Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Shaam To Ho Chuki Hai

    Shaam To Ho Chuki Hai

    زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے اورکس طرح کی پر پیچ پگڈنڈیوں سے گزرکراختتام کی طرف تیزی سے رواں دواں رہتی ہے۔ یہ بذاتِ خودایک لاجواب سوال ہے۔ حد درجہ کم ہوتاہے کہ انسان، تھوڑی دیرٹھہرکربلکہ منجمد ہوکراپنے ہی گزرے ہوئے وقت کے متعلق سنجیدگی سے سوچے۔ ویسے اس فہم کا عمرسے کوئی تعلق نہیں۔

    کون ساانسان، وقت کے کس دورانیہ میں سوچنے سمجھنے کی طرف مائل ہوجائے، اس کے متعلق کچھ بھی کہنا کم ازکم میرے بس سے باہر ہے۔ شایدکسی کے بھی۔ آج کل طبیعت حددرجہ بوجھل سی ہوچکی ہے۔ خوشیوں اور پچھتاؤں کاایک قافلہ ہے جس میں شامل رہتا ہوں۔ تلخی کوتوویسے ہی اپنے وجود سے باہرنکال چکا ہوں۔ دیکھا جائے توسب کچھ انسان کے اندرہی ہوتا ہے۔

    ذہن کے اندرکاشور، باہرکے سناٹے سے مختلف ہے، شاید متضاد، جہاں دن کااکثراورشب کاتقریباًنصف وقت گزرتا ہے، وہاں اردگردصرف کتابیں ہی کتابیں ہیں۔ کبھی کبھی توعجیب سالگتاہے کہ اتنی ڈھیرساری کتابیں کس طرح جمع ہوگئیں۔ کیاواقعی میں نے جمع کی ہیں۔ عادت ہے کہ ہرکتاب کے شروع میں خریدنے کی جگہ اورتاریخ اورمقام لکھتاہوں۔ اپنی تحریر دیکھ کریقین ہوتا ہے کہ تمام کتابیں وقت کے ساتھ ساتھ میرے قافلے ہی میں شریک رہی ہیں۔ ویسے کتابیں پڑھنے کوبھی کم طبیعت مائل ہوتی ہے۔ ٹی وی کے اُکتادینے والے پروگرام بھی حددرجہ گراں لگتے ہیں۔ چیختے چنگھاڑتے لوگ لاحاصل بحث میں وقت ضایع کرتے نظرآتے ہیں۔

    کسی بحث کاکوئی اختتام نہیں ہوتا۔ اخبارات میں بھی وہی سنسنی اوریکسانیت نظرآتی ہے۔ ایک نظرڈالیں اورمعاملہ ختم۔ کبھی کبھی کوئی عمدہ کالم نظرآتاہے تو ہلکی سے خوشی عودکرآتی ہے۔ ہاں، اپنے کتابوں والے کمرے میں ایک اسپیکر ضرور رکھا ہوا ہے۔ یہ کوئی تین برس پہلے کراچی سے منگوایاتھا۔ دونوں بیٹوں یعنی مبارزاورحمزہ نے بتایاتھاکہ اب میوزک سسٹم متروک ہوچکے ہیں۔ بلیوٹوتھ سے منسلک اسپیکر کا دور ہے۔ دونوں بیٹوں نے خاصی تحقیق کرکے کراچی سے ایک نمایاں کمپنی کا میوزک اسپیکر منگوا کردیاتھا۔ بڑے بیٹے نے میرے پرانے سے موبائل فون سے اسپیکر کو منسلک کیا۔ اب ہوتا یوں ہے کہ کسی بھی وقت بیگم اخترفیض آبادی کوسنناشروع کر دیتا ہوں۔ صاحبان! کیا آواز ہے۔ کمال حدکمال۔ بالکل اسی طرح کے ایل سہگل کو سنتا ہوں۔ یہ لوگ جادوئی فنکار تھے۔

