Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Shahi Khandan

    Shahi Khandan

    مراداول سلطنت عثمانیہ کاتیسراسلطان بن چکا تھا۔ سلطانِ اعظم کالقب اختیارکرنے والے بادشاہ کا دربارمیں پہلادن تھا۔ ہرطرف بیش قیمت لباس پہنے درباری اورافسرموجودتھے۔ رنگ ونورکاسیلاب تھا۔ بڑی بڑی پوشاکیں پہنے، ہیرے جواہرات سے مزین، حکومت کے اہم ترین افراددربارمیں آراستہ تھے۔

    بادشاہ حددرجہ خوش تھا۔ مرتبہ کے اعتبارسے ایک ایک کرکے سرکارکے اہم ترین لوگ سلطان کے قریب آتے تھے۔ ادب سے سلام کرتے تھے۔ حیثیت کے حساب سے تحفے دیتے تھے۔ پھرخاموشی سے واپس قطارمیں کھڑے ہوجاتے تھے۔ ہربندہ سلطان کی شوکت وسطوت سے متاثر تھا۔ خودمراداول کی شاہی پوشاک دیدنی تھی۔ سرخ رنگ کا جواہرات سے بھرپور گاؤن اور سفید رنگ کی بڑی سی پگڑی۔ اس لباس میں حددرجہ رعب دارلگ رہاتھا۔ یہ پندرہ جون1389کا دن تھا۔ ان تمام رنگینیوں سے صرف تھوڑاسادورشاہی محلات تھے۔ جن میں مرادکے حقیقی اورسوتیلے بہن بھائی مقیم تھے۔

    اس شاہی خاندان پراس وقت قیامت چھائی ہوئی تھی۔ جلاد، سلطان مرادکے بھائیوں کوایک ایک کرکے بلاتاتھا۔ انکوادب سے جھک کرسلام کرتا تھا اور پھربھاری تلوارسے گردن کاٹ دیتاتھا۔ بہنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک رواتھا۔ بادشاہ کے تخت نشین ہوتے ہی، اس کے تمام بھائیوں اور بہنوں کوقتل کردیا جاتا تھا۔

    یہ ترک قانون کے حساب سے بالکل جائزتھا۔ سلطان مراداس خاندانی قانون کے مطابق اپنے قریب ترین قرابت داروں کی گردن زنی کاحکم دے چکاتھا۔ یہ معاملہ صرف ایک سلطان تک محدودنہیں تھا۔ بلکہ تین سوسال کی مدت میں جتنے عثمانی بادشاہ بنے، تمام کے تمام نے بلاخوف اپنے خونی رشتے داروں کوپہلے دن ہی موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ اس قانون کو ترکی زبان میں برادرکشی کہاجاتاتھا۔ عثمانیہ خاندان کی سلطنت چھ سوسال رہی اوراس کے پہلے تین سوسال میں یہی خونی قانون مروجہ تھا۔ پھرحرم سرامیں ایک جہاندیدہ ملکہ نے اس قانون کوتبدیل کروادیا۔ اب سلطان اپنی زندگی میں ولی عہد مقرر کر دیتا تھا۔

    مگر اس نامزدولی عہد کو فوراً قید کردیا جاتا تھا۔ کسی کوبھی اسے ملنے جلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسے کسی قسم کی مشاورت کے عمل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ کوئی بھی ولی عہدسے بات نہیں کرسکتاتھا۔ یہ قیدِتنہائی کی بدترین قسم تھی۔ جس دن سلطان کاانتقال ہوتا تھا۔ ٹھیک اسی وقت ولی عہدکو قیدسے نکال کرمسندنشین کردیا جاتاتھا۔ وہ شخص جوکسی سے بات تک نہیں کرسکتاتھا۔ جسے طویل مدت تک تنہائی میں رکھاگیاتھا۔ یک دم سلطنت عثمانیہ کاکامل مالک بن جاتاتھا۔

    اسے اُمورِسلطنت کاکچھ بھی معلوم نہیں ہوتاتھا۔ سرکاری معاملات سے مکمل نابلدہوتا تھا۔ مگرپھربھی وہ سلطان ہوتاتھا۔ اکثراوقات، اس طرح کے ولی عہد، بدترین بادشاہ ثابت ہوئے۔ ان نااہل سلاطین نے دنیاکی عظیم سلطنت کوبرباد کرکے رکھ دیا۔ چھ سوسال قائم رہنے والی حکومت پہلی جنگِ عظیم کے بعداپنے ہی بوجھ تلے برباد ہوگئی۔ اس کے بعدپوری دنیامیں مسلمانوں کی اتنی وسیع وعریض سلطنت قائم نہیں ہوسکی۔

