تین دن پہلے، بچپن کے ایک دوست کارات گئے فون آیا۔ پورے تیس برس بعدرابطہ کیاتھا۔ حادثات زمانہ ہیں کہ وہ ساتھی جن کے دم سے زندگی آبادرہتی تھی، عملی زندگی میں مصروفیت کے تحت خواب سے بن کررہ گئے۔ حسن ابدال سے لے کرمیڈیکل کالج تک ہردم اکٹھے رہے۔
ستراوراَسی کی دہائی میں تمام فلمیں اکٹھی دیکھیں۔ بات فون کی ہورہی تھی۔ بالکل پرانی آوازمگر اَزحد کمزور اندازمیں بات کررہاتھا۔ دل میں ہرطرح کے گمان پیدا ہونے لگے۔ میرانام لے کرکہنے لگاکہ آکر لیجاؤ۔ میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہے۔ جتنی تیزی کرسکتا تھاجو اس عمرمیں ممکن ہے۔ پھرتی سے تیار ہوکر اس کے ٹھکانہ پر پہنچ گیا۔ دراصل وہ ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں عرصے درازسے رہ رہاتھا۔ ایساکیوں تھا۔ یہ بذاتِ خود ایک افسوسناک کہانی ہے۔ کمرے میں پہنچا تو ڈاکٹر صدیقی پہلے سے موجودتھا۔ صدیقی بذاتِ خودایک انتہائی ہمدرد انسان ہے۔
میڈیکل کالج میں اس سے کوئی خاص واسطہ نہیں تھا۔ بلکہ بہت کم رابطہ تھا۔ جب دیرینہ دوست کو تیس برس بعددیکھاتوبالکل نہ پہچان سکا۔ کہاں چھ فٹ کاوجیہہ نوجوان اورکہاں ایک انتہائی بیمار آدمی جوسانس تک مشکل سے لے رہاتھا۔ دراصل اس کی نازک حالت دیکھ کرنجی ہوسٹل والے بھی کمرہ خالی کروانا چاہتے تھے۔ پہلاکام تواسے اسپتال لیجاناتھا۔ جسے ڈاکٹر شاہد اور ڈاکٹر کامران نے کسی کوبغیربتائے خودہی کرڈالا۔ پراب سوال یہ تھاکہ اسپتال کے بعداپنے دوست کوکہاں لیجایاجائے۔
کسی کے گھررہنے کے بھی قابل نہیں تھا۔ کیونکہ سانس اوردل کامرض بری طرح اسیر کرچکا تھا۔ جس اسپتال میں لے کرگئے تھے۔ انھیں بھی حدسے زیادہ رش کی وجہ سے بیڈکی ضرورت تھی۔ یعنی ایک انسان جواسپتال میں دوتین دن گزارنے کی وجہ سے قدرے ٹھیک ہوگیا تھااب اسے کہاں منتقل کیا جائے۔
عزیزواقارب، کوئی بھی نہیں تھے۔ اس مقام پریک دم خیال آیاکہ اولڈہوم یعنی بزرگ آدمیوں کو رکھنے کاکوئی توادارہ ہوگا۔ یہ توعلم تھاکہ مغرب میں ہر شہر اورقصبہ میں اولڈہوم ہیں۔ کیالاہورمیں بھیہونگے۔ اس کاجواب ہم تمام دوستوں میں سے کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ گوگل پرجاکردیکھاتومعلوم ہواکہ لاہور شہر میں کئی نجی اولڈہوم موجودہیں۔ ان میں سب سے معروف ہوم، پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری ادارے کا تھا۔ فون پرایک نیم مہذب خاتون نے بتایا کہ ان کے پاس کمرہ موجود ہے۔ تین وقت کاکھانابھی فراہم کرتے ہیں۔ جب اخراجات کا پوچھاتودوائی کے بغیرساٹھ ہزار روپے بتایا گیا۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے پاکستان میں اعلان دراعلان کررکھاہے کہ خلقِ خداکی بھرپورخدمت کرتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کومفت کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔
غریب لوگوں کے لیے کمال کی امدادکیجاتی ہے۔ بہرحال باہم مشورہ سے تمام دوستوں نے فیصلہ کیاکہ درست ہے، اپنے مریض ساتھی کووہیں داخل کروا دیتے ہیں۔ کم ازکم بنیادی دیکھ بھال تو مہیا ہوپائیگی۔ مگر اگلا مرحلہ عجیب وغریب ساتھا۔ بلکہ کافی حدتک غیر متوقع بھی۔ جب اولڈ ہوم کے عملہ کوبتایاکہ درست ہے، آپ کمرہ مختص کیجیے، ہم، مریض کولارہے ہیں۔ تو پوچھا گیا کہ اس کی صحت کیسی ہے۔ جواب دیاکہ اس کی حالت قدرے بہتر ہے۔ مگر سانس اوردل کاعارضہ لاحق ہے۔
