رانی کی عمرصرف تیرہ برس تھی۔ گڑیوں سے کھیلنے کی عمر۔ مگرغربت ایک ایسی بلاہے جوانسان کے وجود سے بچپن، جوانی یاکوئی بھی عمرروندکرنکال دیتی ہے۔ رانی کے گھرکے بھی ایسے ہی حالات تھے۔ دوپہر کا کھانا ہوتاتورات کوچولہابندرہتاتھا۔ رانی ایک ایسی ہنس مکھ بچی تھی، جوگلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ ہنستی رہتی تھی۔
آنے والے وقت سے مکمل طور پر بے خبر۔ والدین نے تیرہ سال کی عمرمیں اس کی شادی کر دی۔ غریب کی شادی بھی کیاہوگی۔ چھوٹی سی بچی۔ ایک ہی دن میں عمرکی تکلیف دہ دہلیزپارکرکے عورت بن گئی۔ خاوندبھی مزدوری کرتاتھا۔ ویسے فکرمعاش ہرجذبہ کو عفریت کی طرح کھاجاتی ہے۔ بلندبانگ اخلاقی قدریں، کردار کی بلندی، راست بازی سب کچھ بھرے پیٹ سے ہی منسلک ہیں۔ مفلوک الحالی تمام اخلاقیات کواپنی تپش سے چندلمحوں میں پگھلادیتی ہے۔
ایک دن، اپنے ماں باپ کے گھرآئی ہوئی تھی۔ شائددوتین دنوں کے لیے۔ یک دم اطلاع ملی کہ اسکاخاوندقتل ہوگیا ہے اورکسی نے لاش کو مٹی میں گاڑدیاتھا۔ جو پولیس نے برآمدکرلی۔ یہاں سے پاکستان کاسزااورجزاکے نظام کا وہ چہرہ نظرآتاہے جس سے خدا، دشمن کوبھی محفوظ رکھے۔ مگرحقیقت میں اس ملک کے بدنصیب شہریوں میں سے کوئی بھی اس سفاک نظامِ عدل کی بے عدلی سے محفوظ نہیں ہے۔ اس نظام کی ایک سیڑھی پولیس، دوسری جیل اورتیسری عدالتیں ہیں۔ ویسے اس بدبوداراورادنیٰ نظام میں سب کچھ ہے مگرانصاف نہیں ہے۔
پولیس نے رانی سمیت پورے خاندان کوگرفتار کر لیا۔ والد، والدہ اوربھائی سب پابندِسلاسل ہوگئے۔ شبہ تھاکہ ان لوگوں نے مل جل کرعداوت میں رانی کے خاوند کو قتل کیاہے۔ رانی نے کبھی بھی اپنے خاوندکی برائی نہیں کی تھی۔ آج بھی وہ یہی کہتی ہے کہ وہ ایک اچھاانسان تھا۔ آنے والے واقعات انتہائی ظالمانہ اورآسیب زدہ تھے۔ رانی کی ماں کوچھ ماہ جیل میں رکھنے کے بعدآزاد کر دیا گیا۔
والداتناخوش قسمت نہیں تھا۔ چندسال بغیرکسی قصورکے جیل میں رہااوروہاں ٹی بی کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ رانی کواجازت نہیں دی گئی کہ والدکی آخری رسومات میں شامل ہوسکے۔ یہ توامیرلوگوں کے چونچلے ہیں۔ بڑے سیاستدانوں کے شکوے ہیں کہ انھیں اپنے والدین یابیوی کی تدفین میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ حقیقت میں ہمارے ملک میں پابندِ سلاسل لاکھوں انسان، اس اخلاقی سہولت کے متعلق بھرپورطریقے سے بے بس ہیں۔ عزیزمرجاتے ہیں اور وہ سلاخوں سے سر مار مار کر روتے رہتے ہیں۔ رانی کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ اصل جرم توغربت ہے۔ جیل میں اس کے بھائی کوبھی ٹی بی ہوگئی۔
