Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shark Aur Barfani Cheetay

Shark Aur Barfani Cheetay

کافی عرصے بعدصاحب کافون آیا۔ شائد چھ سات ماہ بعد۔ کہنے لگے، آج ملاقات ہونی چاہیے۔ مگر رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے بعد۔ میں نے صاف انکارکردیا۔ اس لیے کہ تقریباًدس بجے سوجاتا ہوں۔ بڑے آرام سے نیندآجاتی ہے۔ صاحب نے بتایاکہ رات گئے تک مصروف ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کے مسائل حددرجہ بڑھ چکے ہیں۔ اہم ترین لوگ مشاورت کے لیے آرہے ہیں۔ لہٰذا ملاقات ساڑھے گیارہ کے بعدہی ہوسکتی ہے۔ دوبارہ بھرپور انکار کردیا کہ صاحب، دیکھیے جلدی سونے کاعادی ہوں۔ ملاقات پھر سہی۔ جھنجھلا کر صاحب نے کہاکہ لوگ ملنے کے لیے گھنٹوں نہیں، بلکہ ہفتوں انتظار کرتے ہیں اورتم کہہ رہے ہوکہ سونے کا وقت ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر، تمہاری انھی عادتوں کی بدولت تم اس سسٹم میں آگے نہیں جاسکے۔ خیرمیں اپنی ملاقاتیں مزید آگے کردیتا ہوں۔ تم ٹھیک آٹھ بجے شام آجانا۔ تقریباًآٹھ بجے، صاحب کے فارم ہاؤس پہنچاتوان کے غیرملکی نوکرنے بتایاکہ صاحب گیراج میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہاں پہنچا۔ توصاحب بڑی آسائش سے گیراج میں بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر، یہ میں نے نئی گاڑی امپورٹ کی ہے۔ سفیدرنگ کی رولزرائس انتہائی شاندار تھی۔ صاحب، اس پربڑے پیارسے ہاتھ پھیررہے تھے جیسے لوگ اپنے قیمتی ترین گھوڑے پرشفقت سے ہاتھ پھیرتے ہیں۔ ڈاکٹر، یہ گاڑی پورے پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس وقت، قیمت تقریباً بائیس کروڑروپے ہے۔

برجستہ کہاکہ صاحب، انسان اپنی قیمتی گاڑیوں اوربیش قیمت اندازِزندگی سے کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کے پاس دانائی کاخزانہ ہونا چاہیے۔ جواب سن کر، صاحب نے اتنے زورکاقہقہہ لگایاکہ ان کے بالکل نزدیک بیٹھا ہوا چھوٹا سا سفید بندر، گیراج سے باہربھاگ گیا۔ میں نے کوئی لطیفہ تونہیں سنایا۔ پھراتنی ہنسی کیوں۔ جملہ سن کرصاحب نے جواہرات سے مزین ایک لائٹر نکالا۔ ساتھ ہی نوکر، چرچل کاسگارلے کر آگیا۔ سلگانے کے بعد کہا، ڈاکٹر تم اس ملک کے نظام کوبالکل نہیں سمجھتے۔ یہاں پی ایچ ڈی کرنے کے بعدلوگ، اَن پڑھ یانیم خواندہ سیاستدانوں اورسیٹھوں کے پاس نوکری کی بھیک مانگتے ہیں۔

پچاس، ساٹھ یاایک لاکھ روپے پراپنی تمام ذہانت فروخت کرنے کے لیے ضدکرتے ہیں۔ ڈاکٹر! دانائی، کم ازکم ہمارے ملک میں تومنفی چیز ہے۔ اپنی مثال لو۔ تم پڑھے لکھے آدمی ہو۔ تمہیں، چیف سیکریٹری کیوں نہیں لگایا گیا۔ جواب دیاکہ میں نے کبھی کسی بھی صاحب اقتدارشخص کی کاسہ لیسی نہیں کی۔ کبھی کسی بھی اہم آدمی سے یہ فرمائش نہیں کی کہ مجھے چیف سیکریٹری لگایا جائے۔ صاحب نے حد درجہ بلندقہقہہ لگایا۔ آج بتانا چاہتاہوں کہ چندسال پہلے تمہاری سفارش کی تھی ایک وزیراعظم سے۔ جواب پتہ کیا تھا۔ یہ حددرجہ آزاد افسر ہے۔

