Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Naqaal

    Naqaal

    جناح کالونی کے گراؤنڈکے نزدیک ایک چوک تھا۔ لائل پورکے چھتری والے گراؤنڈکی بات کررہا ہوں۔ رمضان موچی حسبِ معمول چند جوتے سامنے رکھ کراردگرد جمع لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ 1963کاذکرہے یا شاید1964کا۔

    اچھی طرح سے یاد نہیں۔ میں زمان پنساری کی دکان سے کچھ خریدرہا تھا۔ اچانک دیکھا چوک میں ایک عجیب وغریب حلیے کا آدمی کھڑا ہے۔ اس نے شلوارپہن رکھا تھا۔ کپڑے میلے کچیلے تھے۔ گریبان کھلا تھا، سرسے خون نکل رہا تھااورسفید قمیص خون اور دیگر مختلف رنگوں سے مزین تھی۔ لمبے کالے بال بکھرے ہوئے تھے اور ہاتھ میں ایک پکی اینٹ پکڑرکھی تھی۔ یہ سب کچھ وحشت ناک لگ رہاتھا۔ میں آٹھ نوسال کا بچہ تھا، یہ سب کچھ دیکھ کر ڈرگیا۔ مگرچوک میں کوئی بھی اسے غورسے نہیں دیکھ رہا تھا۔ سب اپنے کام میں مشغول تھے۔ رمضان موچی بغیرکسی فکرکے باتوں میں مصروف۔ کریانہ کی دکان میں زمان کسی پریشانی کے بغیرلوگوں کو سوداسلف فروخت کررہاتھا۔

    نزدیک شفیع برف والا، تھڑے پربیٹھا، برف کی سلوں پربوری درست کررہاتھا۔ میرا دل چاہ رہا تھاکہ اردگرد موجود بچوں کوبتاؤںکہ دیکھو یہ کتنا خطرناک آدمی چوک میں اینٹ لیے کھڑا ہوا ہے۔ کوئی اسے مرہم پٹی کے لیے کیوں نہیں لے جارہا، سب خاموشی سے اپنے کام میں مصروف کیوں ہیں۔ یہ کسی کواینٹ مارکرزخمی نہ کر دے۔ میں ایک کونے میں کھڑاہوکرغورسے اس آدمی کو دیکھ رہاتھا۔ اتنی دیرمیں ایک شخص وہاں سے گزرا، صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس اس آدمی نے غور سے زخمی شخص کواینٹ اُٹھائے دیکھااورذراسرعت سے چوک سے آگے جانے کی کوشش کی۔

    اینٹ والا آدمی تیزی سے اس شریف بندے کی طرف جھپٹا۔ اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کراس اجنبی شخص نے وہی کیا، جوہرخوفزدہ آدمی کرتاہے۔ اس نے ڈر کر بھاگنا شروع کردیا۔ اینٹ والاشخص خون میں لَت پت اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ میں بھی ان دونوں کے پیچھے دوڑنے لگا۔ تقریباًسوفٹ دورجاکر، وہ شریف آدمی رُک گیا۔

    اس نے بڑی سادگی اورمعصومیت سے پیچھا کرنے والے ظالم آدمی کی طرف دیکھا، اینٹ والا شخص آرام سے اس کے پاس گیا۔ میرا خیال تھاکہ اب یہ اینٹ سے اس کاسر پھاڑ دے گا۔ مگراگلاواقعہ میری توقع سے بالکل مختلف تھا۔ زخمی نظر آنے والے آدمی نے بڑے ادب سے دوسرے شخص کو اُٹھایا۔ اینٹ تمیزسے ایک طرف رکھ دی۔ ہنستے ہنستے، ہاتھ بڑھاکردوسرے شخص کوکھڑاکیا۔ زورسے بولا، باؤجی، سلام اورکھٹ سے سلوٹ مارا۔ اجنبی آدمی بھی حیران رہ گیا، جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دویاچارروپے نکالے اور اینٹ والے آدمی کودیدیے۔

    قہقہے بلندہوئے اور ڈرامہ ختم ہوگیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اینٹ والاشخص، اب دوبارہ چوک کی طرف چل پڑا۔ وہاں پانی کے نلکے پرسردھونا شروع کردیا۔ دراصل یہ سرخ رنگ تھا۔ جواس نے اپنے سرپرڈال رکھاتھا۔ اینٹ پربھی رنگ لگاہوا تھا۔ اسے بھی صاف کیااورخاموشی سے چلاگیا۔ دراصل وہ شخص نقال تھا۔ آپ اسے سوانگ رچانے والاشخص بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ اس طرح مختلف روپ دھارکر راہگیروں کو تھوڑاسا ڈراتا اور پھر دوچارروپے انعام میں وصول کرلیتا تھا۔ یعنی وہ تمام کھیل دراصل ایک آدمی کی شعبدہ بازی تھی، جس سے وہ اپنی روزی حاصل کرتا تھا۔

    یہ واقعہ بالکل معمولی ساہے۔ مگرآج سوچتا ہوں۔ اپنے اردگرددیکھتاہوں تومجھے پورامعاشرہ اور نظام ایک ڈھونگ نظرآتاہے۔ جعلی جعلی سا۔ نقلی۔ کسی بھی شعبے کوپرکھیے۔ ہمیں روز بتایاجاتا ہے کہ عدل کے بغیر کوئی معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ کسی ملک میں اگرانصاف ہورہا ہو، تو اس ملک کی سالمیت کوکوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ مذہبی حوالے بھی دیے جاتے ہیں جن میں انصاف کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ درست ہے۔ صائب ہے۔ مگرعملاً پورے نظام میں انصاف نام کی کوئی چیزموجودنہیں ہے۔

