چودہ اگست تین دن پہلے آیا، مکمل طور پر روایتی طریقے سے گزر گیا۔ وہی اُدھورے سے نعرے، وہی حددرجہ خوشی کا تاثر دینے کی سرکاری اور غیرسرکاری کوشش اور وہی نمائش۔ قومی آزادی کا دن سب سے اہم ہوتا ہے۔ واقعی مسرت کا لمحہ ہوتا ہے۔ آزادی کا مطلب کیا ہے۔ یہ ذرا آج کی مغلوب قوموں سے پوچھ کر دیکھئے۔ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہی آزادی ہے۔ آزادی ایک بہت عظیم منزل ہے مگر پھر یہ ایک نشان بن جاتی ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد کیا ہونا چاہیے تھا اور حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔
اس نعمت خداوندی کو جس طور پر ہماری قوم نے استعمال کیا ہے اس سے ذہن میں صرف اور صرف سوالات اُبھرتے ہیں۔ جن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ جس طرح کی تاریخ ہمیں پڑھائی گئی ہے اس میں حددرجہ ابہام اور مبالغہ آرائی ہے۔ اصل میں جو کچھ ہوا اور جو بتایا گیا، ان دونوں میں حددرجہ فرق ہے۔ جن مقاصدکے لیے ہم نے آزادی حاصل کی تھی۔ کیا واقعی وہ عظیم مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں۔ یا اب ان مقاصد کا ذکر کرنا بھی قدرے مشکل ہو گیا ہے۔ گزارشات تو بہت ہیں۔ مگر کی نہیں جا سکتیں۔ اس معاملے کو مزید آسان کر لیجیے۔ کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟ طالبعلم کا جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔
پہلے ہم برطانیہ کی کالونی تھے۔ اب ہم دیگر ملکوں کی چراگاہ ہیں۔ کیا چین، کیا امریکا، کیا سعودی عرب۔ ذکر کرتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے کسی ملک نے آزادی حاصل کرنے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی تھی۔ مجھے ایک بھی واقعہ یاد نہیں۔ جس میں قائداعظم نے چین یا امریکا کی طرف سے آزادی کے لیے معمولی سی بھی مدد مانگی ہو۔
مجھے کوئی ایسا مرحلہ یاد نہیں ہے کہ جس میں 1947 کی مسلم لیگ کی قیادت، خادمین حرمین شریفین کی قدم بوسی کے لیے گئی ہو۔ آزادی کے لیے دعا کروائی ہو۔ محمد علی جناح اور ان کے ساتھی ایک سیاسی عمل سے کشیدشدہ لوگ تھے۔ انھوں نے کسی بیرونی طاقت کی مدد کے بغیر، اپنی محنت اور بصیرت سے نیا ملک کھڑا کر دیا۔ مگر وہی آزاد ملک، آج مختلف طاقتور ملکوں کا زرخرید غلام ہے۔ کوئی ہمیں بھیک دے رہا ہے۔ کوئی اپنی ترقی کے لیے ہمارے ملک میں سڑکیں بنا رہا ہے اور کوئی ہمارے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسا رہا ہے۔ یہ سچ حددرجہ تلخ ہے۔
ہمارے عظیم قائد نے نئی مملکت کے مقاصد متعدد بار بیان کیے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم کی موت کی وجہ سے پاکستان کو ایک نیا آئین جلد نہ مل سکا۔ ان کی رہنمائی کی محرومی سے ملک ترقی نہ کر پایا۔ یہ صرف آدھا سچ ہے۔ قائداعظم نے تو انتہائی تفصیل سے نوزائیدہ پاکستان کے خدوخال بیان کیے تھے۔ ایک مرتبہ نہیں، بلکہ لاتعداد بار۔ ان کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حکومت سنبھالی، انھیں اس عظیم آدمی کے فرمودات اور فیصلوں سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لفظی طور پر تو وہ محمد علی جناح کی ستائش کرتے رہے مگر عملی طور پر ہر وہ کام کیا، جو اس شخص کے فرامین کے مخالف تھا۔ دراصل بابائے قوم کی عملی تضحیک تھی۔ یہ بلاروک ٹوک کے جاری رہی۔ انتہائی معذرت کے ساتھ، آج بھی کسی نہ کسی رنگ میں جاری ہے۔ سادہ سی مثال ہے۔
