Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sab Kuch Kharab Nahi Hai

Sab Kuch Kharab Nahi Hai

پچھلے ہفتہ ایک ٹی وی چینل پر گیا تو پروگرام شروع ہونے میں تقریباً پانچ دس منٹ تھے۔ خبروں کا وقت تھا۔ ایک نیوزکاسٹر خبریں پڑھ رہی تھی۔ انکو اچھی طرح جانتا تھا کیونکہ ان کے ساتھ لاتعداد پروگرام کر چکا ہوں۔ جب وہ اُٹھ کر جانے لگی تو محسوس ہوا کہ کافی کمزور ہو چکی ہے۔ صحت کا دریافت کیا تو انتہائی اعتماد سے بتایا کہ کورونا ہو گیا تھا۔ خود ہی بتانا شروع کر دیا کہ ایک ماہ قبل تیز بخار ہوا۔

فوری طور پر جگر اور گردہ تبدیل کرنے کے سینٹر سے رابطہ کیا جوکہ لاہور میں واقع ہے اور آج کل اسے قرنطینہ سینٹر بنا دیا گیا ہے۔ خاتون کو وہاں داخل کر لیا گیا۔ گیارہ دن علاج ہوتا رہا۔ انسانی سطح پر یہ سب کچھ سنکر جذبہ ہمدردی تو محسوس ہوتا ہے مگر اس میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کہ انسان توجہ دے۔ ذہن میں تھا کہ حکومت کے قائم کردہ قرنطینہ میں کیا سہولتیں ہوں گی؟ کچھ بھی نہیں۔ کیا ہونا ہے۔ صرف خانہ پُری ہی ہو گی۔ مگر اس خاتون کا جواب میری سوچ سے حددرجہ مختلف تھا۔

کہنے لگی کہ اس سینٹر میں ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ صاف ستھرا اور انتہائی معیاری ماحول تھا۔ ڈاکٹر اور نرسز بھرپور طریقے سے مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میرے لیے یہ جواب کافی حد تک حیران کن تھا۔ بطور ڈاکٹر اندازہ ہے کہ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ہائی پروٹین ڈائٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوچھا کہ کھانا کیا تھا۔

خاتون کا جواب کم ازکم متوقع نہیں تھا۔ انتہائی بہتر کھانا تھا۔ مچھلی اور ہائی پروٹین ڈائٹ ملتی تھی۔ پھر خود ہی بتانے لگی کہ صحت یاب ہو کر اپنے گھر چلی گئی۔ پورے ایک ماہ بعد ٹی وی اسٹیشن پر واپس آئی ہے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ ہم لوگ تو صرف اور صرف منفی باتیں ہی سنتے رہتے ہیں۔ خیر تمام گفتگو فراموش ہو گئی۔

چار دن پہلے، اپنے ایک دوست ڈاکٹر احمد کی والدہ کو دیکھنے کے لیے گنگارام اسپتال جانا ہوا۔ والدہ حددرجہ ضعیف تھیں اور کورونا کی وجہ سے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی بلڈنگ میں واقع انتہائی نگہداشت یونٹ میں تھیں۔ جاتے ہوئے تمام حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے۔ جب آئی سی یو میں گیا تو ڈاکٹر صاحب کی والدہ، وینٹی لیٹر پر تھیں۔ اسی وارڈ میں مزید چھ مریض تھے۔ ڈیوٹی پر دو ڈاکٹر اور چار نرسز موجود تھیں۔

ہر مریض کے ساتھ تمام آلات موجود تھے جو کسی بھی ایمرجنسی میں جان بچانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ تسلی سے آئی سی یو کا جائزہ لیا۔ تو یہی اندازہ ہوا کہ اس جگہ مریضوں کی بھرپور دیکھ بھال ہو رہی ہے۔ بطور ڈاکٹر عرض کر رہا ہوں کہ اس قرنطینہ کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر سے لے کر تمام طبی سہولیات موجود تھیں۔ دوچار منٹ ڈاکٹر صاحب کی والدہ کی خیریت دریافت کی اور واپس چلا آیا۔ واپسی پر اچانک خاتون اینکر کی باتیں ذہن میں آگئیں۔ پھر آئی سی یو میں خود معاملات کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ صرف باتیں نہیں۔

جب بذاتِ خود آئی سی یو دیکھ لیا تو پھر مبالغہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ گنگارام ایک پرانا سرکاری اسپتال ہے۔ اس میں سرکاری سطح کے وہ تمام وسائل موجود ہیں جو کسی بھی سرکاری ادارے میں ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کا قرنطینہ آئی سی یو بہت اچھا تھا۔ آلات کے حساب سے بھی اور اسٹاف کے اعتبار سے بھی۔ جب خود دیکھ لیا تو اپنے ذہن میں بطور امانت یہ خیال آیا کہ ہم ہر وقت اپنے ملک کا منفی پہلو اُجاگر کرتے ہیں۔ ہر وقت برائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس آئی سی یو کا ذکر اچھے الفاظ میں کیوں نہ کیا جائے۔

