19 ستمبر 1918 کو فلیڈلفیا کی بندرگاہ پر ایک جنگی بحری جہاز رُکا۔ اس میں امریکی فوجی، نیوی کے افسران اور اَن گنت عملہ وطن واپس لوٹ رہا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم زوروں پرتھی۔ امریکا پوری دنیامیں ایک سُپرپاورکے طورپرقدم جماچکاتھا۔ فلیڈلفیااس جنگ کے لیے اس لیے بھی حددرجہ اہم تھاکہ یہاں بحری بیڑے بنانے کی کامیاب ترین صنعت موجودتھی۔ لوہے کے کارخانے، بھاری مشینری بنانے کی فیکٹریاں اوربہت جدیدبحری جہازبنانے کے محیرالعقول شپ یارڈ کامیابی سے کام کررہے تھے۔ اس کے علاوہ، اس شہرسے ہزاروں نوجوان امریکی نیوی میں کام کررہے تھے۔
پہلی جنگِ عظیم میں امریکا کاپلڑہ اگربھاری تھا تواس میں فلیڈلفیا کابہت زیادہ عمل دخل تھا۔ 19 ستمبرکواپنے گھروں کو جانے والے لوگوں کے لیے پوراشہرچشمِ براہ تھا۔ ہرطرف خوشی کاسماں تھا۔ کسی کوعلم نہیں تھاکہ بیرونی ممالک سے ڈیوٹی کرنے والے لوگ ایک نظرنہ آنے والے خوفناک وائرس کوساتھ لے کرآئے ہیں۔ جس سے اسپینش فلو (Spanish Flu)جیسی بلاہرطرف موت کاکھیل کھیلنے میں کامیاب ہوجائیگی۔ صرف تین دنوں میں ڈاکٹروں کے پاس، پردیس پلٹ بیمار لوگ آنے لگے۔ یہ تمام اسپینش فلو میں مبتلا ہوچکے تھے۔ جہازسے اُترنے کے بعد چنددنوں میں چھ سولوگ اس مہلک مرض کاشکارہوچکے تھے۔ موت فلیڈلفیاکے ہرگھر پر خاموشی سے دستک دے رہی تھی۔ مگرلوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ معمولی ساجر ثومہ، بھلاہماراکیابگاڑلیگا۔ ہم پوری دنیاکے فاتح ہیں۔ اس فلوسے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مگریہ تمام اندازے مکمل طورپرغلط ثابت ہوئے۔
چندمقامی ڈاکٹر، اس وباء سے اَزحدپریشان تھے۔ انھی میں ڈاکٹرٹونی ریڈDr. Tony Readبھی تھا۔ اس نے تحقیق سے ثابت کیاکہ لوگوں کوآپس میں بھرپورسماجی فاصلہ رکھناچاہیے۔ اس کے علاوہ کسی قسم کے اجتماع نہیں ہونے چاہئیں۔ مگرڈاکٹرٹونی ریڈکی بات لوگوں کے عمومی مزاج کے خلاف تھی۔ لوگ جنگ کی کامیابی سے سرشارتھے۔ کسی نے بھی ڈاکٹروں کی باتوں کوسنجیدہ نہیں لیا۔ 28ستمبرکواس شہرنے ایک عظیم الشان عوامی پریڈکااہتمام کیا۔ اس کانام لبرٹی لون پریڈتھا۔ دو لاکھ شہری، امریکی جھنڈے لہراتے ہوئے سڑکوں پرنکل آئے۔ سیکڑوں میوزک بینڈشاہراؤں پردھنیں بکھیرنے لگے۔ اَن گنت اسکاؤٹ اور پرانے فوجی یونیفارم پہن کر سڑکوں پر سلامی دینے لگے۔ بچیوں نے جتھوں کے اندر، سڑکوں پررقص کرناشروع کردیا۔ سیکڑوں سجے ہوئے فلوٹ شہرکے مختلف حصوں میں چکرلگانے لگے۔ غرضیکہ ایک جشن کا سماں تھا۔
اس عظیم اجتماع نے وائرس پھیلنے میں حددرجہ سفاکی کی۔ فلیڈلفیا، اسپینش فلوکی گرفت میں آگیا۔ پریڈسے اگلے 6 ہفتوں میں 12 ہزار شہری مر گئے۔ 45 ہزار لوگ اس فلو کی بدولت بیمارہوگئے۔ اگلے 7 مہینوں میں 5 لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہوگئے۔ چندماہ میں سولہ ہزارانسان زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ صرف ایک شہرکی بات ہورہی ہے۔ پولیس اہلکار سیکڑوں کی تعدادمیں بیمار ہوکر اسپتالوں میں پہنچ گئے۔ تمام ٹیلیفون آپریٹر وائرس کی گرفت میں آگئے۔ پورے شہر کا نظام درہم برہم ہوکررہ گیا۔ ہرگھرمیں موت رقص کرنے لگی۔ مرنے والوں کے لیے اجتماعی قبریں بننی شروع ہوگئیں۔