    خلافت عثمانیہ کے پاس ہرچیز تھی۔ جہاز، آبدوزیں، بھرپورفوج، نظامِ انصاف، مگراس سلطنت کے پاس ایک مستندقانون نہیں تھا۔ وہ یہ کہ حکومت کوایک بادشاہ سے کس طرح دوسرے انسان کومنتقل کرناہے۔ اقتدارکی منتقلی کاکلیہ نہ ہونے کی بدولت حددرجہ عجیب وغریب فیصلے کیے جاتے تھے۔ جن کی بدولت ہمارے ملک کی طرح انتہائی ادنیٰ کردارکے لوگ تخت نشین ہوجاتے تھے۔

    یہ سقم صرف ترک سلطنت تک محدودنہیں تھا بلکہ مغلیہ خاندان اورتقریباًتمام مسلم ریاستوں میں بدرجہ اَتم یہی موجودتھا۔ مغل خاندان میں بھی جب طاقتورترین بادشاہ کمزورپڑتاتھا، تواس کی جانشینی کاکوئی اُصول موجودنہیں تھا۔ تخت پرقبضہ کے لیے تمام بھائیوں اوررشتے داروں میں خانہ جنگی برپاہوتی تھی۔ تلوارفیصلہ کرتی تھی کہ کون بادشاہ ہند بنے گا۔ برصغیرمیں توایسے ایسے نمونے بادشاہ بنے ہیں، جنکے پاس کوئی اختیارنہیں تھا۔ مگرپھربھی وہ حاکم تھے۔

    ہندوستان میں حکومت کے لیے اپنے بھائیوں کوقتل کرواناعام تھا۔ رحم دل بادشاہ، اپنے رحم کامظاہرہ کرتے ہوئے، قریبی رشتہ داروں کوقتل نہیں کرواتاتھا۔ مگران کی آنکھوں میں گرم سلاخ پھیرکرانھیں اندھاکردیا جاتا تھا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کاہی نہیں تھا۔ پورایورپ اوردیگرممالک میں طاقت ہی حکومت میں آنے اور رہنے کاجوازہوتی تھی۔ پھرایک حیرت انگیزفکری اور سائنسی انقلاب نے یہ سب کچھ تبدیل کردیا۔ Renaissance نے یورپ میں وہ تبدیلی برپا کر دی، جس میں انسانی حقوق، مساوات، دلیل، منطق کا دوردورہ ہوگیا۔ انسان پرشخصی حکومتوں کی بیخ کنی کی گئی۔ بادشاہوں کو عضومعطل بنادیاگیا۔ ووٹ کے ذریعے حکومت سازی کے پختہ رجحان کوپنپنے کی اجازت دی گئی۔ برطانیہ اوردیگرممالک میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی۔

    جس وقت سلطنت عثمانیہ اورمغل بادشاہ، جدید خیالات سے خوفزدہ ہوکراپنے آپکومحدودکررہے تھے، یورپ سوچ کی جدت سے مستفیدہورہاتھا۔ ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی وجودمیں آچکی تھی۔ اس فکرِ نونے برطانیہ کو صرف ایک جزیرہ ہونے کے باوجود، ایک سپرپاور بنا دیا۔ جزئیات میں جائے بغیرالیکشن، ووٹ اوررائے عامہ کی بدولت حقِ حکمرانی کوتسلیم کرلیاگیا۔ برصغیرمیں مسلمانوں کواس فکرسے محمدعلی جناح نے آسودہ کیا۔ ویسے اس سوچ کے اصل سرخیل سرسیدتھے، مگروہ سیاستدان نہیں تھے۔ علمی انقلاب لے کرآئے تھے۔