پھرہم نہیں داخل کرسکتے۔ کیونکہ اگرکوئی بزرگ شخص، کسی مرض کا شکار ہو اوراس کی طبی دیکھ بھال کرنی پڑے، تووہ ہم نہیں کرسکتے اورانھیں داخلہ بھی نہیں دیتے۔ اب خوداندازہ لگا لیجیے۔ کون سابوڑھاانسان ہوگا، جوکسی مرض کااسیرنہ ہوگا۔ اور کون ہے جواپنی مرضی سے ایک یکسر تنہا جگہ پر صرف اس لیے جائیگاکہ وہ کسی موذی مرض کاشکار ہے۔ یہ تومکمل بے بسی کاکھیل ہے۔ جب انسانی رشتے جواب دے دیں، تو پھرمجبوری میں انسان، ہمارے جیسے ملک میں کسی اولڈہوم کے متعلق سوچتاہے۔
ہم، تین چاردوست صرف اس سوچ میں ہلکان تھے کہ اب کیافیصلہ کیاجائے۔ یعنی، پرائیویٹ ہوسٹل، گورنمنٹ اسپتال اورنجی اولڈہوم، تمام ادارے ایک ایسے بوڑھے مریض کولینے کے لیے تیارنہیں تھے، جسے واقعی مدد کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ سے بھی ایک دوسرے اولڈ ہوم کانمبرملا۔ فون کیا، توبتایاگیاکہ یہ تو عرصہ درازسے بند ہوچکاہے اوراب اسے ایک گودام بنا دیاگیاہے۔ تیسری جگہ فون کیا۔ ایک کالونی میں موجود اولڈہوم سے رابطہ ہوا۔ سوال کیاکہ ایک بزرگ مریض کے لیے کمرہ چاہیے۔ جواب تھاکہ اگرسنگل کمرہ چاہیے تواسکاکرایہ پچاس ہزار ماہانہ ہوگا۔
اگرکسی کے ساتھ کمرہ شیئرکرناہے تو پھر پچیس ہزار، ماہوار۔ دوائیاں اپنی ہوں گی۔ نوکر رکھنا ہے تو اس کا معاوضہ الگ۔ فون اُٹھانے والے شخص سے گزارش کی کہ آپ مجھے دوتین گھنٹے کاوقت دے دیجیے۔ دوستوں سے مشورہ کرکے مریض کو لانا چاہتا ہوں۔ فون سننے والے نے قہقہہ لگا کر کہا۔ جناب، یہاں تواگلے منٹ کاپتہ نہیں۔ دوتین گھنٹے کاانتظارتوبہت زیادہ ہے۔
مطلب تھا کہ بھائی جان، فوری طورپرآجاؤ۔ پیسے دو اور کمرہ لے لو۔ دس منٹ کا وقت مانگ کرکامران کوفون کیا تو ڈاکٹر شاہدبھی ساتھ تھا۔ وہ دونوں، بالکل اسی اولڈہوم کے رواں دواں تھے، جہاں میری بات ہوئی تھی۔ فیصلہ یہی ہواکہ اس اولڈہوم میں اپنے دیرینہ دوست کومنتقل کردیتے ہیں۔ اوسط درجے کاکمرہ، درمیانے درجہ کی کالونی اور کسی بھی معیاری طبی سہولت کے بغیر، پچاس ہزار روپے ماہوار پر کمرے لینے کاانتہائی مجبوری کا فیصلہ تھا۔
انسان اگربزرگی کی گراں منزل کی طرف روانہ ہو تواسے سب سے زیادہ اپنے پیاروں میں رہنے کادل چاہتاہے۔ اولادکے ساتھ، اوراگروہ نہ ہو، توکسی قریبی رشتے دارکے ساتھ۔ ہربوڑھے انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اپنائیت نصیب ہو۔ زیادہ دیرنہیں تو چلو، تھوڑی دیرکے لیے، خوش رہے۔ مگریہ صرف خواہش ہی ہوسکتی ہے۔
کئی باربدنصیبی اس طرح گھیرلیتی ہے کہ انسان صرف اور صرف بے بس ہوتاہے۔ اس کی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ عزیزوں کاوجودہی نہیں ہوتایاوہ اسے رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اولاد، بوڑھے والدین یابزرگوں کو سوائے بوجھ کے کچھ نہیں سمجھتی۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں ہم تمام دن، اپنی بہتر خاندانی، روایات پربات کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ایسے لوگ جوکسی بھی وجہ سے پختہ عمر میں اکیلے رہ گئے ہیں، انھیں کہاں رکھا جائے۔ اولڈہوم مجبوری میں ایک راستہ توہے۔ مگرپچاس سے ساٹھ ہزار مہینہ کتنے فیصدلوگ اداکرسکتے ہیں۔ دوائیوں کاخرچہ الگ۔ زندگی کے اوربہت سے بکھیڑے ہیں۔