حالات کی زبوں حالی کااندازہ لگائیے۔ مسزاینڈرسن کے دوجڑواں بچے تھے۔ ان میں سے ایک فلوکی بدولت چل بسا۔ ماں نے اپنے بیٹے کے لیے الگ قبرکی درخواست کی۔ مقامی انتظامیہ نے جگہ نہ ہونے کی بدولت علیحدہ قبر دینے سے انکارکردیا۔ کسی کو بتائے بغیر مسزاینڈرسن نے اپنے دونوں بچوں کو گود میں لیا جس میں ایک زندہ اور دوسرا مردہ تھا۔ کشتی میں بیٹھی اور نیوجرسی آگئی۔ کشتی میں کسی کوعلم نہ ہوا کہ ایک مردہ بچے کو گود میں لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔ مسافربچوں کے گال تھپتھپاتے تھے کہ ماشاء اللہ کتنے پیارے بچے ہیں۔ بحری سفر کے بعد وہ ماں نیوجرسی پہنچی، جہاں شرح اموات کافی کم تھیں۔ وہاں اسے بچے کو دفنانے کے لیے علیحدہ قبر مہیا کی گئی۔ یہ ہوتی ہے وباء اوراگر احتیاط نہ کی جائے، تو کتنے خوفناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
یہ سب کچھ لکھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ ایسے لگا کہ اس وقت یہ لکھناایک فرض کی ادائیگی ہے۔ صرف ایک دن پہلے لاہور شہر میں بڑی شاہراؤں پرجانے کااتفاق ہوا۔ ذاتی وجوہات کے تحت باہر نکلنا کافی ضروری تھا۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ماسک پہنا۔ ہاتھ صابن سے مل مل کرایک منٹ تک دھوئے مگر جیسے ہی میں ایک آبادی کی طرف گیا تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ درجنوں ٹھیلے والے، کسی قسم کے حفاظتی انتظام کے بغیربڑے اطمینان سے پھل فروخت کررہے تھے۔ لوگ دستانے پہنے بغیر خریداری میں مصروف تھے۔ ہزاروں موٹرسائیکل ہرطرف رواں دواں تھے۔ اس پرسوار، مرد، عورتوں اور بچوں نے کسی قسم کے ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے۔ تقریباًتمام دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ بے دھڑک کاروبار ہورہاتھا۔ گاڑیوں میں سوارلوگوں کی اکثریت کسی قسم کے حفاظتی انتظام سے مبراتھی۔ ایسے لگ رہاتھاکہ کورونا کی وباء صرف اور صرف میڈیاپرموجودہے۔ ہرطرف وہی اطمینان بخش افراتفری تھی جولاہورشہرکاخاصہ ہے۔ اسی دوران شہرسے متصل ایک کچی آبادی میں جانے کااتفاق ہوا۔ آبادی میں بھی وہی حال تھاجوباہردیکھ کرآیاتھا۔ ننگ دھڑنگ بچے خوب کھیل کودرہے تھے۔ منیاری کے ٹھیلے، خریداروں کوگلیوں میں آوازیں دے رہے تھے۔
لوگ کسی بھی ماسک یا حفاظتی انتظام کے بغیر بے فکری سے گھوم پھررہے تھے۔ گھروں کے باہر، معمول کے مطابق خواتین پوچا لگارہی تھیں۔ کوروناکے دوردورتک کوئی آثارنہیں تھے۔ حکومتی عملداری کاکوسوں تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ یقین فرمائیے۔ پریشان ہوگیا۔ تقریباً پوراشہر کھلاہوا تھا۔ وہی بے فکری، وہی اجتماعی بے نیازی، وہی لاپرواہی اور وہی معمول کی زندگی۔ کسی قسم کاکوئی فرق محسوس نہیں ہواکہ ہم ایک وباء کاسامناکررہے ہیں جس میں جان تک جاسکتی ہے۔
