گلیلو اٹلی میں پیداہوا۔ یہی کوئی ساڑھے چار سو برس پہلے۔ اس کی شخصیت کاسب سے بڑاکمال تھاکہ ہر عمل کودلیل کی بنیادپرسمجھنے کی کوشش کرتاتھا۔ بیک وقت، فلسفی، انجینئر، ماہرفلکیات، سائنسدان اورناجانے کس کس علم کاماہرتھا۔ جس دنیامیں آج ہم موجود ہیں، اس میں گلیلوکی ایجادات اورنظریہ ہردم استعمال ہوتی ہیں۔
گلیلو، جوان عمری میں چرچ کے اجتماع میں بیٹھا و عظ سن رہاتھا۔ نظرچھت پرٹنگے ہوئے فانوس پرتھی۔ ہوا کے زورسے فانوس جھول رہاتھا۔ گلیلونے ایک عجیب چیزمحسوس کی۔ اگرفانوس لمبے دورانیہ کے لیے جھولتا تھا یا کم دورانیے کے لیے، وقت بالکل ایک جیساہی لگتا تھا۔
اس وقت گھڑی توتھی ہی نہیں۔ چنانچہ گلیلواپنے ہاتھ کی نبض کوبطورگھڑی استعمال کررہا تھا۔ جب یہ بات اپنے ساتھیوں کوبتائی توسب نے خوب مذاق اُڑایا۔ کہ یہ کیونکرہوسکتاہے کہ ایک چیزہوامیں کم یا زیادہ لمبائی میں جھولے، مگراس کادورانیہ ایک جیسا رہے۔ یہ ناممکن ہے۔ ہوہی نہیں سکتا۔ مگرگلیلواگلے دو برس اس پرکام کرتارہا۔ اس نے پنڈولم ایجادکیااوراسے وقت کے ساتھ منسلک کرکے اپنی تھیوری کودرست ثابت کر دیا۔ مگراس پورے دورانیے میں گلیلو کا بھرپورٹھٹھہ اُڑایا گیا۔ اس کی ہرجگہ تضحیک کی گئی۔
بالکل اسی طرح، یونانی فلسفی ارسطوتحقیق سے یہ گردانتاتھاکہ زمین پوری کائنات کامحورہے۔ مکمل طور پرساکت ہے اورتمام سیارے، اس کے اردگردگھومتے ہیں۔ اس وقت کاچرچ بھی انھی خیالات کامالک تھا۔ گلیلو دلیل کی بنیادپر فلسفہ پیش کررہاتھاکہ زمین ساکت نہیں ہے۔
سورج کے اردگرد توازن سے گھومتی ہے۔ تمام سیارے زمین کے اردگردنہیں بلکہ سورج کے گردگھومتے ہیں۔ یہ ایک ایسی انقلابی بات، سوال وجواب تھاکہ یورپ میں علمی زلزلہ آگیا۔ گلیلوکونہ صرف حکومتی جبر کاسامناکرناپڑا۔ بلکہ اسے چرچ کی عدالت کے سامنے بطورمجرم پیش کیا گیا۔ شدیدذہنی دباؤکانشانہ بنایا گیا۔ درجنوں پادریوں، پوپ اور بادشاہ کے درباریوں نے اس کے خلاف مقدمہ کی بھرپورپیروی کی۔ گلیلومکمل طور پر تنہا تھا۔ اتنے طاقتور لوگوں کی منفی سوچ کامقابلہ نہ کر سکا۔ چرچ نے فیصلہ کیاکہ آیندہ گلیلوکوئی سائنسی سوال نہیں اُٹھائے گا۔
کوئی کتاب نہیں لکھے گااورپوری عمراپنے گھر میں نظر بند رہے گا۔ اسے بدترین ظلم کا سامنا کرنا پڑا۔ جیل میں اپنے خیالات کی وجہ سے نظربندبھی رہا۔ مگر کوٹھری کی دیوارپراپنے خون سے لکھا، کہ "زمین حرکت میں رہتی ہے"۔ یہ کالم گلیلو جیسے عظیم انسان کے علمی کام پر ہرگز ہرگزنہیں لکھ رہا۔ گزارش صرف ایک ہے کہ عمومی خیالات کے برعکس دلیل کی بنیادپرسوال اُٹھاناآج بھی اتناہی مشکل اور تکلیف دہ ہے جتناسیکڑوں برس پہلے۔ المیہ آج بھی وہی ہے جوصدیوں پہلے تھا۔ ماضی میں سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اس وقت بھی جدت، سماجی رویوں، فرسودہ خیالات کے متعلق بات کرنے کی اجازت نہیں تھی اوربدقسمتی سے آج بھی نہیں ہے۔ بلکہ صورتحال پہلے سے بھی بدترہے۔ اگرکوئی بھی شخص دلیل کی بنیاد پر کوئی مختلف نکتہ اُٹھائے، تواب اسے قیدنہیں کیا جاتا۔ اسے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سات سو برس پہلے جوفکری آزادی مسلمان ریاستوں میں موجود تھی، آج وہ مغرب میں توموجودہے۔ مگرمسلمان ممالک دلیل کی بنیاد پرسوال وجواب سے عاری ہوچکے ہیں۔