    ہاں، ایک بات لکھنابھول گیا۔ قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ دوبار یا شاید تیسری بارپڑھناشروع کیا ہے۔ ترجمہ پڑھنے کے بعداس پرغورکرتاہوں۔ ایسے ایسے سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ خوفزدہ ہوجاتا ہوں۔ پہلے پہلے توسمجھ میں ہی نہیں آرہاتھاکہ کیا کروں۔ ان سوالوں کوذہن میں مقیدرہنے دوں یاکسی سے پوچھوں۔ ایک ایسانام خدانے ذہن میں ڈالاکہ گرہیں کھلنے لگیں۔ ڈاکٹرخالدظہیرصاحب کا۔ جدید دورسے منسلک حددرجہ پڑھے لکھے عالم دین۔ مشرقی اقدارسے بھرپوراورمغربی دنیاسے استفادہ حاصل کیے ہوئے بڑے عالم۔ ان کا واٹس ایپ نمبرموجودتھا۔

    ڈرتے ڈرتے پیغام بھیجاکہ سوچ کے پُل پرتنہاکھڑاہوں۔ قرآن کا عام سا طالبعلم ہوں۔ سوال پوچھناچاہتاہوں۔ ڈاکٹرصاحب کاجواب آیا کہ پوچھیے۔ ہمت کرکے صرف ایک سوال میسج کے ذریعے بجھوادیا۔ تقریباًدس گھنٹے کی خاموشی رہی۔ پھر ڈاکٹرصاحب کی جانب سے ایک مدلل جواب آیا۔ بخدا، انھوں نے فکرکاایک روشن راستہ کھول دیا۔ کہنے لگے، ہدایت کا یہ سرچشمہ حددرجہ سنجیدہ ہے۔ Casualطرزِ زندگی کے افراد نہیں سمجھ پاتے۔ یقین کی منزل پر وارفتگی سے چلنے والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ جواب سن کر جب قرآن اورترجمہ پڑھناشروع کیا توذہن میں ایک بھرپورپسِ منظرتھا۔ خدا، ڈاکٹرخالدظہیرجیسے عالم کو صحت اور لمبی زندگی دے، کمال کاشخص ہے۔

    اسٹڈی میں دل خوب لگتاہے۔ چندلمحے اپنے ساتھ گزارنے کانادرموقعہ میسرآتاہے۔ کتاب، موسیقی اور تنہائی حددرجہ عظیم ساتھی ہیں۔ دراصل خاموشی کی زبان سب سے طاقتورہے۔ کبھی کبھی سوچتاہوں کہ انسان اپنی عملی زندگی میں کیاکیاجتن کرتاہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ہردم کوشاں رہتاہے۔ اور پھرعملی زندگی ایک پَل کی طرح گزرجاتی ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ اکثر دوست کہتے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعدانسان کے سماجی رابطے حددرجہ کم ہوجاتے ہیں۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہی نہیں ہے۔ مگرمیں نے اس سے حددرجہ مختلف امکانات پائے ہیں۔

    حلقہ میں دوست ہردم ساتھ رہتے ہیں۔ سماجی روابط توخیرپہلے سے بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ مسلسل کسی نہ کسی طورپرمیل جول جاری رہتا ہے۔ اصل بات تویہ ہے کہ فرصت کم میسرآتی ہے اور اکیلارہنامیرے لیے ایک خزانے سے کم نہیں رہا۔ اپنے اردگرددیکھتاہوں تومیری عمرکے لوگ یکسرزندگی میں دلچسپی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اکثریت کی گزارش کررہا ہوں۔ مگرآج بھی میں زندگی میں ہرتنوع کومحسوس کرتا ہوں۔ زندگی کی کئی گھتیاں تو ویسے ہی سنجیدہ عمرمیں کھلنی شروع ہوتی ہیں۔ ایک بات پر ضرورعمل کرتاہوں۔ سرکاری دفاترمیں بااَمرمجبوری فون کرتاہوں۔ بابوؤں سے بات کرنے سے حددرجہ اجتناب کرتاہوں۔ اس لیے بھی کہ عمل اورردِعمل کاشکار نہیں ہوناچاہتا۔

    منیرنیازی صاحب ایک دن پتہ نہیں کیوں، مجھے کہنے لگے کہ ڈاکٹر، ایک ایسی بات بتاناچاہتاہوں جس پرپوری زندگی عمل کرتارہاہوں۔ نیازی صاحب کہنے لگے کہ پوری عمرکبھی، کسی بھی صورتحال میں ردِعمل کاشکارنہ ہونا۔ اگریہ کروگے توزندگی دکھی ہوجائے گی۔ تیس برس پہلے مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی۔ مگراب پَلے پڑی ہے۔