    دنیامیں پچاس کے لگ بھگ مسلمان ممالک موجودہیں۔ یہ تمام براعظموں میں موجودہیں۔ اسطرح مسلمانوں کی مجموعی تعداددوارب کے قریب ہے۔ مگر کیایہ صرف اتفاق ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک میں جمہوریت اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ کسی بھی طرح سوچ بچارکریں۔ آپکو مسلمان ممالک میں خودسری، عدم مساوات، غیرجمہوری رویے اورانسانی حقوق کی پامالی نظرآئیگی۔ افریقہ سے شروع ہوجائیے۔ الجیریا، تنویسیا، موروکوکافی حدتک ترقی پسند معاشرے ہیں۔ مگران میں ملوکیت اورشخصی حکومتوں کا دوردورہ ہے۔

    تنویسیا دوبار جاچکاہوں۔ ایک اس وقت جب زین العابدین ملک کا صدرتھا اورایک اس کے بعدجب وہ ملک بدر کردیا گیا تھا۔ یہ کوئی آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ پہلی مرتبہ تنویسیا گیا تو صدرکی سیکڑوں فٹ بڑی بڑی تصویریں تقریباًہرعمارت پرموجود تھیں۔ اس کے حکم کے بغیرملک میں پتا نہیں ہلتاتھا۔ اس کی دوسری بیوی صرف آئس کریم کھانے کے لیے سرکاری جیٹ پرپیرس جاتی تھی۔ صدرکاخاندان پورے ملک کے وسائل پرقابض تھا۔ اس کے بعدیکدم عرب اسپرنگ Arab Spring کاآغازہوا۔ اورزین العابدین کواپنے ملک سے فرارہونا پڑا۔ دوسری بارتنویسیا گیاتوکسی بھی عمارت پرپرانے صدر کا نشان نہیں تھا۔

    الجیریامیں بھی یہی حال تھا۔ خیررہنے دیجیے۔ آپ پورے مشرقِ وسطیٰ کی حکومتوں کاجائزہ لیجیے۔ ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں جمہوریت کانام و نشان ہو۔ پورے خطے میں صرف اورصرف چھوٹے اور بڑے شاہی خاندان ہیں جو سالہاسال سے برسرِاقتدار ہیں۔ یہ شخصی حکومتیں دنیاکے طاقت ورممالک کی مرہونِ منت ہیں۔ اورہرطریقے سے محفوظ ہیں۔ مگروقت کے ساتھ ساتھ ان بادشاہوں کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ انسانی سوچ کے ارتقاء کی بدولت یہ لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عرض کرنے کانکتہ صرف یہ ہے کہ دیگرمسلمان ممالک میں عام آدمی کے جمہوری حق کوتسلیم نہیں کیاگیا۔

    اسی صورتحال میں اگراپنے ملک کی طرف دیکھتے ہیں۔ جمہوریت کانام لینے کے باوجودہم شخصی نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ درست ہے کہ بادشاہت کاصیغہ استعمال نہیں ہوتا۔ لوگوں کوبتایایہی جاتاہے کہ ووٹ کے ذریعے حکومت سازی ہوتی ہے۔ الیکشن سے حکومتیں آتی اورجاتی ہیں۔ مگریہ صرف اورصرف آدھاسچ ہے۔

    ہماری سیاست دوتین خاندانوں تک محدودہوچکی ہے۔ جوعلاقائی بادشاہ بن چکے ہیں۔ یہ ٹھیک بات ہے کہ یہ کبھی بادشاہ یاسلطان ہونے کادعوی نہیں کرتے۔ مگر ان کارہن سہن، محلات، دولت کاارتکاز، نوکروں کی قطاریں، ذاتی جہازاورسیاسی غلاموں کی صف بندی دراصل ان کی بادشاہت کااَن کہااعلان ہے۔ جمہوریت کے پردہ کے پیچھے صاف نظرآتاہے کہ ہمارے نظام پریہ شاہی خاندان سوارہیں۔ ان کی اولادیں اب نئے شہنشاہ بننے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں۔

    ہماری قوم کی ذہنی مفلسی ان کی بادشاہت کوہردم فروغ دے رہی ہے۔ ہاں!ان شاہی خاندانوں میں رقابتیں اور حسدبدرجہ اَتم موجود ہے۔ فرق صرف یہ کہ یہ عثمانی خلفاء کی طرح اپنے قرابت داروں کی گردنیں نہیں اُڑاسکتے۔ ویسے اگراجازت ہو، تو یہ لوگ، یہ کام بھی خوشی سے سرانجام دیں۔ فی الحال تویہ ملک اورعوام کی گردن کاٹ چکے ہیں۔ بات صرف سمجھنے کی ہے۔