پندرہ سال، بغیرکسی جرم کے وہ بدقسمتی کا دیوتا، جیل میں رہا۔ جب باہرآیا تو تھوڑے دن میں وہ بھی فوت ہوگیا۔ اب رانی بی بی کی آنکھوں میں آنسونہیں آتے تھے۔ اسے لگتاتھاکہ وہ جیل میں ہی پیدا ہوئی ہے اوریہیں اس کی قبرکھوددی جائے گی۔ عام زندگی اسے قطعاً یاد نہیں تھی۔ روزانہ صبح چاربجے اُٹھتی تھی۔ سیکڑوں قیدیوں کاکھانابناتی تھی اورفرش صاف کرتی تھی۔ کام کرکرکے اس کی انگلیوں کی جلدختم ہوگئی۔ ہاتھ میں سوراخ ہوگئے۔ مگرجیل کاعذاب جاری رہا۔ 2001 میں اسے سیشن کورٹ سے عمرقیدکی سزا دیدی گئی۔ جب سزاسنائی گئی تورانی بالکل نہیں روئی۔ اس لیے کہ وہ غم کے جذبے سے بے نیازہوچکی تھی۔ اس کی زندگی ایک جانورکی سطح پرگزرتی جارہی تھی۔
وہی جیل کے باورچی خانے میں کھانابنانااور جیل کے لمبے لمبے برآمدوں کی جھاڑ پونچھ۔ اس کے پاس وکیل کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ دن، مہینے بنتے گئے اورمہینے سالوں میں تبدیل ہوگئے۔ قانون کے مطابق، جیل سپریڈنٹ نے اس کی اپیل کو ہائیکورٹ بھجواناتھا۔ مگرایساکچھ نہیں ہوا۔ کونسی ڈیوٹی اور کونسا قانون۔ انیس برس گزر گئے۔ دودہائیوں کے قریب۔ ہاں، ایک قانون اوربھی ہے۔ بڑا معصوم سا۔ ایک جج کو ہر ماہ جیل کامعائنہ کرنا ہوتا ہے۔ قیدیوں کے مسائل پوچھنے ہوتے ہیں۔ انیس سال میں سیکڑوں بار، جج صاحبان، جیل آئے اورپتہ نہیں کیاچیک کرکے چلے گئے۔ کسی بھی منصف نے رانی سے یہ نہیں پوچھاکہ عمرقیدکے خلاف، اس کی اپیل عدالت عالیہ میں کیوں نہیں بھجوائی گئی۔
2014میں ایک وکیل کسی خیراتی ادارے کی طرف سے جیل آیاہواتھا۔ اتفاق سے رانی بی بی سے ملاقات ہوگئی۔ بدقسمت لڑکی، جواب ادھیڑعمرعورت بن چکی تھی، اس کی کہانی سنکرپریشان ہوگیا۔ اس وکیل نے رانی بی بی کی اپیل ہائیکورٹ میں بغیرمعاوضہ کے دائرکردی۔ 2017 میں رانی بی بی کی اپیل کافیصلہ ہوا۔ اسکوقتل کے مقدمے سے بری کردیاگیا۔ جج نے فیصلے میں لکھاکہ وہ "رانی کے ساتھ، اس ظلم کے متعلق مکمل طورپربے بس ہے۔ عدالت اسے کچھ بھی نہیں لوٹاسکتی۔ مگرابھی بہت کچھ باقی تھا اور شائدہے"۔ Foundation for Fundamental Rightsنامی ایک تنظیم نے رانی کے متعلق ہائیکورٹ میں ایک کیس دائرکیاکہ اس بدقسمت کوانیس برس، غلط طور پر جیل میں رکھاگیا ہے۔
لہٰذااسے کفارے کے طور پر معاوضہ دیاجائے۔ یہ کیس پنجاب حکومت کے خلاف دائر کیاگیاہے۔ فیصلہ کب ہوتاہے، اس کے متعلق کچھ بھی کہنا عبث ہے۔ جب رانی بی بی سے پوچھا گیا تو اس کا جواب حددرجہ سادہ تھا۔ بس اتنا کہ وہ گھرکاتھوڑاساسامان خریدلے۔ دوچار بستر اور چارپائیاں لے لے۔ رانی جب جیل سے باہرآئی تو والدہ نے اس کی شادی ایک دیہاڑی دار مزدورسے کروا دی۔ رانی اپنے سسرال میں تکلیف دہ زندگی گزاررہی ہے۔ روز طعنے سننے پڑتے ہیں کہ وہ ایک سزایافتہ خبیث عورت ہے۔
