Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Selab

Selab

اگر شرفاء اور پڑھے لکھے لوگ، کوچہ سیاست سے درگزر کریں گے۔ تو یقین کامل رکھیے کہ معاشرے کی تلچھٹ اقتدار پر قابض ہوجائے گی۔ ظالم لوگ عام آدمی کی شہ رگ سے خون پیئں گے اور بیان یہی ہو گاکہ سب کچھ صرف اور صرف عوام کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں۔

پاکستان میں یہ کھیل حد درجہ سفاک مہارت سے کھیلا گیا ہے۔ یہ بھی عرض کرنے کی جسارت کرونگا کہ اقتدار کا مکروہ ترین دھندہ آج بھی کامیابی سے رواں دواں ہے۔ ذاتیات سے بالاتر ہو کر سوچیے بلکہ سمجھئے۔ کیا اقتدار پر قابض لوگوں کا مہنگائی، قانون کی حکمرانی، عدل سے رتی بھر کا بھی تعلق ہے؟ ہرگز نہیں۔ ان کے لیے یہ سب کچھ بے معنی ہے۔ سیلاب پر نظر دوڑایئے۔

ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر جیسے اڑن کھٹولوں پر سوار ہو کر انسانی کیڑے مکوڑوں کا فضائی جائزہ کیا واقعی حقیقت پسندی ہے۔ کیا یہ سیلاب زدگان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں۔ کیا ہمارے راج کمار اور ان کی ادنیٰ ٹیم بے سہاروں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے بند پر رات کو نہیں سو سکتی؟ کیا ان کو اندازہ ہے کہ مچھروں کے غول چوبیس گھنٹے بے بس لوگوں پر حملہ آور رہتے ہیں۔ کیا یہ حکمران اپنے سرکاری محلوں سے نکل کر اس غول میں ایک گھنٹہ گزارنے کی بھی استطاعت رکھتے ہیں۔ جواب تو آپ کو معلوم ہی ہے۔

پھر مزید کیا لکھوں۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر، امریکی ریاستوں میں سمندری طوفان کی تباہ کاری کھلی جیپ پر ملاحظہ کرتا ہے۔ وہ بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ۔ جیپ میں کھڑے ہوکر۔ یقین نہ آئے تو سابقہ امریکا صدر جارج بش جونیئر کی کیترینہ طوفان میں آمدورفت دیکھ لیجیے۔

ایک اور بات بتاتا چلوں۔ جارج بش کا سیاسی زوال اسی طوفان میں ناقص کارکردگی سے شروع ہوا تھا۔ اس کے قلیل عرصے کے اندر امریکی صدر تاریخ کے کوڑے دان میں جا چکا تھا۔ موجودہ سیلاب میں مرکزی حکومت، کے پی، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں کسی طور پر بھی سیلاب زدگان کی خاطر خواہ مدد نہیں کر سکیں۔ اس کا سیاسی خمیازہ اگلے چناؤ میں انھیں ہر طور بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ حکمران صرف اور صرف دکھاوے کے طور پر پانی میں نکل رہے ہیں۔

سندھ میں صورت حال اس قدر دگر گوں ہے کہ صوبائی سیاسی قزاق اپنی زمینوں کو بچانے کے لیے جھیل اور بند کو اس طرح کٹوا رہے ہیں کہ ان کی جائیداد محفوظ رہے۔ سندھ اس وقت مکمل طور پر یتیم ہے۔ جمہوریت برہنہ پا رقص کر رہی ہے۔ ایک امدادی کیمپ میں ماں صبح اٹھتی ہے تو غم سے پاگل ہو جاتی ہے۔ اس کی بچی جو رات اس کے ساتھ سوئی تھی۔ اغواء ہو چکی تھی۔