ایمانداری کی بات ہے کہ اگر میں نے اس انتہائی نگہداشت یونٹ کی تعریف نہ کی، تو یہ فکری ناانصافی ہو گی۔ میں نے معاملات کو خود دیکھ کر، سنجیدہ طریقے سے تجزیہ کیا۔ پھر یہ فکر، الفاظ کے روپ میں ڈھال رہا ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارا طبی شعبہ ہرگز ہرگز بین الاقوامی معیار کا نہیں ہے۔ بطور ڈاکٹر، اندازہ ہے کہ صحت کبھی بھی کسی حکومت کی پہلی ترجیح نہیں رہی۔ مگر تمام کمی کوتاہیوں کے باوجود، یہ شعبہ کافی حد تک بہتر کام کر رہا ہے۔ لاہور کی بات کر رہا ہوں۔ یعنی پنجاب کی۔ جسکے وزیراعلیٰ پر ہر شخص نکتہ چینی کرتا رہتا ہے۔

میں بذاتِ خود بھی کئی ٹی وی پروگراموں میں وزیراعلیٰ پنجاب کی ناقص کارکردگی پر بات کرتا رہا ہوں۔ مگر گنگارام کا آئی سی یو دیکھ کر ایک مثبت تاثر ذہن میں اُبھرا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو تو خیر بہت عرصہ سے جانتا ہوں۔ سرسری سی جان پہچان ہے۔ یاسمین راشد کو شاباش نہ دینا غیرمناسب ہو گا۔ آج تک وزیراعلیٰ یا وزیر صحت سے بات نہیں ہوئی۔ نہ ہی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ پنتیس برس، اقتدار کی گلیوں میں گھوم کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ مبالغہ آرائی اور دھوکا کی دنیا ہے۔

بدترین سیاسی دشمن جو ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے، چہروں پر منافقانہ مسکراہٹ لیے، ایک دوسرے سے بغلگیر ہو رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال میرا آج کا موضوع یہ "حیرت نگر" نہیں بلکہ قرنطینہ سے وابستہ حکومتی اسپتالوں پر بات کرنا ہے۔ اس لیے مرکزی نکتے سے دور نہیں ہونا چاہتا۔ سرکاری اسپتال کا آئی سی یو دیکھ کر بہرحال مجھے اَزحد اطمینان ہوا ہے۔ حکومتی کام کے متعلق ایک مثبت سوچ ذہن میں آئی ہے۔

پنجاب کی حد تک تو یہ معاملات قدرے تسلی بخش ہیں۔ ہاں، ایک بات ضرور کہنا چاہونگا۔ ایسے لگ رہا ہے کہ پنجاب حکومت، اپنے کاموں کی تشہیر کرنا نہیں چاہتی یا کر نہیں پارہی۔ آج تک کسی جگہ پر میں نے صحت کے شعبہ میں بہتر اقدامات کو کسی تشہیری اعتبار سے نہیں دیکھا۔ تین برس پہلے کے حالات تو ہر ایک کو معلوم ہیں۔ پروپیگنڈے کے زور پر بھی اپنی خدمات کا اعتراف کروانے کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ نہیں کہ اس حکومت نے کام نہیں کیا۔ اشتہارات کے تسلسل سے بہرحال اس حکومت کو بہت فیض ملا۔ مگر موجودہ پنجاب حکومت، ذاتی تشہیر کے معاملے میں مکمل طور پر پیدل ہے۔

یاسمین راشد اور موجودہ وزیراعلیٰ کو اپنے کام پر بہت زیادہ ڈھول بجاتے نہیں سنا۔ اس کے متضاد، ان لوگوں پر ہر طرف سے منفی اعلانات کے تیر اور بھالے برسائے جاتے ہیں۔ خیر یہ انکا سیاسی مسئلہ ہے۔ کس چیز پر کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ موجودہ پنجاب حکومت نے حقائق کی روشنی میں کرنا ہے۔ بہرحال، کورونا کے بارے میں انکا کام بہت بہتر ہے۔ اسکو منظرِعام پر نہ لانا، حددرجہ ناانصافی ہے۔