یہ ہمیں کبھی کاٹھی نہیں ڈالنے دیگا۔ ہاں، وزیراعظم کا سیکریٹری بھی بیٹھا ہواتھا۔ اس نے کہاکہ ڈاکٹر کو چیف سیکریٹری لگانا خطرے سے خالی نہیں، کیونکہ اس کے پاس اب قلم کا ہتھیاربھی ہے۔ دوتین اور برائیاں بھی کیں۔ کیونکہ تمہارا بھرپور اندازہ تھاکہ تم اگراہم پوسٹ پرجاؤگے تو چند دن بعدہی طاقتورحلقے ناراض ہوجائینگے۔ میرے لیے یہ خبرتھی۔ کیونکہ صاحب کوکبھی اپنی پوسٹنگ کا نہیں کہاتھا۔

تھوڑی دیربعد، صاحب مجھے لاؤنج میں لے گئے۔ لاؤنج کاپورافرش شیشے کابناہوا تھااوراس کے نیچے ہررنگ اورسائزکی مچھلیاں پانی میں تیررہی تھیں۔ صوفے اوردیگرسامان، شیشے پررکھاہواتھا۔ مچھلیاں شیشے کے نیچے خاموشی سے ایک دوسرے کاپیچھاکررہی تھیں۔ شیشے کے فرش کا خیال کس کاہے۔ سوال پرصاحب کہنے لگے، کہ یہ سب بہت شوق سے اٹلی سے منگوایاہے۔ یہ شیشہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ بہرحال میرے لیے یہ پہلا تجربہ تھا۔ سفیدبندرہمارے ساتھ ہی اندرآگیا تھا اور صوفے کے کونے میں بڑے آرام سے بیٹھاہواتھا۔ حکومت کا کیاہوگا۔ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔

یہ سیاسی افراتفری کس وجہ سے ہے۔ صاحب، میرے سوال سن کر خاموش ہوگئے۔ میزپررکھاہواایک کیلااُٹھایا اور بندر کو بڑے پیارسے نزدیک بلاکرکھلاناشروع کردیا۔ صاحب کی یہ حرکت حددرجہ ناگوارلگی۔ دوبارہ پوچھا، کہ ملک ڈوب رہاہے۔ ہرادارہ دوسرے کوکنٹرول کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ مہنگائی اس قدرزیادہ ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ دوائیاں، کھانے پینے کی عام چیزیں اتنی مہنگی ہوچکی ہیں کہ لوگ جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر حکمرانوں کو کوسنے دے رہے ہیں۔ لندن سے سابقہ وزیراعظم منظم تقاریر اور مہم چلارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن آگ بگولا نظر آرہے ہیں۔ ایسے لگتاہے کہ ملکی نظام ڈوب رہا ہے۔

صاحب نے میرے سوالات پرکوئی غورنہیں کیا۔ شیشے کے فرش کے نیچے تیرتی ہوئی مچھلیوں کوغورسے دیکھناشروع کردیا۔ اس میں ایک بہت بڑی سیاہ مائل مچھلی بھی تھی۔ کہنے لگے، ڈاکٹر، یہ بڑی مچھلی دیکھ رہے ہو۔ جل کرجواب دیا۔ اتنی بڑی مچھلی کس کونظرنہیں آئیگی۔ صاحب کہنے لگے۔ یہ ایک خاص طرزکی شارک ہے۔ تمام مچھلیوں سے تیز رفتار اور طاقتور۔ باقی تمام مچھلیاں اس کے رحم وکرم پرہیں۔ شارک، کب کس کو کھا جائے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ پرہم نے اسے روک رکھا ہے۔ وہ ایسے کہ ایک غیرملکی نوکر رکھا ہوا ہے۔

جوشارک کوبھوکا نہیں رہنے دیتا۔ اسے چوبیس گھنٹوں میں تین مرتبہ "مردہ مچھلیاں " کھلاتا ہے۔ شارک کاپیٹ بھرجاتاہے اورپھر میری پالتومچھلیوں کوکچھ نہیں کہتی۔ صاحب کی بات سن کرمجھے لگاکہ میری کسی بات پرتوجہ نہیں دے رہے۔ تندی سے کہاکہ صاحب، میراسوال کیاتھااوریہ آپ مجھے مچھلیوں کو پالنے پر لیکچر دے رہے ہیں۔ صاحب نے مسکرانا شروع کردیا۔ گھنٹی بجائی۔ باوردی نوکر اندر آگیا۔ حکم دیا کہ فارم ہاؤس کے چڑیاگھرکی لائٹیں جلادو۔ ڈاکٹر کوکچھ دکھانا ہے۔ صاحب کی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ خیر، ذاتی چڑیاگھرکی طرف دونوں چلے گئے۔

