یقین نہیں آتا۔ انسان اپنے ہی ملک کے خلاف ٹی وی پربیٹھ کرکیسے بات کرسکتا ہے۔ سیاست ہونی چاہیے۔ مگرریاست کی سالمیت کے عوض سیاست ازحدقابل مذمت ہے۔ اس میں بھی اب کوئی شک نہیں رہاکہ سیاسی بیانات، تقاریرکوبھی ملکی مفادات کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ کراچی کی مثال سامنے رکھیے۔
الطاف حسین کے ایک اشارے پرپورا شہر جام ہوجاتا تھا۔ سڑکیں سنسان کردی جاتی تھیں۔ تاجراور عام آدمی، بھتہ دینے پر مجبور تھا۔ پھرکیاہوا۔ پاکستان کے خلاف صرف ایک تقریرنے عوام اورآئینی اداروں کے صبرکاپیمانہ لبریزکر دیا۔ قائد کراچی، قصہِ پارینہ بن گیا۔ سیاسی جماعت تتربتر ہوگئی۔
قریب ترین ساتھیوں نے الطاف حسین سے دوری اختیار کرلی۔ جہاں تک مہاجرین اوران کے حقوق کاتعلق ہے وہ بالکل ایک درست بات ہے۔ ایم کیوایم پاکستان کایہ جمہوری حق ہے کہ وہ اہل کراچی کے حقوق کے لیے جدوجہد کرے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ ہمارے لوگ سب کچھ برداشت کرلیتے ہیں۔ تمام مصائب جھیل لیتے ہیں۔ اگرکوئی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرے اور ملک توڑنے کی بات کرے، ملکی وحدت کے خلاف گفتگو کرے، توایسے بیانیہ کاہمارے سماج میں کوئی گاہک نہیں۔ اس رویہ کاکوئی خریدار دور دور تک نہیں ہے اورنہ ہوگا۔
ملک میں ہزارخرابیاں سہی، مگراس کی وحدت کے خلاف بات، ہرگزہرگزقابل قبول نہیں۔ سینیٹ کاچیئرمین کون بنتاہے۔ کیوں بنتا ہے۔ کیسے بنتاہے۔ اس سے عوام کی کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی تیس مارخان، سینیٹ کی مسند پر براجمان ہوجائے، اس سے لوگوں کے مسائل تو حل نہیں ہوں گے۔
عام آدمی کی زندگی پرکیافرق پڑتاہے کہ یوسف رضاگیلانی، سینیٹ کی چیئرمین شپ پر براجمان ہوجائے یاسنجرانی اس کی جگہ کامیاب ہوجائے۔ اب توعوام کواس سے بھی فرق نہیں پڑتاکہ وزیراعظم کس جماعت کاہو۔ سوبار پیپلز پارٹی آئے یامسلم لیگ یا تحریک انصاف۔ مزدور کوتومزدوری ملے گی تو اس کا چولہا جلے گا۔ عام آدمی تومحنت کیے بغیرزندہ نہیں رہ سکتا۔ اور معذرت کے ساتھ، اب کوئی سیاسی گروہ یا جماعت اس قابل نہیں کہ ملکی مسائل کوحل کرنے کی استطاعت رکھتی ہو۔ مگرایک نکتہ پرکوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ وہ ہے صاحب نے جس طرح کی ملک کی سالمیت اورہماری جغرافیائی حدودکاقائم رہنا۔
اگرملک ہے توسب کچھ ہے۔ یہ ساری شان و شوکت اورکاروبارِحیات صرف اورصرف آزاد ریاست کی بدولت ہی قائم ہے۔ اگریقین نہیں آتاتوذراہمسایہ ملک میں مسلمانوں کی حالتِ زار کامشاہدہ کیجیے۔ بی جے پی نے حالیہ الیکشن میں کسی ایک مسلمان کواپنی ٹکٹ نہیں دی۔ مسلمانوں پرروزگارکے تمام ذرایع تنگ کیے جاچکے ہیں۔