مطلب یہ کہ اغوا کاروں کے گروہ کیمپوں میں بچیوں کو اغواء کرنے کے کریہہ ترین کاروبار میں مصروف ہیں۔ سندھ میں قانون کی حکمرانی کا اندازہ لگایئے کہ کراچی میں چلتے ہوئے ہوٹل، ڈاکوؤں کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ رہزن اب نقب نہیں لگاتے۔ سینہ تان کر شہریوں اور کاروباری جگہوں کو لوٹتے ہیں۔ کوئی انھیں روکنے والا نہیں۔ واقعی اب ثابت ہو چکا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

کراچی سے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سی ای او چند دن پہلے لاہور تشریف لائے۔ طویل نشست ہوئی۔ بارشوں اور کراچی کے حالات پوچھے تو تہلکہ خیز انکشافات ہوئے۔ ان کا ذاتی گھر کراچی کے متمول ترین علاقے میں ہے۔ گھر کی قیمت تقریباً سو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

بارش میں ان کے گھر میں پانی جمع ہو گیا۔ پانی کو باہر نکالنے کے تمام انتظامات بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ گلیاں دریا کا روپ دھار چکی تھیں۔ ساری گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ تہہ خانہ مکمل طور پر بیٹھ گیا۔ اہل خانہ کے ہمراہ بالائی منزل پر منتقل ہو گئے۔ مگر وہ بھی گرنے لگی۔ مجبوراً اپنے ایک عزیز کے گھر منتقل ہونا پڑا۔ امیر ترین علاقے کی بات کر رہا ہوں۔

پوچھا کہ سندھ کے سب سے بڑے آدمی کے گھر کا کیا ہوا۔ جواب تھا کہ وہاں اردگرد تو پانی کا ایک قطرہ تک نہیں تھا۔ مکمل محفوظ اور خشک تھا۔ حقیقت عرض کر رہا ہوں۔ کسی سیاسی پارٹی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ پر کیا سندھ کی صوبائی حکومت اپنی ناقص کارکردگی کے سبب مستعفی ہو گی۔ جناب یہ توقع تو کیا، سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اب ذرا کے پی کی طرف آیئے۔ دریائے کابل اوردریائے سوات کے پیٹ میں ان گنت ہوٹل بنانے کی اجازت کس نے دی؟ تحریک انصاف وہاں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے حکومت کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سے کیوں نہیں پوچھا گیا۔

یا وزیراعلیٰ نے سرکاری عمال پر گرفت کیوں نہیں کی کہ دریا کے دھارے کے اندر کیونکر بڑے بڑے ہوٹل بنانے کی اجازت دی گئی۔ پر اطمینان رکھیے۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے پوچھ گچھ کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ان کی سرکاری نااہلی سرچڑھ کر بول رہی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دریائے کابل کاغضب دیکھ کر خوف آتا ہے۔ مگر مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی اطلاع تو ہم سب کو پہلے سے دی جا چکی تھی۔

پھر بروقت حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔ شاید جواب معیوب لگے۔ متاثرین کی بحالی میں بہت رقم ملتی ہے۔ اس میں خوردبرد حد درجہ آسان ہے۔ بلوچستان کا حال دیکھیے۔ سیلاب اور بارشوں نے ہر چیز روند ڈالی۔ بند ایسے بہے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کا وجود ہی بے معنی تھا۔ بلوچستان کے سرکاری ٹھیکیداروں کو سوشل میڈیا پر بیان دینا پڑا کہ ہم سے تعمیراتی ٹھیکوں میں پچاس فیصد رشوت وصول کی جاتی ہے۔

جس میں وزیر سے لے کر نیچے تک سب لوگ شامل ہیں۔ ان سنگین الزامات کی تردید صوبائی حکومت کی طرف سے بالکل نہیں آئی۔ تردید تو دور کی بات، کسی ذمے دار سرکاری یا سیاسی شخصیت نے اس پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ خود سوچئے۔ اگر بلوچستان میں بند تعمیر کرنے میں پچاس فیصد رقم سرکاری ڈاکوؤں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے تو باقی کیا خاک معیاری تعمیر ہو گی۔ سندھ میں بھی یہی حالات ہیں۔ ویسے کوئی بھی صوبہ آلائش سے پاک نہیں۔ لین دین کا ان دیکھا نظام پوری شان و شوکت سے جاری ہے۔ کسی کو بھی کوئی خوف نہیں۔