سات سوبرس سے ہماری بربادی کی متعدد وجوہات میں سے ایک ہے۔ وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ اکثرمسلمان ممالک فکری طورپربالکل اسی سطح پر زندہ ہیں، جتنا یورپ اتنے عرصے پہلے تھا۔ ہاں اب، تحقیقی سمتیں متضاد ہوچکی ہیں۔ اب سائنس، علم، فلسفہ، تحقیق مغرب کا اوڑھنا بچھوناہے اور جنگ، تشدد پسندی، دہشت گردی ہماری میراث ہے۔ جہالت کا لفظ نہیں لکھ رہا۔ اس لیے کہ اکثر لوگ ناراض ہوجائینگے۔ مگرجہالت کے لفظ سے بہتر ہماری صورتحال کی عکاسی کوئی اورلفظ نہیں کرسکتا۔
ہمارے گھروں میں جب کسی بچے یابچی کی ولادت ہوتی ہے۔ اسے آہستہ آہستہ اردو، انگریزی، پنجابی، پشتو اوردیگرزبانیں سکھائی جاتی ہیں۔ یہ بالکل عام ساگھر یلو رویہ ہے۔ مگرایک چیزسے اس معصوم کو دور رکھا جاتا ہے۔ اوروہ ہے "سوال پوچھنے کی عادت"۔ بچپن کے زمانے کو بغور یاد کیجیے۔ کہ اگرکوئی بچہ یابچی بنیادی معاملات میں کوئی پیچیدہ سوال پوچھ لے تویاتووالدین اسے ڈانٹ کرڈرادیتے ہیں یااسے تھپڑ مار کر باور کروا دیتے ہیں کہ اس طرح کے سوال بالکل نہیں پوچھنے چاہئیں۔ نتیجہ کہ ذہنی تجسس توموجود رہتا ہے مگراس کی کاشت خوف کی زمین میں پیوست ہوجاتی ہے۔
بچہ اس خوف سے پوری عمرباہرنہیں نکل سکتا۔ اسکول اور کالجوں میں بھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی درسی کتابوں کے بوجھ سے لاد دیا جاتا ہے۔ اگر آپ درسی کتابوں کے باہرسے معمولی سابھی سوال کریں توڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرناپڑتاہے۔
نتیجہ یہی کہ بچہ، فکری خوف کے ساتھ بڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس اَمرمیں عافیت نظرآتی ہے کہ صرف اورصرف ایک مخصوص طریقے سے سوچے اور بس، اسی طرح زندہ رہے۔ ہمارے پورے ملک میں بین الاقوامی سطح کی کوئی یونیورسٹی یا درسگاہ موجود نہیں ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کاکوئی تجربہ نہیں ہے۔ صرف بارہ دن کے لیے ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات پڑھنے گیا تھا۔ پروفیسرتوخیرحددرجہ لائق تھے۔ مگروہاں چندطلباء کا زورتعلیم پرنہیں بلکہ اس بات پرتھاکہ کوئی طالبعلم کسی طالبہ سے گفت وشنیدتونہیں کررہا؟ کہیں بچے اوربچیاں زورسے قہقہے تونہیں لگا رہے؟ لہٰذا خاموشی سے اس کورس اورادارے سے کنارہ کشی کرلی۔