    ہمارا نظام انصاف ناکارہ ہوچکا ہے۔ ظلم اوربربریت کے خلاف نظامِ انصاف کی مکمل ناکامی عیاں ہوچکی ہے۔ وجوہات سب کومعلوم ہیں مگرطاقتورسے طاقتورحکمران بھی نظام عدل کوتبدیل کرنے کی جرات نہیں کرسکا۔ طالب علم کی نظر میں اس کی صرف ایک وجہ ہے۔ یہ بوسیدہ اورشکستہ نظامِ طاقتوروں کے جرائم کوڈھانپنے میں مددگار ہے۔

    غریب کے لیے دھکے، تاریخ پر تاریخ اور وکیلوں کی فیس سواکچھ نہیں ہے۔ ہوسکتاہے کہ آپ کو میری بات درست نہ لگے۔ لیکن کسی دن کچہری اور عدالت میں جاکردیکھیے۔ وکیل اور سرکاری عمال، سائلین کی جیبیں خالی کرنے میں مصروف نظر آئیں گے۔ بے چارے سائلوں سے پوچھیے تو ان کی حالت پر رونا آئے گا۔ ہمارے نظامِ عدل میں انصاف سوا سب کچھ ہے۔ گزشتہ بہتربرس میں ہم عدالتی اصلاحات نہیں کر پائے۔ کیوں ہم نے انگریزوں کے بنائے ہوئے ایک غیر فطری اورجبری نظام میں تبدیلیاں نہیں کیں۔ اس کا تسلی بخش جواب ہمارے ملک کاکوئی سیاسی لیڈر، سرکاری افسر اور جیورسٹ نہیں دے پائے گا۔

    صرف نظامِ انصاف نہیں۔ ہم ہرجہت میں ناکامی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ کسی بھی حکومت کی گورننس کو معیاری کہنا ممکن نہیں ہے۔ دل تھام کر جواب دیجیے، کیا ہمارے سماجی، عائلی، اقتصادی، معاشی نظام واقعی درست سمت میں گامزن ہیں۔ ہرگز نہیں، صاحبان! ہرگزنہیں۔ آپ ملک کے معاشی نظام کاگہرائی سے تجزیہ کریں۔ ہمارے معاشی ادارے نیا کاروبارکرنے والے کسی شخص کوسرمایہ فراہم نہیں کرتے، یہ بینک، حکومت کے جاری کردہ ٹی بلزاور سرمایہ کاری اسکیموں میں پیسہ لگاکر انفرادی منافع کماتے ہیں۔ مگران کارویہ "بزنس فرینڈلی"بالکل نہیں ہے۔ پھر شرح سود اتنی زیادہ اور اس کا تخمینہ لگانے کا میکنزم اتنا پیچیدہ ہے کہ اگرایک بارکوئی بھولابھٹکا شخص ان کے قابوآگیا تو یہ اس کی جائیداد تک بکوادیتے ہیں۔ آج امریکا میں شرح سود، ایک سے ڈیڑھ فیصد ہے اورہمارے پیارے ملک میں دس سے تیرہ فیصد ہے۔

    اس معاشی نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی کرنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔ کیونکہ یہ مالیاتی ادارے بڑے کاروباری سیٹھوں کے معاملات کو تحفظ دے رہے ہیں۔ عوامی سرمایہ کاری سے ان کا دور دور کا واسطہ نہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یوں ہے کہ اگر مالیاتی ادارے ظلم کررہے ہیں توکاروباری طبقہ اپنا تمام غصہ اور پریشانی اپنے ملازمین اور صارفین پرنکال رہے ہیں۔ ہمارا تاجرطبقہ بظاہربہت مذہبی نظرآتاہے مگر اندر سے یہ چھرے ہیں۔

    ان کے کاروباری روئے کاکسی اخلاقی اُصول سے کوئی تعلق نہیں۔ سب لچھے دارباتیں ہیں۔ یہ جب تک ایک روپے کی چیزدس گیارہ روپے میں نہ فروخت کرلیں، انھیں چین نہیں آتا۔ پھرملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کاالگ وطیرہ ہے۔ تھوک کاروبا ر کرنے والے تاجر اور آڑھتی طبقہ مذہبی رسومات کا انتہائی پابند نظر آتا ہے لیکن کاروبار کرتے ہوئے اپنے گاہکوں کے ساتھ معاشی انصاف کرنے پربالکل یقین نہیں رکھتا۔

    کسی بھی شعبے پرنظرڈالیے۔ آپ کو انسانوں کے روپ میں سفاک بھیڑیے اوردرندے ملیں گے۔ دوائیوں سے لیکر اسپتالوں کے ڈاکٹرز اور نچلے عملے تک، سرکاری افسروں سے لے کر چوکیدار اور چپراسی تک، رھیڑی پر پھل فروخت کرنے والے سے لے کر مزدور تک کوئی بھی اپنا فرض نیک نیتی سے ادا کرتا نظر نہیں آئے گا۔ کوئی بہتری کرنے والابھی نہیں۔ جناح کالونی کاوہ سوانگ رچانے والاتو پھر بھی اصلی بہروپیا تھا، کسی کو تھوڑی دیر کے لیے پریشان کرنے کے بعد حقیقت تو بتا دیتا تھا۔ مگر ہمارے ادارے اورنظام نقلی ہونے کے باوجود، اپناخون آلودہ چہرہ صاف نہیں کرپارہا۔ ان تمام سے تووہ نقال ہی بہترتھا۔ کم ازکم اصل توتھا!