Bird watching، پرندوں کو دیکھنا، دنیا میں ایک حد درجہ اعلیٰ مشغلہ تصور کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں کروڑوں لوگ بڑے آرام، سکون، اور اونچی آواز میں بات چیت کیے بغیر اپنے اپنے گھروں کے قریب یا دور بڑی تندہی سے پرندوں کو غور سے دیکھتے رہتے ہیں۔
ان میں سے کوئی شخص بھی پرندوں کے بالکل نزدیک نہیں جاتا۔ کہ کہیں ان کی زندگی میں خلل نہ پڑے۔ مجبوراً امریکا کی مثال دینی پڑتی ہے۔ 2021 میں وہاں پرندوں کو دیکھنے والوں کی مجموعی تعداد ڈیڑھ کروڑ تھی۔ پوری دنیا میں برڈ واچرز کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ویسے ذاتی طور پر اس مشغلہ میں بہت زیادہ مرکوز ہوں۔ اس شوق کے بھی چند لوازمات ہیں۔ ایک تو کپڑے حددرجہ آرام دہ ہونے چاہیے۔
یعنی تنگ کپڑے، جنھیں پہن کر جنگل، درختوں یا کسی پارک میں نہ پیدل پھر سکیں، وہ لباس بہر حال نہیں ہونا چاہیے۔ آرام دہ سے مطلب حد درجہ سادہ اور عام سا لباس ہے۔ جوتوں کا بھی یہی عالم ہے۔ آرام دہ جوگر بہترین ہیں۔ اگر عام سی دوربین خرید لیں تو یقین فرمائیے کہ آپ کا شوق ساٹھ ستر فیصد دوبالا ہو جائے گا۔ گھر کے نزدیک کسی کھلے میدان جس میں درخت ہوں، پارک یا نزدیکی جنگل میں چلے جائیے۔
سبزہ کے ساتھ ساتھ اگر کوئی پانی کا ذخیرہ ہو تو پرندوں کی متعدد نئی نویلی اقسام دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ درخت اور پانی، یہ دو عناصر ہیں جن کی بدولت آپ کو ہر طرح کا مقامی اور ہجرت کرنے والا پرندہ با آسانی نظر آ جائے گا۔ کسی ایسی جگہ پر جائیے۔ دوربین نکال لیجیے اور درختوں کے درمیان یا نزدیک غور سے دیکھنا شروع کر دیں۔ جونہی کوئی پرندہ نظر آئے۔ فوکس کریں اور اس کی جسامت، حرکتیں، عادات، اڑنے کا طریقہ، آواز اور رنگوں کو پرکھنا شروع کر دیں۔ یقین فرمائیے۔ ایک جہان حیرت آپ کے سامنے کھل جائے گا۔
اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا۔ اس درجہ قدرتی خوبصورتی، توازن، تہذیب اور رنگ نظر آئیں گے کہ آپ ششدر رہ جائیں گے۔ پھر یہ بھی اندازہ ہو گا کہ پرندے کس طور پر ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی زبان کیا ہے۔ ان کی آواز کی لے کس کس موقع پر بلند یا کم ہو جاتی ہے۔
یہ تمام رموز و اسرار کھلنے شروع ہو جائیں گے۔ پرندوں کی دنیا میں اگر ایک بار داخل ہو گئے تو سمجھ لیجیے یہ جادو نگری کی ابتدا ہے۔ اس کی آخری حد کوئی نہیں۔ ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں۔ ان گنت سے مل چکا ہوں جو مخصوص پرندے اور جانور دیکھنے کے لیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر کرتے ہیں۔ پیسے خرچتے ہیں، اور گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں، جنگلوں میں گھومتے رہتے ہیں۔
جس آبادی میں آجکل قیام پذیر ہوں۔ اس کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ صبح یا شام کو وہاں جانے کااتفاق ہو تو لاتعداد ایسے نایاب پرندے نظر آتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ یقین فرمائیے کہ سکون سے بیٹھے رنگ برنگے چھوٹے بڑے پرندے اس تواتر سے دکھائی دینگے کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔
ایک دن صبح صبح ایچ پارک گیا تو ایک ایسا رنگ دار پرندہ نظر آیا کہ ششدر رہ گیا۔ چھوٹے سے پرندے کے اوپر قدرت نے کتنے رنگوں کی برسات کی ہوئی ہے۔ یہ دیکھنا حد درجہ خوش کن تھا۔ رنگ گننے میں ناکام ہو گیا۔ اگر آپ پرندوں کے بالکل نزدیک نہ جایئے۔ انھیں بے اطمینان نہ کریں تو وہ بالکل آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ دس بارہ منٹ اس حسین پرندے کو غور سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ وہ اپنی دم کو آواز سے منسلک کر چکا تھا۔
یعنی جب آواز نکالتا تھا تو دم نیچے کی طرف چلی جاتی تھی۔ اور گردان ختم ہونے کے بعد، پھر اوپر اٹھ جاتی تھی۔ دم کے اندر بھی چار پانچ قسم کے رنگین پر موجود تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ کسی عظیم مصور نے لا تعداد رنگ ایک ڈبے میں بھگوئے ہیں اور پھر انھیں یک دم اس پرندے پر بکھیر دیا ہے۔
ویسے اگرقدرت کو اپنی نگاہ سے خود دیکھنا ہو تو یہ پرندوں اور جانوروں کے اندر حد درجہ اعلیٰ طریقے سے آشکارہ ہوتی ہے۔ جانوروں کے ذکر سے بات آگے بڑھاتا ہوں۔ پوری دنیا گھوم چکا ہوں۔ مغربی اور مشرقی ممالک میں قائم چڑیا گھر دیکھنے کا بھی متواتر اتفاق ہوا ہے۔
چڑیا گھر میں متعدد جانوروں اور پرندوں کی حالت زار دیکھ کر کافی رنجیدہ ہو جاتا ہوں۔ اس لیے کہ قدرت نے کوئی ذی روح قید ہونے کے لیے نہیں تخلیق کیا۔ ویسے اگر واقعی حصار میں لینے کی ضرورت ہے تو اس دقیانوسی شدت پسندی والی فکر ہے جس نے ہمارے جیسے ملکوں میں ابتر فکری تبدیلی کی ہے۔ جب تک مذہبی، سیاسی، سماجی متشدد سوچ برقرار رہے گی پاکستان اور اس جیسے ملک خرابے میں ہی رہیں گے۔
ویسے ہمارا ملک تو اخلاقی، سماجی اور سیاسی طور پر دم توڑ چکا ہے۔ یہاں انسان، دوسرے انسانوں اور اداروں سے محفوظ نہیں ہیں تو پرندے اور جانوروں کی قدرتی ماحول میں دیکھ بھال کون کرے گا۔ بہر حال لاہور میں چڑیا گھر میں جوہری تبدیلی اور جدت کی ضرورت ہے۔ بلکہ چڑیا گھر کو ختم کر کے ایک تھیم (Theme) پارک بنا دینا چاہیے۔ جہاں پرندے اور جانور آزادانہ ماحول میں رہیں۔ اور انسان جیپوں میں مقید ان کو غور سے دیکھیں۔
ساؤتھ افریقہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس ملک نے سیاحوں کو وہ تفریح میسر کر دی ہے جو دیگر ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرسبز و شاداب ملک، آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے سے ساؤتھ افریقہ نے اپنے جانوروں اور پرندوں کو قدرتی ماحول میں حد درجہ محفوظ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسے ایک صنعت کا درجہ دے ڈالا تھا۔ جہاں جہاں جھیلیں موجود تھیں۔ ان کے کناروں پر یک منزلہ بڑے وسیع کاٹج بنا ڈالے تھے۔