کورونا ہی کے معاملے میں، ہر وقت ہر مبصر، سیاستدان، اینکر، تجزیہ کار اس وثوق سے بات کر رہا ہوتا ہے کہ جیسے ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم ڈی کی ڈگری لے کر سیدھے ٹی وی شو میں نزول ہوا ہے۔ نناوے فیصد مبصرین کو وبائی امراض کا کوئی اندازہ نہیں۔ بغیر جانے بوجھے ایسی ایسی درفتنی سامنے لاتے ہیں کہ اچھے خاصے ڈاکٹر گھبرا جاتے ہیں کہ جو انھوں نے دس بارہ برس پڑھا ہے کہیں وہ غلط ہی نہ ہو۔ سارا علم تو صرف اور صرف ٹی وی پر موجود ہے۔ ایم بی بی ایس کی ضخیم کتابیں تو صرف کورے صفحات ہیں؟

مگر صاحبان، حقیقت یہی ہے کہ وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کے علاوہ کسی بھی آدمی کے پاس کورونا کے متعلق بہت سطحی سی معلومات ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد اس لیے اہم ہے کہ میں کورونا سے منسلک لاک ڈائون پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ لاک ڈائون ایک فوری اور انتہائی قدم ہے۔ یہ انتہائی اہم بھی ہے۔ اس کے فوائد بھی ہیں۔ مگر یہ کورونا کی وباء کا علاج ہرگز نہیں ہے۔ ہر ملک نے اس وباء کے حوالے سے اپنے ملک کے زمینی حقائق دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ پاکستان کے حالات امریکا کے حالات سے حددرجہ مختلف ہیں۔

برطانیہ اور سویڈن کے کورونا کے لحاظ سے حالات منفرد ہیں۔ عرض کرونگا کہ جو پالیسی ہم نے اپنائی ہے، وہ کسی اور ملک میں ناکام ہو سکتی ہے۔ کسی اور ملک کی کامیاب پالیسی ہمارے ملک میں خاک چاٹ سکتی ہے۔ لاک ڈائون ہونے یا نہ ہونے پر ہرطرح کی رائے پائی جاتی ہے۔ اس کے حق میں بھی دلائل ہیں اور مخالفت میں بھی۔ کسی ایک نکتہ پر سب کا متفق ہونا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

حکومت کے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر مرکزی حکومت مکمل لاک ڈائون کی طرف جاتی ہے تو اس کی سیاسی متحارب، سندھ حکومت اس لاک ڈائون کی مخالفت شروع کر دیگی۔ اگر سندھ حکومت، اس تالہ بندی میں لوگوں کو بھوکا مرنے دیگی تو مرکزی حکومت اس کی حددرجہ مخالفت کر کے بھوک اور افلاس پر بات کرنا شروع کردیگی۔ میڈیا، ہاتھ میں تلوار پکڑ کر جسکی چاہے مخالفت شروع کر دیگا اور جسکی چاہے معاونت میں بولنا شروع کر دے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کسی بھی سطح پر کچھ بھی کرلے، اس پر نکتہ چینی ضرور ہو گی جو بالکل بالکل غیرمتعصب نہیں ہوتی۔ میڈیا کی پالیسی دیکھیے۔ ایک ہی نکتہ پر مختلف چینلز اور خودساختہ مبصرین کی رائے حددرجہ متضاد ہوتی ہے۔ اکثر اوقات تو دلائل ایسے دیے جارہے ہوتے ہیں کہ میرے جیسا جاہل انسان سر پکڑ لیتا ہے۔ مگر لاحاصل بحث ہر وقت جاری رہتی ہے۔

کیا ہم انکار کر سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انتہائی غربت موجود نہیں ہے۔ کیا ہم گریز کر سکتے ہیں کہ لوگ بھوک، ننگ اور افلاس کی بدولت خودکشیاں نہیں کرتے۔ کیا واقعی ہمیں معلوم نہیں ہے کہ دیہاڑی دار طبقہ، روز کماتا اور روز کھاتا ہے۔ کیا کسی کی نظر سے یہ بھی چھپا ہوا ہے کہ ہمارا سفیدپوش طبقہ، انتہائی محدود وسائل میں زندگی گزارتا ہے۔ کیا لاک ڈائون، بیماری، غربت اور بھوک میں توازن پیدا کرنا واقعی جرم ہے! یہ تو انسانی سوچ ہے کہ وہ کس چیزکو اہم سمجھتا ہے۔

حکومت کی سطح پر اگر، وزیراعظم نے اس توازن پر بات کرنے کی ہمت کی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ غریب کے مسائل کا ادراک امیر آدمی کر سکتا ہے۔ بالکل نہیں۔ کسی قیمت پر بھی نہیں۔ مگر مفلس کے حق میں سوچنا درست سمت کی طرف جست ہے۔ اگر بھوکوں کا خیال، حکومت نہیں کریگی تو کون کر پائیگا۔ میرا حوصلہ، تو گنگارام اسپتال کا آئی سی یو دیکھ کر بہت بڑھا ہے۔ حکومت کے اس طرح کے اچھے اقدام کی تعریف در تعریف نہ کرنا، حددرجہ ناانصافی ہو گی؟