Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sarkari Tahaif

Sarkari Tahaif

نریندر مودی، 2014میں پہلی مرتبہ ہندوستان کا وزیراعظم بنا۔ تقسیم برصغیر کے بعد پیدا ہونے والا انڈیا کا پہلا وزیراعظم ہے۔ حد درجہ غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے مودی نے آٹھ برس کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

اندرا گاندھی کی ایمر جنسی کے دور میں مودی نے حد درجہ تکالیف کا سامنا کیا۔ گرفتاری، روز ٹھکانے بدلنا، قتل ہونے کا خوف اور اس طرح کے تمام مصائب سے گزرتا رہا۔ 1985 میں مودی نے آر ایس ایس کے حکم پر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بے جی پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے۔ نریندر مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ سے دہلی تک کا سفر حد درجہ سیاسی کامیابی سے طے کیا۔

ان تمام نکات میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو آپ کو معلوم نہ ہو۔ سیاست کا سفر حد درجہ مشکل ہوتا ہے۔ ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ انڈیا میں سیاست اور اقتدار کا سفر نیچے سے اوپر کی طرف جاتا ہے۔ جید سیاست دانوں کی اکثریت، حد درجہ نچلی سطح سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کرتی ہے۔ پھر کڑی ترین تربیت کے بعد بالائی حد کو عبور کرتی ہے۔

یہ معاملہ ہمارے ملک سے مکمل طور پر متضاد اور الٹ ہے۔ ہمارے تمام سیاست دان بلکہ حکمران، پیراشوٹ باندھ کر کرسی پر براجمان ہوتے یا کروائے جاتے ہیں۔

سیاسی سفر، حد درجہ اونچائی سے شروع ہوتاہے۔ چنانچہ ان حکمرانوں کو عوامی سطح کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ ان سے ہر وہ غلطی کرواتا ہے جس سے کوئی بھی عملی سیاست دان برباد ہو سکتا ہے۔

مگر ہمارے ہاں، ریاستی ادارے ہی تمام فیصلے کرتے ہیں۔ انھی کی سیاسی آبیاری سے سیب کے درخت سے انار اترتے ہیں۔ اور تربوز کی بیل سے کھجور برآمد ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمسایہ ملک میں سیاست کے خدوخال اور سیاست دانوں کی ذاتی زندگی، ہمارے حکمرانوں سے بہت زیادہ مختلف ہے۔

بات ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم کی ہورہی تھی۔ نریندر مودی اس وقت دنیا کے طاقت ور ترین انسانوں کی فہرست میں آتا ہے۔ مغربی دنیا کے صدور اور وزراء اعظم اس کے ذاتی دوست ہیں۔

امریکی صدر اور وہ، ایک دوسرے کو سفارتی معاملات سے بالائے طاق ہو کر، ذاتی نام سے پکارتے ہیں۔ اس کی موجودگی میں ہندوستان نے معاشی، سفارتی اور عسکری سطح پر قیامت خیز ترقی کی ہے۔ پورے ہندوستان بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں نریندر مودی کا ایک مرلہ کا بھی پلاٹ، قطعہ یا گھر نہیں ہے۔

گاندھی نگر میں اس کی معمولی سی آبائی زمین تھی جس میں اس کا قانونی حصہ پچیس فیصد تھا۔ مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا آبائی حصہ بھی خیرات کر دیا۔ دسمبر2022 میں دنیا کے طاقتور حکمران کے ذاتی اثاثے حد درجہ کم ہیں۔ بینک میں صرف پنتیس ہزار دو سو پچاس روپے موجود ہیں۔ پوسٹ آفس اکاؤنٹ میں نو لاکھ روپے پڑے ہیں۔

بیمہ پالیسی صرف ایک لاکھ پچاس ہزار روپے پر مشتمل ہے۔ مودی کے پاس کسی کمپنی یا تجارتی ادارے کے حصص موجود نہیں ہیں۔ کوئی ذاتی گاڑی نہیں ہے۔ مودی کوانگوٹھیوں کا شوق ہے۔ اس کے پاس چار سونے کی انگوٹھیاں ہیں۔ جن کی مجموعی قیمت ایک لاکھ، تہتر ہزار روپے ہے۔ پوری زندگی کی جمع پونجی دو کروڑ روپوں کے قریب ہے۔