ملا جلا کر زندہ رہنے کا مکمل پیکیج کوئی ایک لاکھ کے لگ بھگ بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں روزگارکم سے کمتر ہوتا جارہا ہے۔ جوان نسل کے لیے ان کی تعلیم کے مطابق نوکریاں ملنی ناممکن ہیں۔ کیاکوئی اپنے بزرگوں کے لیے اتنی رقم خرچ کرسکتا ہے۔ مشکل ساسوال ہے۔ جواب کم ازکم میرے پاس تونہیں ہے۔ میرے والد تو ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انتقال کرگئے تھے۔ والدہ فالج کی بیماری میں چھ سال مبتلا رہیں۔ اس میں کم ازکم ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا۔ جس میں میری اہلیہ، بہنوں اور بچوں نے ان کی خدمت نہ کی ہو۔ مجھے تواولڈہوم کے خیال سے ہی وحشت سی ہوتی ہے۔ بھلااپنے پیاروں کو کسی اورکے حوالے کیا جا سکتا ہے؟
مگرزندگی کے تھپیڑے انسان کووہ کچھ کرنے پر مجبورکردیتے ہیں، جووہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ انھی میں اولڈ ہوم کی زندگی ہے۔ جہاں کم ازکم دوائی دینے کے لیے کوئی تو موجودہوتاہے۔ چلیے، بات کرنے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مل جاتاہے۔ ایک انتہائی دردِدل رکھنے والے کمشنر صاحب کے ساتھ کام کرنے کااتفاق ہوا۔
جو ملک کے مایہ نازشاعربھی تھے۔ چندماہ پہلے ان سے بات ہوئی۔ تو بتانے لگے کہ لاہورسے اسلام آبادمنتقل ہوچکے ہیں۔ وہاں ان کی چھوٹی بہن رہتی ہیں۔ عجیب سا لگاکہ ان کے پاس تولاہورمیں گھربھی تھا۔ پھراسلام آباد جانے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ بتانے لگے کہ بیوی کاانتقال ہو چکا ہے۔ بچے اوربچیاں اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ گھرمیں کوئی بھی فرد موجود نہیں۔ کوئی تو ہونا چاہیے، جو دیکھ بھال کرسکے۔ چنانچہ فیصلہ کیاکہ اپنی چھوٹی بہن کے پاس منتقل ہواجائے، تاکہ کسی دم کا سہارا توہو۔
سوچنے کی بات ہے۔ کہ اگرانسان اس ملک میں واقعی بے وسیلہ ہوجائے اوربڑھاپابھی ہو، تواولڈہوم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اب اسکادوسراپہلویہ ہے کہ حکومت، معیاری سطح کے اولڈہومزبنوائے تاکہ موت کی سرحدکی طرف گامزن لوگ کچھ وقت، بہترطریقے سے گزارلیں۔ نجی شعبے کاحال توعرض کرچکاہوں۔
وہ اسے بھی ایک بھرپورکاروبارمیں کامیابی سے تبدیل کر چکے ہیں۔ حکومتی سطح پر"شیلٹرہومز"کی بات ضرور کی گئی ہے۔ ان کی اصلیت کیاہے۔ کم ازکم اکثریت کو بالکل معلوم نہیں۔ ٹی وی پر نظرضرورآتاہے کہ وزیراعظم شیلٹر ہومز میں کھاناکھارہے ہیں۔ بڑی بڑی تصاویربھی شایع ہوتی ہیں۔ مگرکسی بھی غیرجانبدارادارے یاشخص نے ابھی تک کوئی ایسی بات نہیں کی، کہ شیلٹرہومزکے معیارکے متعلق لکھ سکوں۔ شایداب وہ وقت آگیاہے کہ جب بدقسمتی کسی بزرگ کوگھیرلے توصرف اور صرف اولڈ ہومز ہی کفالت کے لیے رہ جائیں۔ صاحب یہ نام سنکرہی ڈر لگتا ہے۔ اولڈہوم۔