کیا یہ معمولی بات ہے کہ وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں ہر کوئی پیسے جمع کروانے سے کترا رہا ہے۔ مختلف بینکوں سے معلوم ہو رہا ہے کہ ریلیف فنڈ میں پیسہ جمع کروانے کا رجحان از حد کمزور ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ عام لوگوں اور سرکار کے درمیان حد درجہ بے اعتباری ہے۔ کسی فریق کو بھی دوسرے پر اعتبار نہیں۔ غیر ملکی حکومتیں بھی نقد رقم دینے سے اجتناب کر رہی ہیں۔ زیادہ زور سامان بھیجنے پر ہے۔

جو تجزیہ کاروں کے حساب سے مجبور اور پانی میں محبوس افراد تک مکمل طریقے سے نہیں پہنچ رہا۔ سیاسی گرو بھرپور طور پر خوردبرد میں ملوث ہیں۔ سندھ کے ایک سیشن جج نے مقامی سیاسی کارکن کے گودام پر چھاپا مار کر سیکڑوں خیمے برآمد کیے ہیں۔ جو موصوف نے امداد دینے والوں سے جمع کیے تھے۔ شرمناک، صاحبان شرمناک حقائق ہیں۔ سیلاب زدگان کے لیے امداد میں ہر طرح کی لوٹ مار جاری ہے۔

باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ غریب لوگوں کے درد کے علاوہ ان کے سینے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ سیلاب اور بارش تو ہندوستان میں بھی ہوئی تھی۔ پورا بنگلور ڈوب گیا تھا۔ آئی ٹی کا سرخیل شہر بارشوں سے لرز اٹھا تھا۔ مگر وہاں تو کسی بھی غیر ملکی امداد کے لیے بھیک نہیں مانگی گئی۔ مطلب کیا ہوا۔ ہندوستان نے لاتعداد بیراج اور حفاظتی بند بنائے ہوئے ہیں۔ پانی کو جمع کرنے کے ذخائر کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے۔ پوری دنیا کو علم تھا کہ ہندوستان اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔

ان کی آبی پالیسی حد درجہ مستحکم ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمسایہ ملک بڑے نقصان سے بچ گیا۔ یہ نہیں کہ وہاں سیاسی چپقلش موجود نہیں ہے۔ کرپشن نہیں ہے۔ نظام کوئی بہتر طور پر چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی ہر حکومت، اپنے ملک کی بہتری کے لیے بروقت سوچتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کانگریس کی حکومت میں شروع کیے گئے اہم منصوبے، بی جے پی کی سرکار ختم کر دے۔ ہمارے ہاں، اگر مرکزی حکومت نے خدانخوستہ کوئی اچھا کام کر ہی لیا ہے تو آنے والی حکومت اس کو ابتر کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔ موٹروے کا منصوبہ نواز شریف نے شروع کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں اس شاندار پروجیکٹ میں ہر طرح کے رخنے ڈالنے کی بھرپور کوشش کی۔ کبھی موٹر وے کو چھ لین سے چار لین کر دیا جاتا تھا۔ صحت کارڈ، سابقہ وزیراعظم کا بہترین منصوبہ تھا۔ ہر آدمی بہترین اسپتال میں مفت علاج کروا سکتا تھا۔ مگر اس کو بھی برباد کر نے کی بھرپور کوشش جاری و ساری ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی بدولت سیلاب حد درجہ خطرناک ہو چکا ہے۔ مگر جو حکمران دہائیوں سے لوگوں کو جعلی دعوؤں سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ وہ آج بھی کامیاب ہیں۔