آپ کاٹج میں موجود کمرے میں کافی پی رہے ہوں تو نظروں کے سامنے زیبرے، جراف، مور، ہرن اور دیگر جانور پھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ منسلک جھیل کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کشتیاں موجود ہوتی ہیں۔ جن میں بیٹھ کر دریائی گھوڑوں کے مہیب دانت، جسم اور خرمستیاں بڑے آرام سے دیکھ سکتے ہیں۔
حکومت نے ہزاروں ایکڑ زمین پر جنگلات، سرمایہ کاروں کو آسان شرائط پر فراہم کر دیے ہیں۔ شرط صرف ایک کہ وہاں قدرتی حیات کی مکمل حفاظت کرنی ہے اور اسے ہر طور پر فروغ دینا ہے۔ ان جنگلات میں کسی قسم کی کوئی پکی سڑک نہیں ہوتی۔ کچی پکڈنڈیاں اور دھول سے اٹے راستے۔ گائیڈ آپ کو کھلی جیپ میں بٹھا کر پورے علاقے کی سیر کرواتے ہیں۔ مغربی دنیا کے سیاح لاکھوں کی تعداد میں آ کر جنگل کی دنیا شوق سے دیکھتے ہیں۔ حکومت اور نجی شعبے کو بے پناہ آمدن ہوتی ہے۔
ایک گائڈ کے ساتھ گھنٹوں اسی طرح کے سفاری پارک میں گزارنے کا موقع ملا۔ انگریز ہاتھوں میں کیمرے لیے مکمل خاموشی سے کھلی جیپوں میں بیٹھے جانوروں کو قدرتی ماحول میں دیکھ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر رہے تھے۔ دو ایسے مناظر دیکھے جو آج تک حافظہ میں درج ہیں۔
سیکڑوں ہرن اور ان کے درجنوں بچوں کی ڈاریں پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا۔ ان گنت ہرن کے بچے اس قدر لمبی قلانچیں بھر رہے تھے کہ لگتا تھا کہ ہوا میں رقص کر رہے ہیں۔ بلکہ فضا میں تیر رہے ہیں۔ گائیڈ بڑے آرام سے کھلی جیپ، ہرنوں کے کافی قریب لے گیا تاکہ تصویر کھینچ سکوں۔ خوبصورت جانور اتنی بڑی تعداد میں پہلی بار دیکھنے کو ملے۔ دوسرا نظارہ، بہت بڑے سیاہ ہاتھی کو آزادی کے ساتھ جنگل میں گھومتے دیکھنا تھا۔
ایسے لگتا تھا کہ ایک شاندار کالا پہاڑ، رعب و دبدبے سے خراماں خراماں چل رہا ہے۔ ہاتھی کی چال میں جتنی تہذیب تھی، وہ بہت کم دیکھنے میں نظر آئی۔ ہمارے چڑیا گھروں میں تو ہاتھی کو مذاق بنا دیاجاتا ہے۔ اس پر رنگ کر کے تفریح کا ایک اہتمام کیا جاتا ہے، جو بہرحال جانوروں کے ساتھ ظلم کا ایک سیاہ قدم ہے۔
مگر محکوم قوموں کے جانور اور پرندے بھی محکوم ہوتے ہیں۔ غلامی صرف انسانوں تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ زخم کی طرح رستے رستے، قدرتی مناظر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے ڈالتی ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں یہ غلامی ہر جگہ اور ہرانچ میں خوب نظر آتی ہے۔ مگر اب کوئی گلہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ جس انسانی جنگل میں رہنے پر مجبور ہوں۔ وہاں طاقت ور درندے، بڑے آرام بلکہ سکون سے کمزور جانوروں یعنی عام لوگوں کوچیر پھاڑ ڈالتے ہیں۔
یہاں کسی سے اب کوئی شکوہ نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ان دیکھی گولی آپ کو قبرستان تک پہنچا سکتی ہے۔ مگر قدرتی جنگل میں بھرپور توازن ہوتا ہے۔ خدا کا بنایا ہوا محفوظ قلعہ جہاں انسانی ظلم سے محفوظ جانور اور پرندے خوشگوار طور پر زندہ رہتے ہیں۔ ویسے یہ حق ہمیں حاصل نہیں ہے۔