جو اس نے آر ایس ایس کو دان کر ڈالی ہے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمسایہ ملک کے وزیراعظم کے مالی اثاثے، ہمارے ملک کے ایک کامیاب کونسلر سے بھی کمتر ہیں۔ ہمارے موجودہ یا سابقہ وزراء اعظم یا وزراء اعلیٰ کے مقابلے میں تو خیر مودی، فقیر کے برابر ہے۔

یاد رہے کہ میں ہندوستانی وزیراعظم کی سیاسی پالیسیوں کا قطعاً ذکر نہیں کر رہا۔ صرف یہ بتا رہا ہوں کہ وہ مالی آلائشوں سے بالاتر ہو کر اپنے ملک کو حد درجہ ترقی کی جانب لے جانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

2014سے لے کر 2022تک بطور وزیر اعظم، مودی نے دنیا کے مختلف ممالک کے ان گنت سرکاری دورے کیے ہیں۔ وہاں، اسے اربوں روپے کے تحائف دیے گئے ہیں۔ یہ عام سا معمول ہے۔ اقتصادی طور پر مضبوط ملک ایک دوسرے کے سربراہان کو خیرہ کن حد تک قیمتی تحائف دیتے ہیں۔ وہاں بھی ایک نہ ایک توشہ خانہ موجود ہے۔

اس کا نام شاید توشہ خانہ نہ ہو۔ مگر بہر حال سرکاری تحائف کو محفوظ رکھنے کی مناسب جگہ تو موجود ہے۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے۔ وزیراعظم ہندوستان یعنی نریندر مودی نے اپنی ذات کوملنے والے تمام تحائف کی فہرست بنوائی۔ ان کو وزیراعظم کی ویب سائٹ پر شایع کیا۔ ان کی "آن لائن نیلامی" کا حکم صادر کر دیا۔ یہ صرف دکھاوا نہیں تھا۔

نیلامی ہوئی۔ بیش قیمت تحائف کی تعداد ایک ہزار دو سو بائیس تھی۔ نیلامِ عام سے جتنی بھی رقم وصول ہوئی وہ گنگا دریا کو صاف کرنے والے پروگرام کے لیے وقف کر دی گئی۔ دریا کی صفائی کے اس پروگرام کا نام "نیمامی گنگا" ہے۔ نیلام ہونے والے تحائف میں ہر طرح اور قسم کی قیمتی اشیا موجود تھیں۔

یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم کو ملنے والے سرکاری تحائف، پاکستانی حکمرانوں سے بہر حال زیادہ قیمتی تھے اور ہونے بھی چاہیے۔ کیونکہ اقتصادی طور پر ہندوستان ہر صورت میں ہمارے ملک سے برتر ہے۔

کوئی شک نہیں کہ انسان بنیادی طور پر لالچ سے مبرا نہیں ہے۔ صرف انبیاء علیہم السلام اور صالحین، لالچ کی انسانی جبلت سے بالاتر ہوتے ہیں۔ باقی تمام فانی انسان، کسی نہ کسی طور پر مالی فائدے سے جڑے ہوتے ہیں۔ جن جن ممالک نے ترقی کی ہے یا ترقی کرنے میں سنجیدہ ہیں انھوں نے اپنے حکمران طبقے کی اس جبلت کو ملکی اور اخلاقی قوانین کے تابع کر ڈالا ہے۔

اول تو ان ملکوں میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ حکمران، چاہتے ہوئے بھی، سرکاری تحفوں میں خوردبرد نہیں کر سکتا۔ اس سے بھی اوپر اخلاقیات کا وہ قوی جال ہے جو حکمرانوں کو ہردم اپنی لپیٹ میں رکھتا ہے۔