کوئی جہیزبھی لے کرنہیں آئی۔ رانی، خداسے فریادکرتی ہے کہ اسے دوبارہ جیل بھیج دے۔ کیونکہ وہاں اسے لوگ طعنے تونہیں دیتے تھے۔ مسلسل ظلم نے رانی کواَزحدچڑچڑابنادیاہے۔ والدہ کہتی ہے کہ تمہاری زبان میں شیطان گھس آیاہے۔ اس بدقسمت ماں کویہ نہیں پتہ کہ ناانصافی اوروہ بھی دودہائیوں کی، انسان کی زبان توکیا، اس کی روح تک کوکرچی کرچی کردیتی ہے۔ رانی، سرگودھاکے ایک گاؤں مڈھ رانجھامیں زندگی کو دھکا دینے پرمجبورہے۔ پنتیس سالہ رانی سے Thomson Reuters Foundationنے انٹرویو کیا اوراس کے ساتھ ہونے والے سرکاری جبر کو زوخین ابراہیم نے اپنے قلم کے ذریعے دنیاکے سامنے آشکارہ کیا۔ پوری دنیامیں رانی بی بی کے ساتھ ہونے والے ظلم کی گونج سنائی دی۔ مگران سب عناصرسے بے خبررانی بی بی اب لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ اس سے کچھ پوچھا جائے توخاموش ہوجاتی ہے کچھ نہیں کہتی۔
یہ سچی مگرتلخ کہانی ہمارے نظامِ عدل کے لیے ایک تازیانہ کادرجہ رکھتی ہے۔ متعدد سوالات کوجنم دیتی ہے۔ جو ہرسوچنے والے انسان کے ذہنوں میں موجود ہے۔ مگر سرکاری خوف کی وجہ سے پوچھ نہیں سکتے۔ سب سے پہلے توپولیس والوں نے اس خاندان کوغلط تفتیش کرکے بربادکردیا۔ کیاکسی حکومتی ادارے نے ان ظالموں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی کی۔ پھرجس جیل کے عملہ نے رانی بی بی کی اپیل، دس بارہ سال تک دائرنہیں کی، کیاان پرمجرمانہ غفلت کاکوئی مقدمہ بنایاگیا۔ مقدمہ تو دورکی بات، ان کے خلاف قانون کے مطابق کوئی کارروائی ہوئی۔ پھرجوڈیوٹی جج، ہرماہ جیل کے سرکاری دورے پر آتے رہے۔
ان کی غفلت کی وجوہات کیا تھیں۔ جناب، ایساکچھ نہیں ہوااورکچھ بھی نہیں ہوگا۔ عرض کرونگاکہ پاکستانInternational Covenant on Civil and Political Rightsپردستخط کر چکا ہے۔ اس کے تحت اگرکسی انسان کوغلط سزاہوتی ہے تواسے حکومت بھرپورمعاوضہ دینے کی پابندہے۔ مگرقیامت تویہ ہے کہ بین الاقوامی سطح کے معاہدے پردستخط کرنے کے باوجودپاکستان میں اس پرکسی قسم کی قانون سازی نہیں ہوسکی۔ مگر اب، اس بے عملی پرآوازاُٹھائی جارہی ہے۔ شائدکوئی سن لے۔ شائدکوئی مظلوم، جیل میں سڑنے سے بچ جائے مگراس کاامکان بہت کم ہے۔
عرض کرونگاکہ ہمارے میڈیانے بھی رانی بی بی کے ساتھ ہونے والے ظلم پربھرپورآوازنہیں اُٹھائی ہے۔ ہاں، اگرکسی ادارے نے آوازاُٹھائی ہے تووہ وکیل صاحب، جس نے بلامعاوضہ اس غریب عورت کاکیس لڑااور بے جاقیدسے رہائی دلوائی ہے۔ کیاکوئی، اس پورے گلے سڑے نظامِ عدل میں رانی بی بی کے لیے قیامت برپاہونے والے ظلم کے خلاف حق، انصاف اورانسانی حقوق کے تحفظ کی تلواراُٹھائے گا۔ شائدکبھی نہیں۔ غریب اورلاچارکے لیے اس اندھیرے ملک میں کسی کے پاس وقت نہیں ہے؟