قائد نے اقرباپروری کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ ان کی ہر دوسری تقریر میں اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو نوازنے سے نفرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ اگر آپ خود اسکو پڑھنا یا دیکھنا چاہتے ہیں تو قائدکے متعلق کوئی بھی مستند کتاب اُٹھالیجیے۔ اقرباپروری کو ایک ناسور قرار دیا گیا ہے۔ آج کے پاکستان پر عامیانہ سی نظر ڈالیے۔ ہوش ٹھکانے آجائینگے۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف دیکھئے۔ کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس میں موروثیت نہ ہو۔ ہاں، جماعت اسلامی میں "امیر" وراثت کے ذریعے نہیں بنتا۔ پیپلزپارٹی، نواز لیگ، جمیعت علماء اسلام (ف)، اے این پی، باپ، بیوی، بیٹا، بیٹی یعنی صرف اور صرف خاندان کی لیڈرشپ کے اُصول پر زندہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ باپ اگر لیڈر ہے، تو وہ بہترین علاج کی وجہ سے فوت ہونے سے عملاً انکار کر دیتا ہے۔
وہ دنیا کے مہنگے اور اعلیٰ ترین اسپتالوں میں علاج کروا کر بڑے آرام سے نیم صحت مند رہتا ہے۔ اگرلقمہِ اَجل بن بھی جائے، تو بیٹا یا بیٹی بالکل تیار کھڑے ہوتے ہیں، انھیں فوری طور پر متبادل لیڈر بنا دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعت میں مخلص کارکنوں پر حدرجہ عدم اعتماد کیا جاتا ہے۔ اگر اقتدار کا ہما بیٹھا ہے تو صرف اور صرف اہل خانہ پر۔ باقی سب تالیاں بجانے کے لیے رکھے ہوتے ہیں۔
صرف ایک اسی نکتہ پر غور کیجیے۔ کیا یہ قائداعظم کے اقرباپروری کے خلاف حکم کی بھرپور خلاف ورزی نہیں ہے۔ جناح صاحب، اگر سیاسی موروثیت کے حق میں ہوتے، تو محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کر دیتے۔ مگر انھوں نے ہرگز ہرگز ایسا نہیں کیا۔ ان کے بھائی، بہنوں میں سے کسی کو بھی سیاست میں آنے کی جرات نہیں تھی۔ یہ ہے بلند کردار اور عظمت۔ مگر آج ہم مکمل طور پر اس عظیم شخص کے حکم کو تسلیم نہیں کرتے۔
یقین فرمائیے۔ قائداعظم کے اقوال میرے سامنے موجود ہیں، پڑھنے کے بعد شرمندہ ہو رہا ہوں۔ لکھنے کو تو بہت سی چیزیں ہیں۔ مگر ان جملوں کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو زبان زدعام ہیں۔ قائد نے "ڈسپلن" یعنی نظم وضبط کے بارے میں کہا تھا کہ اس جوہر سے مشکل سے مشکل ترین منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر خود سوچیے۔ کیا نظم وضبط نام کی کوئی چیز ہماری قوم میں موجود ہے۔ برا نہ منائیے گا۔ ہم لوگ تو سیدھی قطار نہیں بنا سکتے۔ ہم تو ایک قطار میں کھڑے ہونے کی توفیق نہیں رکھتے۔ بے ترتیبی کی اس سے چھوٹی مثال اور کیا ہو گی۔ ریلوے اسٹیشن، بس اڈا، سینما گھر یا کسی بھی پبلک جگہ پر چلے جائیے۔ لوگ کہنیاں مارتے ہوئے آپ سے آگے نکل جائینگے۔ اگر تھوڑا سا بھی ظرف دکھاتے ہوئے کسی قسم کی قطار میں کھڑے ہونے کی جرات کر بھی لیں۔