فکری خوف بچپن کی دہلیزسے لے کرمرنے تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ساٹھ سال کی عمرمیں ہم سوال کرنے سے اتناہی گھبراتے ہیں جتنابیس پچیس برس کی عمر میں۔ سائنس اورتحقیق کی بنیادپراگرآپ کچھ بھی پوچھنے کی ہمت کریں گے توآپ کاجینامحال کردیاجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیامیں تقریباًدوارب مسلمان ہونے کے باوجودہم تحقیق کی دنیامیں کہیں بھی نظرنہیں آتے۔ باربارعرض کررہاہوں کہ بچپن سے لے کرموت تک ہمیں مخصوص اندازمیں سوچنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ آپ کوئی چبھتا ہوا سوال نہیں پوچھ سکتے۔ بتایاجاتاہے کہ ملک میں یونیورسٹیوں کاجال بچھا دیاہے۔
پتہ نہیں کہ وہ جال ہے یافکری موت کے قبرستان ہیں۔ مگرکیاآج تک کسی صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، تاجریاکاروباری ادارے نے کہا ہے کہ اس نئی تعلیمی درسگاہ کو کیمرج، ہارورڈ، نیویارک یونیورسٹی، برکلے یااس طرح کے اداروں کی سطح پرلے کر جائیں گے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم اپنے تمام تعلیمی اداروں میں طلباء یاطالبات کوذہنی قفل لگا کر رکھتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اس کی چابی کہاں ہے۔ ذہنی گھتیاں کیسے کھلتی ہیں۔ مگروہ چابی ہم نے جہالت کے سمندرمیں اس طرح پھینک دی ہے کہ ڈھونڈنے پربھی دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔
میرے ایک عزیزدوست کابیٹاپانچ برس پڑھنے کے لیے لندن کی کیمرج یونیورسٹی میں داخل ہوگیا۔ کچھ عرصہ پہلے، دوست اپنے بیٹے کوملنے کے لیے یونیورسٹی گیا تو اسے ہاسٹل اورکلاس روم میں بیٹانظرنہ آیا۔ خیر کیمرج دنیاکی محفوظ ترین جگہ ہے۔ ڈھونڈنے نکلا تو دس منٹ میں ایک تین سوبرس پرانے پُل پرسائیکل کھڑی کرکے اکیلابیٹھاہواتھا۔ والدنے پوچھاکہ بیٹا کیا کررہے ہو۔ جواب تھاکہ میرے پروفیسرنے حکم دیاہے کہ ہفتہ میں ایک دن کوئی کام نہ کرو۔ بلکہ جوکچھ تمہیں پڑھایا جا رہا ہے اس کے متعلق غور کرو۔ ہاں، قطعاًیہ مت سوچناکہ جو کچھ تمہیں تعلیم دی جارہی ہے وہ درست ہے۔
بلکہ سوچو، تحقیق کرو، کہ تمہیں غلط پڑھایاجارہاہے۔ دلیل کی بنیادپرکلاس میں آؤ اور ثابت کروکہ تمہیں مکمل طورپر ناقص اورمنفی تعلیم دی جارہی ہے۔ میرادوست، اپنے بیٹے کی بات سن کردنگ رہ گیا۔ جب لاہورآکریہ واقعہ سنایا تو میں بھی ششدر رہ گیا۔ کہ کیادنیامیں ایسی بھی درسگاہیں ہیں جواپنے آپ کی دلیل کی بنیادپرنفی کررہی ہیں۔ فرق صرف ایک ہے کہ وہاں ہرنوعیت، ہرطرح کا سوال کرنے کی بھرپورآزادی ہے۔ کوروناکی دوائی، امریکی، برطانوی، روسی، چینی سائنسدانوں نے بنائی ہے۔
ہمارے پاس اس سطح کے سائنسدان اورمحقق کیوں موجود نہیں جوایک وباء کی دوائی تک بناسکیں۔ اب ہم بڑے فخر سے کافروں کی بنائی ہوئی دوائی استعمال کررہے ہیں۔ مسلمان ممالک سات سوبرس سے بنجرہیں اوراگلی کئی صدیاں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ گزشتہ سات صدیوں سے ہمیں دلیل کی بنیادپرسوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہے!پھرکیسی ترقی اورکیسی جدت!