عدم برداشت کارویہ اتناتواناہے کہ کوئی ایک مسلمان بھی کسی ادارے میں فیصلہ کن پوزیشن پر موجودنہیں ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی، مذہبی اور سماجی قوت کوبے دردی سے ختم کیا گیا ہے۔ اگر مسلمان لڑکا پی ایچ ڈی بھی کرلے، تواسے اچھی سرکاری ملازمت نہیں ملتی۔ عرض کرنامقصودہے کہ ہم اس لیے سکون سے بیٹھے ہیں کہ پاکستان ایک خودمختارملک ہے۔ یہاں ہم، یعنی مسلمانوں کواس قسم کی کسی تنگی اوررویہ کاسامنا نہیں جوکہ ہندوستان میں ہے۔ یہ ملک ہمارے لیے پوری دنیامیں واحد پناہ گاہ ہے۔ ذرا جائیے، ہمسایہ ملک میں، اوروہاں اپنی طرزکی سیاست کیجیے۔ اورہاں، میں نے آج تک ہمسایہ ملک کاایک ایساسیاستدان نہیں دیکھا جوہندوستان میں بیٹھ کراپنے ملک کے خلاف بات کرے۔ مگرہمارے آزادملک میں، آزادی اظہارکی کوئی حدمقررنہیں ہے۔ پہلی بار عرض کر رہا ہوں کہ اس حدکوقائم ہوناچاہیے۔
اسی اہم نکتہ کاایک اورپہلوبھی ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف ہمارے عسکری، سویلین اورانٹیلی جینس اداروں نے حددرجہ موثر کردار اداکیاہے۔ اس جنگ میں ہمارے ستراَسی ہزارلوگ شہیدہوئے ہیں۔ مگر کیا وہ شہادتیں اس لیے دی گئی تھیں کہ کوئی سیاستدان اُٹھ کرملک کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دے۔ مگرمجھے اپنے ایک ڈاکٹردوست کاسچاواقعہ نہیں بھولتا۔ جوپنڈی میں اپنے جواں سال ایئرفورس کے افسربیٹے کے ساتھ ایک مسجدمیں نمازپڑھنے گیا تھاا ور وہاں دہشت گردوں کی فائرنگ سے اپنی اوراپنے بیٹے کی جان کا نذرانہ دیکرملک پر ہر چیز وارگیاتھا۔ جب بھی کسی شہادت کاعلم ہوتاہے اوروطن پرقربان ہونے والے جوان کی قومی پرچم میں لپٹی ہوئی لاش دیکھتاہوں، تویقین فرمائیے، آنسوضبط کرنے مشکل ہوجاتے ہیں۔
ہمارے نوجوان بچے، اپنی جان ہتھیلی پررکھ کر، ذاتی شہادتیں دیکر، ملک کی آبروکی حفاظت کررہے ہیں۔ کیاکسی شہید کی والدہ کوگریہ کرتے دیکھاہے۔ جس حوصلے اور ظرف سے بوڑھے والدین، جوان بیوائیں، ننھے منے بچے، والد، بیٹیاں، بیٹے، اپنے لعل کی شہادت کوسنبھالتے ہیں۔ یہ بذاتِ خودایک تحفہ ہے۔ روزپاکستانی جھنڈے میں ملبوس لاشیں ہم سب کے سامنے آتی ہیں۔ کیاان شہیدوں کی خون کی قیمت یہ ہے کہ ملک کے سیاستدان اور چند سیاسی جماعتیں اپنے وطن کی مٹی کوہی ختم کرنے پرتُل جائیں۔ نہیں صاحب نہیں، جب تک اس ملک میں ایک بھی وطن دوست انسان موجودہے ملک کوتوڑنے کی باتیں کرنے والوں کے بیانیہ کوناکام بنادیاجائیگا۔ یہ حقیقت ہے۔
سوچیے، بینظیربھٹوکی شہادت ایک المناک سانحہ تھا۔ اس کے بعدپورے ملک میں دنگافساد، گھیراؤ جلاؤ، سرکاری املاک کونقصان پہنچانے کا رویہ عروج پر تھا۔ مگر جس وقت آصف علی زرداری نے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا۔ امن بھرپور طریقے سے واپس آنے لگا۔ بھٹو خاندان کی تو آخری سیاسی میراث ختم ہوئی تھی۔ ان کے گھرمیں توایک اورلاش آئی تھی۔ خوداندازہ لگائیے کہ اہل خانہ کے جذبات کیاہونگے۔ مگرحوصلے اورہمت کی داد دینی چاہیے کہ آصف زرداری نے ملک کی سالمیت کوبرقراررکھنے کی بات کی۔ ملک کے خلاف کوئی منفی بات نہیں کی۔ قطعاًعرض نہیں کررہاکہ میں آصف زرداری کی سیاسی روش سے متفق ہوں۔ مگرزرداری کی اس بلندی ظرفی کوفراموش کرناناانصافی ہوگی۔
کیااب ہمیں یہ سمجھایاجارہاہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں ہارنے کے بعد، ایک ناپختہ سیاسی رہنماکے نزدیک ملکی سالمیت اہم نہیں ہے۔ تو جناب، اس اندازِ فکر سے باہرنکلیے۔ پاکستان تاقیامت آباد رہے گا۔