لاہور شہرکی عرض کررہاہوں۔ پنجاب کے باقی شہروں میں کیا حال ہے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ باقی صوبے کیا کررہے ہیں۔ اس پربھی کوئی ذاتی رائے دینے سے قاصرہوں۔ کیونکہ صرف آنکھوں دیکھی بات ہی بیان کر سکتا ہوں۔ قیاس ہے کہ اگرصوبائی دارالحکومت میں اتنی دگرگوں صورتحال ہے توباقی شہروں میں بھی یہی حال ہوگا۔ یہاں توپوری صوبائی حکومت معہ وزیراعلیٰ قیام پذیر ہے۔ اگر لاہور میں کسی قسم کاکوئی کنٹرول نہیں ہے توباقی شہروں کے متعلق بات کرنامکمل طورپر بیکار ہے۔
شائد ہمارے جیسے معدودے چند فیصد لوگ مکمل طور پرفارغ العقل ہیں کہ ہم تمام حفاظتی انتظامات کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ عام صابن سے باربارہاتھ دھوتے ہیں۔ باہر نکلتے وقت ماسک اوردستانے پہننے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے گھرمیں بھی فاصلہ رکھ کربیٹھتے ہیں۔ ہاں، اگرکسی سے ملناپڑے توہاتھ نہیں ملاتے۔ صرف تعظیم کے لیے جھک جاتے ہیں۔ ایسے لگ رہاہے کہ میرے جیسے چندفیصدلوگ جو کوروناکی مہلک وباء کوسنجیدہ لے رہے ہیں، اَزحدغیر سنجیدہ لوگ ہیں۔ عام انسان کوتوکوئی پرواہ ہی نہیں۔ کون ساکورونا، کون سی وباء اورکیسی حفاظت!
مگر ایک اندیشہ لاحق ہوچکاہے۔ جس طرح 1918میں فلیڈلفیاکی انتظامیہ نے حفاظتی انتظامات کی بھداُڑائی تھی۔ جیسے انھوں نے ایک عظیم الشان پریڈ منعقدکی تھی۔ کہیں ہم اس راہ پرگامزن تونہیں ہوگئے۔ آج سے ٹھیک ایک سودوبرس پہلے جوامریکی ڈاکٹرمنتیں کرکرکے بتارہے تھے کہ اجتماعات پرپابندی لگنی چاہیے۔ میل جول ہرقیمت پربندہوناچاہیے۔ انسانوں کے درمیان فاصلہ برقراررہناچاہیے۔ مجھے توایک صدی پرانی کہی ہوئی باتوں پرنہ اس وقت کے لوگ عمل پیرانظرآئے تھے اورمعاف کیجیے، نہ اب نظرآرہے ہیں۔ حکومت کے پاس حددرجہ اختیارات ہوتے ہیں۔ قانون کاڈنڈابھی حکومت وقت کے پاس ہوتاہے۔ پھریہ سب کچھ وقوع پذیرکس کی اجازت سے ہورہاہے۔
کدھرہے وہ انتظامی طاقت جولوگوں کوقانونی طریقے سے پابندکرے کہ انھوں نے ہرقیمت پرحفاظتی انتظام کرنے ہیں۔ مگر مجھے تو ایسا کچھ بھی نظرنہیں آرہا۔ مجھے توایک صدی پہلے، جوبے فکری فلیڈلفیامیں تھی۔ اس سے بھی بڑھ کرکم ازکم لاہور میں نظرآرہی ہے۔ یقین سے عرض کرسکتاہوں کہ ہم کوروناکی وباء کاموثرمقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ بلاابھی ٹلی نہیں ہے۔ جس لاک ڈاؤن کا ذکر حکومت تواتر سے کررہی ہے، وہ توکب کاختم ہوچکا ہے۔ مگریہاں توہم ایمان کے جذبہ حرارت سے معمور ہیں۔ بھلاہمیں اس وباء نے کیانقصان پہنچانا ہے۔ دراصل پاکستان میں کوروناآیاہی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہنودویہودکی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں!کون ساکورونا؟