امریکی، برطانوی، جرمنی، فرانسیسی اور دیگر مغربی ممالک کے صدور اور وزراء اعظم اپنے اپنے توشہ خانوں سے چاول کے ایک دانے کے برابر کے تحائف کی چوری یا غلط استعمال نہیں کر سکتے۔ امریکی صدورسے زیادہ کسی اور حکمران کو کیا ملتا ہوگا۔

مگر وہ تو تمام کی تمام اشیاء کو سرکاری خزانے میں جمع کروا کر شاد اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی ندامت کے بغیر، اپنی سفید پوشی کو قائم رکھتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران وہی کچھ کرتے ہیں جو ایک لالچ میں لتھڑا ادنیٰ انسان کرتا ہے یا اسے کرنا چاہیے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی حکمران، غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو کیا ملنے والے سرکاری تحائف کی درست فہرست واقعی بنتی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ پہلی چوری تو یہ ہے کہ قیمتی تحفوں کا اندراج ہی پورا نہیں کیا جاتا۔ وجہ بالکل سادہ سی ہے۔ جب کوئی چیز ریکارڈ پر ہی نہیں ہوگی، تو اس کی "چوری" ہوہی نہیں سکتی۔

یعنی خورد برد کرنے کا بھی کوئی پکا ثبوت نہیں ہوگا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری بابو، آسمان سر پر اٹھا لیں اور فرمائیں کہ صاحب ہم تو ہر تحفہ کا اندراج حد درجہ جانفشانی سے کرتے ہیں۔ پر نہیں صاحب، آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ تحفوں کا سرکاری اندراج بھی مرضی کے مطابق کیا جاتا ہے۔ صرف صاحب ہی نہیں۔ بیگم صاحبہ کی پسند اور ناپسندیدگی بھی اس فہرست کی بنیاد بنتی ہے۔

چلیے۔ اب تحائف شوشہ خانہ، معاف فرمائیے۔ توشہ خانہ میں آ گئے۔ ان کی قیمت کا تعین کرنے کا طریقہ بھی اس قدر جعلی، ناقص اور شرمناک ہے کہ خدا کی پناہ۔ کروڑوں روپے کی اشیاء آپ کو کوڑیوں کے مول مل سکتی ہیں۔ چند بابو، مل بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ جناب ہیروں کے اس قلم، گھڑی یا کف لنک کے دام کتنے ہوں گے۔

قیمت کو مقرر کرنے کا یہ ابتر طریقہ کسی بھی مہذب ملک میں رائج نہیں ہے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ صرف حکمران ہی اس "شفاف کرپشن" کا حصہ نہیں۔ سرکاری بابو بھی اس میں اپنا حصہ بخوبی وصول کرتے ہیں۔

جاپانیوں اور چینیوں نے تو اس قبیح حرکت کو ہمارے حکمران خاندانوں کے لیے حد درجہ آسان کر دیا ہے۔ وہ خود ہی قیمتی تحفے، کسی بھی اندراج کے بغیر ہمیں عطا فرما دیتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ شکریہ کے ساتھ وصول بھی کر لیتے ہیں۔

ملک میں ہر طرف اتنا بگاڑ ہے کہ "توشہ خانے" پر کیا وقت ضایع کرنا۔ مگرپھر بھی عرض کرونگا کہ ذرا گزشتہ پچاس ساٹھ برس میں ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی صدور اور وزراء اعظم کو ملنے والے سرکاری تحفوں کی فہرست بنوا لیجیے۔ آپ کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔

ہر حکمران اور اس کے بیوی بچوں نے سرکاری تحائف پر مرضی کا ڈاکا ڈالا ہے۔ اور اطمینان سے گھروں میں واپس "عزت " سے تشریف لے گئے ہیں۔ نریندر مودی تو بیچارہ بے وقوف ہے کہ اس نے اپنے تمام تحائف نیلام کروا دیے۔ اس کی تربیت شاید غلط ہوگئی ہے۔ اسے فوراً پاکستانی اتالیق کی ضرورت ہے جو اسے چوری کا فن سکھا دے؟