    ہم اپنے ذاتی سکون کواس لیے بھی برباد کرلیتے ہیں کہ فلاں حرکت یاگفتگویاجواب کی ہرگز ہرگز توقع نہیں تھی۔ یہ ردِعمل کاحصہ ہے۔ اس تالاب میں اگرایک بارکودپڑے، توغیرمتوقع طورپردکھ اوراندرونی غم کے چھینٹے آپ کوشرابورکردیں گے۔ جب سے ردِعمل کا احساس ذہن سے کھرچ کرنکال دیاہے، زندگی حددرجہ پُرسکون ہوگئی ہے۔ سرکاری بابوؤں سے کوئی کام ہی نہیں پڑتا۔ مگر کبھی کبھی کسی مظلوم انسان کی فریادآگے پہنچانی ہوتو ضرور ارباب اختیارسے بات کرتاہوں۔ آپ کبھی ردِعمل کواپنے اندرسے کھرچن کی طرح باہرنکال ڈالیں۔ توقیاس نہیں، یقین سے، زندگی بہتر ہوجائیگی۔

    پنتیس برس سرکارکی اعلیٰ ترین نوکری کرنے کے بعد یہ احساس ہوا ہے کہ افسران، ذاتی سطح پرلوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ہردم تیارتورہتے ہیں۔ مگر تہتر سال سے سیاستدان اورسرکاری افسران مجموعی طورپرعام لوگوں کی زندگی کوآسان نہیں کرپائے۔ اقتدارکسی بھی شخص کے پاس ہو، کوئی بھی حکمران عام لوگوں کے جزوی مسائل تک حل نہیں کرپایا۔ یہ نہیں کہ ان مقتدر لوگوں میں اچھے انسان نہیں۔ چندشاندارانسان بھی ہیں۔ مگرایک ایسی مثبت تبدیلی جیسے جاپان، ساؤتھ کوریا، یواے ای یاچین میں برپاہوئی ہے، اس میں ہم مکمل طورپرناکام ہوئے ہیں۔

    یہ ایساقومی المیہ ہے جس نے ہمارے ہر شہری کومصلوب کیاہے۔ ہماراہرقومی ادارہ اپنے بوجھ کے نیچے خودٹوٹ چکاہے۔ شایدقیادت کافقدان ہے یا بوجھل نظام کامنفی کمال کہ مجموعی طورپرناکام ہوچکے ہیں۔ قومی سطح پرناکامی کے باوجودکیاانسان انفرادی سطح پر کامیاب ہونے کے لیے محنت کرنا چھوڑ دے۔ ہر گز نہیں۔ ذاتی کامیابیاں حاصل کرنے والے لوگوں کاایک ہجوم ہے۔ جنھوں نے اپنی عملی زندگی میں ہرلحاظ سے انفرادیت حاصل کی۔ بے مثال مادی اورذہنی ترقی کی۔

    سرکاری زندگی میں اپنے آپ کوعام آدمی کی بہتری کے لیے ہرممکن مصروف رکھا۔ مگرپھربھی اجتماعی سطح پر کوئی تبدیلی لانے میں معاونت نہیں کرپایا۔ شایدایک عام سابابوتھا۔ فرق صرف یہ کہ ہروقت دروازے کھلے رکھتا تھا۔ اس بات کاادراک ہے کہ اپنے حصہ کاکام اچھے طور پر کرنے کی عملی کوشش ضرورکی ہے۔ حساب تو اپنے اپنے عمل ہی کاہے۔ مگرسوچ ذہن میں ضرورآتی ہے کہ ہمارا ملک، عظیم ترکامیابی کیوں حاصل نہیں کر پایا۔ ہم ذہنی، اقتصادی، سماجی طورپراتنے پسماندہ کیوں ہیں۔ اب سوال کرنابھی ترک کرناچاہتاہوں۔ اس لیے کہ زندگی کی شام ہوچکی ہے۔ وقت کاسورج تو ڈھل چکاہے۔ اب تو اندھیراہونے کو آچکا ہے۔ لہٰذا، کیسی پریشانی اورکیسا دکھ!