس کے خلاف جلوس نکالتے کہ اس کا احتساب کیا جائے یا اسے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ کچھ بھی ممکن تھا۔ شاید اب ہمارے سماج میں جائز دولت کمانا قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ چکا ہے۔ ہاں ناجائز دولت کمانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