سرفرازمسیح کے خاندان کی تصویردیکھ رہاہوں۔ دو بچیاں اورایک پتھرائی ہوئی بیوہ۔ یہ تصویرہمارے ملک میں کوروناکی صورتحال خاموشی سے بیان کررہی ہے۔ انکی آنکھوں میں ہزاروں سوال ہیں۔ شائدجواب بھی ہوں۔ مگرسب کچھ خاموش ہے۔
زندگی بھی اورموت بھی۔ سرفرازمسیح، کراچی کے ایک پٹرول پمپ پر دیہاڑی دارملازم تھا۔ روزانہ پانچ، چھ سوروپیہ کماکرگھر لیجاتا تھا۔ جس سے ایک بے مقصدسی زندگی گزارنے میں مددملتی تھی۔ چھوٹاساکمرہ، اس میں پوراخاندان رہتاتھا۔ کمرہ میں کھاناپکانے کاانتظام تھا۔ 22مارچ، کوحکومت کی طرف سے اعلان کیاگیاکہ کوروناکی وباء پھیل رہی ہے۔ لہٰذاتمام کاروباربندہوناچاہیے۔ پتہ نہیں کیوں، "لاک ڈاؤن"کالفظ نہیں لکھناچاہتا۔ کیونکہ اب تک، اس بے رحم لفظ کامطلب نہیں سمجھ پایا۔ لاک ڈاؤن کااصل مطلب کیاہے۔ جس دن، کراچی میں زندگی کو محدود کیا گیا۔
اسی دن، پٹرول پمپ بھی بندہوگیا۔ کاروبارہی غیرمعینہ مدت کے لیے بندکردیاگیا، تو ٹھیک اسی پل سرفراز مسیح کونوکری سے فارغ کردیا گیا۔ وہ بے روزگار ہوگیا۔ کوروناکی وجہ سے معمولاتِ زندگی مکمل طورپر تبدیل ہوگئے۔ سرفرازکواس کااصل مطلب پتہ تھا۔ گھر پہنچا، توزندگی کے تمام حقائق موحنہ کھولے، سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ کمرے کاکرایہ، بجلی کابل، کھانے پینے کی ضرورتیں۔ سب کچھ وہیں پرتھا، مگرسرفرازکے پاس اب روزانہ کے چھ سوروپے نہیں تھے۔ دودن کے بعد، سرفرازکی طبیعت خراب ہونے لگی۔ اسے ٹھنڈلگتی تھی اوربخارہوگیا تھا۔ ہرطرف کورونا، کوروناکی آواز تھی۔
سرفرازخوف میں مبتلا ہوگیا۔ ڈاکٹرکے پاس گیاتواس نے بالکل وہی کہاجو سرفراز سوچ رہاتھا۔ آپکو کورونا ہوچکا ہے۔ اب کو اکیلے، پندرہ دن گزارنے ہونگے۔ سرفراز واپس آیاتوایک کمرے کاگھرموجودتھا۔ ڈاکٹرکامشورہ تو درست تھا۔ مگریہ سب کچھ کیسے ہوگا۔ اس مشکل سوال کا جواب موجود نہیں تھا۔
خیر، اس کا بخار بڑھتا گیا۔ سرفراز کو یقین ہوگیا کہ اسے کوروناہوچکاہے۔ اب اس نے اور طرح سوچنا شروع کردیا۔ دومعصوم بچیاں اوربیوی کو بھی اسکی وجہ سے بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔ سرفرازکواس تشویش نے بری طرح گھیرلیا۔ ذہنی طورپرسمجھنے لگاکہ پوراخاندان موت کے موحنہ میں جاسکتاہے۔ سرفرازمسیح نے خوف سے اپنی جان لے لی کہ اسے کوروناہے اوریہ بیماری اس کے بچوں کومارسکتی ہے۔ پنکھے کے ساتھ، رسی باندھی اور خودکشی کرلی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، سرفراز کو کورونانہیں تھا۔ اس کاواحدٹیسٹ مرنے کے بعد ہوا تھاجو ثابت کرتاتھاکہ اسے معمولی بخارتھا۔ ہاں، خوف اتنا زیادہ تھاکہ سرفرازمسیح نے اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی جان لے لی۔ اس کے خاندان کی تصویردیکھ کرمعلوم ہوجاتا ہے کہ مجبوری اورمفلسی اصل میں کیاہیں۔ یہ کس طرح انسان کوزندگی اورخوشیوں سے محروم کردیتے ہیں۔
اقتصادی نقصان کتناہواہے۔ اس کااندازہ کم ازکم اس وقت تونہیں لگایا جاسکتا۔ دوچارافراد، جنھیں ہم اقتصادی ماہرین ماننے پرمجبورہیں، شائدٹھیک ہی کہتے ہیں کہ نقصان، ہماری توقعات سے بھی حددرجہ زیادہ ہے۔ ملک کے چندفیصدلوگوں نے کوروناکی وباء میں حیرت انگیزپیسے کمائے ہیں۔ کیاآپکواندازہ ہے کہ نجی شعبے کے اسپتالوں اورلیبارٹریوں نے عام لوگوں سے کتناپیسہ کمایاہے۔ چندنجی اسپتالوں میں مریضوں کے بل دیکھنے کے بعد، ذمے داری سے عرض کررہاہوں کہ انھوں نے بے رحم طریقے سے مریضوں کولوٹاہے۔