تو آپ ہمیشہ آخر میں رہینگے۔ لوگ بڑی تسلی سے آپ کے آگے کھڑے ہوتے جائینگے۔ کسی بھی جگہ کی مثال لے لیجیے۔ نظم وضبط کی عدم موجودگی کا شدت سے احساس ہو گا۔ اکثر دیکھا ہے، کہ ابھی ہوائی جہاز ایئرپورٹ پر لینڈ کر کے حرکت میں ہوتا ہے۔ متعدد مسافر، اپنی نشستوں کو چھوڑ کر سامان ہاتھ میں لیے دروازے کی جانب چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ بار بار منع کرنے کے باوجود بھی باز نہیں آتے۔ کیا واقعی، اس قوم میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز موجود ہے۔ زبانی طور پر تو قائدکی حددرجہ تعریف کرتے ہیں۔ مگر عملی طور پر ان کے ہر حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پھر کسی شرمندگی کے بغیر خوب خوش رہتے ہیں۔
جناح صاحب نے پوری زندگی معاشی ناہمواری کی مذمت کی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے لے کر بمبئی اور دیگر اہم خطابات میں باربار کہا ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کو حاصل کرنے جا رہے ہیں جہاں مسلمانوں کو زیرِدست نہیں رکھا جا سکے گا۔ نئے ملک میں کوئی معاشی استحصال نہیں ہو گا۔ ٹھہر جائیے۔ سوچیے۔ 1947 سے پہلے کاروبار پر ہندو چھائے ہوئے تھے۔ عام مسلمان اقتصادی طور پر بدحالی کا شکار تھا۔ مگر آج کیا حالات ہیں۔ پورا معاشی نظام، چند سفلی خاندانوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔
کھاد کے کارخانوں سے لے کر، بجلی گھروں تک۔ چینی کی ملوں سے لے کر زمین کی خرید و فروخت تک۔ کوئی مٹھی بھر خاندان ہیں، جو تمام وسائل پر قابض ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنے مالی مفادات کی حفاظت کے لیے سیاست سے وابستہ ہے اور بھرپور طریقے سے کامیاب ہے۔ ذاتی ہوائی جہازوں میں سفر کے علادہ کسی ایئرلائن میں سفر کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ سیکڑوں محافظوں کے درمیان رہتے ہیں اور خوب اچھی طرح رہتے ہیں۔ قائد کے حکم کے برعکس، عام آدمی معاشی طور پر آج بھی انھی کا غلام ہے۔ ہندوؤں کی غلامی سے نکل کر ہم مسلم سیٹھ کی چوکھٹ پر سرنگوں ہیں۔ جو استحصال ماضی میں تھا آج بھی مکمل طور پر جاری ہے۔
کیا کیا لکھوں اور کیونکر لکھوں۔ چودہ اگست آیا اور بینڈباجے میں گزر گیا۔ نوجوانوں نے موٹرسائیکل کے سائیلنسر نکال کر خوب کرتب دکھائے۔ چین کی بنی ہوئی پلاسٹک کی توتیوں سے خوب ہلاگلا ہوا۔ لاتعداد، بے مقصد سے پروگرام کیے گئے۔
پروگرام کا لفظ مناسب نہیں۔ تماشے کیے گئے مگر کسی ایک نے ہمیں یہ بتانے کی جسارت نہیں کی، جرات نہیں کی کہ ہمارا پورا ملکی نظام، قائداعظم کے فرمودات اور احکامات کے منافی چل رہا ہے اور دھڑلے سے چل رہا ہے۔ اقرباپروری، کرپشن، نظم وضبط کی عدم موجودگی، معاشی ظلم سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر ہو رہا ہے۔ دراصل ابھی تک ہم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے اُصولوں کی طرف گامزن ہی نہیں ہو پائے۔ ہمارا چودہ اگست تو اصل میں آیا ہی نہیں۔ یہ توساڑھے تیرہ اگست ہے۔ شائد سو، دو سو سال بعد محمد علی جناح کا چودہ اگست آجائے۔