ان کی جیبوں پرڈاکے ڈالے ہیں۔ چندلیبارٹریوں کے مالکان ان دوتین مہینوں میں ارب پتی ہوچکے ہیں۔ اصل اور نقل، دونوں طرح کے سینی ٹائزربنانے والے دولت کے گنگاجل میں اشنان کررہے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے حکومتی عمائدین کوبھی کھلے لفظوں میں بتادیاکہ جو اخراجات بتائے جارہے ہیں ان میں سچائی کا عنصر نظر نہیں آرہا۔ حکومتی سطح پر، ایک مریض پردس سے پندرہ لاکھ یاشائدپچیس لاکھ خرچ کیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان اخراجات پرسوالیہ نشان لگادیاہے۔ اس لوٹ مار میں نجی اورسرکاری شعبے ہرطرح سے برابرہیں۔
اس خوفناک تصویرکاایک رخ اوربھی ہے۔ جس پرچک کولنز(Chuck Collins)نے بات کی ہے۔ سی این این کی اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق، دنیاکے امیرترین لوگوں نے، کوروناکی وباء سے حیرت انگیزمالی فوادحاصل کیے ہیں۔ کولمبیایونیورسٹی سے منسلک تحقیقی ادارے نے کہاہے کہ پوری دنیامیں غربت حددرجہ بڑھ چکی ہے۔ اس کے برعکس چندلوگوں نے پوری دنیاکی دس فیصددولت، مزیداپنے خزانے میں شامل کرلی ہے۔ اس وباء میں، لوگوں نے ویڈیوکانفرنس پرحددرجہ زور دیا ہے۔ جسکی بدولت زوم کمپنی کے مالک، ایرک یان نے ایک بلین ڈالرکمائے ہیں۔
بالکل اسی طرح، ا سٹیوبالمر جوکہ اسکائپ کامالک ہے۔ ان تین ماہ میں ڈیڑھ ارب ڈالرمزیدکماچکاہے۔ امازون کے مالک نے توخیرکمال کردیاہے۔ اس نے پہلی جنوری سے اب تک پچیس بلین ڈالرکمائے ہیں۔ کولمبیایونیورسٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسکی دولت، ھنڈراس جیسے ملک کی جی ڈی پی سے کہیں زیادہ ہے۔ بالکل اسی طرح ٹیسلاکمپنی نے تین ماہ میں آٹھ بلین ڈالرکمائے ہیں۔ اب دنیا کا امیرترین آدمی بل گیٹس نہیں، بلکہ امازون کامالک چیف بیزوزہے۔ یہ اس دولت کاذکرکررہاہوں جوجائز قراردی جاتی ہے۔ ناجائز دولت کااندازہ لگاناناممکن ہے۔
جس طرح ہمارے اقتصادی ماہرین یہ فرماتے ہیں کہ نقصانات کااندازہ لگاناناممکن ہے۔ بالکل اسی طرح، وباء سے مالی فائدہ اُٹھایاجانے پر بھی صرف قیاس ہی ہوسکتا ہے۔ دنیاکی دولت کی اکثریت اب صرف ایک فیصدطبقے کے پاس منتقل ہوچکی ہے۔ اس طبقہ کاتعلق کسی ایک ملک سے نہیں ہے۔ یہ طبقہ، ہمارے جیسے غریب ملکوں میں بھی ہے اورامریکا جیسے امیرملک میں بھی۔ یہی ایک فیصد طبقہ، پوری دنیاپرحکومت کررہاہے۔ ہمیں ادراک تک نہیں کہ ہم تمام لوگ صرف اورصرف بے حیثیت نوکروں سے بڑھ کرنہیں ہیں۔ یہ طبقاتی فرق اب کھل کرسامنے آگیاہے۔ اگلے چندمہینوں میں، اس دولت کی مرکزیت میں مزیداضافہ ہوگا۔ مگرہمیں بتایاجائے گاکہ دنیامیں دراصل غربت میں اضافہ ہواہے۔ کوئی یہ نہیں کہے گاکہ ہماری غربت کی اصل وجہ، کارپوریٹ کلچرکاوہ لفظ ہے، جسے خوفناک منافع کہاجاتاہے۔
اپنے ملک کی طرف واپس آتاہوں۔ حقیقت میں کورونانے عام لوگوں کی تکالیف میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ مگرمجھے ایک المیہ اورنظرآرہاہے۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ کورونانام کی بیماری کاکوئی وجود نہیں ہے۔ یہ ایک سازش ہے اوراس اختراع کاان سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا دوست اورکلاس فیلو، ڈاکٹر تجمل، انتہائی دردمندانہ طریقے سے فون کرتاہے کہ لکھو، کہ ہم لوگ، حفاظتی اقدامات نہ اُٹھاکرایک دوسرے کوبتائے بغیر موت کے گھاٹ اُتاررہے ہیں۔
ڈاکٹرتجمل باربار کہتا ہے کہ اس وباء سے لڑنے کے لیے، میڈیکل پروفیشن کے تمام عناصر کو حکومتی فیصلوں میں شامل کرناچاہیے۔ یہ دوتین حکومتی لوگوں کی سوچ سے بالاترکام ہے۔ میڈیکل اداروں کے سربراہان کوحکومتی فیصلوں میں کلیدی کرداردینا چاہیے۔ مگرڈاکٹرتجمل کی سمجھداری کی باتیں کون سنے گا۔ غریب کو مرنے سے کون بچائے گا۔ کمزورطبقے کی مددکون کریگا۔ مجھے تودوردورتک کوئی نظرنہیں آرہا۔ ہاں مجھے سرفرازمسیح کی جھولتی ہوئی لاش ضرورنظرآرہی ہے۔ جواس معاشرے کی بے بسی کی اصل تصویرہے۔ شائدسرفرازمسیح غریبوں کابل گیٹس تھایاشائدمفلسوں کاچیف بیزوز!