ایک انتہائی خوبصورت پنجرے میں دوبرفانی چیتے، بڑے آرام سے سورہے تھے۔ انتہائی دیدہ زیب نظارہ تھا۔ صاحب نے پنجرے کادروازہ کھولا اوراندرداخل ہوگئے۔ عجیب سالگاکہ برفانی چیتا تو حد درجہ خطرناک جانور ہے۔ انسان کی تکہ بوٹی کر ڈالتا ہے۔ صاحب، کہیں دیوانے تو نہیں ہوگئے۔ یاخودکشی کاارادہ تونہیں کر لیا۔ دونوں چیتوں نے صاحب کے ساتھ اٹھکیلیاں شروع کردیں۔ کوئی ان کے گال چاٹ رہاتھا۔ کوئی قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہاتھا۔ خطرناک چیتے، بالکل پالتو بلیوں کی طرح حرکتیں کررہے تھے۔ صاحب نے مجھے بھی پنجرے کے اندرآنے کااشارہ کیا۔ جھجک دیکھ کرکہنے لگے ڈاکٹر، یہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ مگرمیں اندرنہیں گیا۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد، صاحب پنجرے سے باہر آئے۔ پوچھا کہ اتنے خطرناک جانوروں سے آپ حددرجہ بے تکلفی سے کھیل رہے تھے۔

جانوربگڑ کر آپکو مار سکتا ہے۔ نقصان پہنچاسکتاہے۔ صاحب کاجواب وہی تھا جو شارک مچھلی کے متعلق تھا۔ ڈاکٹر، ان برفانی چیتوں کے لیے حددرجہ مستعدملازم رکھاہواہے۔ جوان کی بھوک سے بڑھ کر گوشت ڈالتاہے۔ یہ اتنازیادہ گوشت کھاہی نہیں سکتے۔ میں انھیں بھوک لگنے ہی نہیں دیتا۔ ان کے پیٹ ہروقت بھرے رہتے ہیں۔ چیتے کاپیٹ بھرجائے تووہ ایک پالتوبلی سے بڑھ کرکچھ نہیں ہوتا۔ یہ بڑے آرام سے اٹھکیلیاں کرتا ہے۔ ہاں اگر، ایک دودن انھیں گوشت نہ ملے توآگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ پھر جو بھی پنجرے کے اندرجائیگا، درندے اس کی تکہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ اسکو مار ڈالیں گے۔ اسی لیے درندوں کا پیٹ ہمیشہ بھرا رہنا چاہیے۔ پھروہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت کھوڈالتے ہیں۔ چالیس پچاس منٹ کے بعد، ہم دوبارہ لاؤنج میں بیٹھ گئے۔

میرے لیے، یہ باتیں بڑی مبہم اورغیرمتعلقہ سی تھیں۔ صاحب کوکہاکہ یہاں شارک مچھلی اور برفانی چیتے دیکھنے تونہیں آیاتھا۔ خیال تھاکہ اہم سیاسی اُمورپربات کرینگے۔ ڈولتی ہوئی ملکی معیشت پرکوئی نیا نکتہ سامنے آئے گا۔ ڈیڑھ دوکروڑمزیدلوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ ان کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں۔ اپوزیشن، غصے کے موڈمیں ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ حکومت کے خلاف کوئی عوامی تحریک چلنے کی تیاری ہورہی ہے۔ ریاستی اداروں پردباؤڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اتنے مہیب حالات ہیں اور آپ مجھے اپنے پالتو جانور اور مچھلیاں دکھا رہے ہیں۔

سفید بندر، صاحب کے کندھے پرچڑھ کر بیٹھ گیا۔ صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے کہاکہ تمہارے سارے سوالات کا جواب دے چکاہوں۔ برفانی چیتے اورشارک مچھلی دکھا چکاہوں۔ پتہ ہے، کیوں۔ یہ پالتو رہتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی بھوک مٹانے کامربوط نظام بنایا ہوا ہے۔ جس دن یہ بھوکے ہوئے توشارک تمام ساتھی مچھلیوں کوکھاجائیگی اوربرفانی چیتے، پنجرے میں آنے والے اپنے خیرخواہ کونیست ونابود کر دینگے۔ ڈاکٹر، پاکستان، بالکل ایک خوفناک جنگل ہے۔

یہاں مقتدرلوگ اورادارے عوام کے لیے بالکل شارک مچھلی اوربرفانی چیتوں کی طرح ہیں۔ جس دن یہ بھوکے رہ گئے، یہ نہ صرف ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ بلکہ ہرنحیف کی شامت لے آئیں گے۔ مقتدر طبقے کو وقت پربھوک سے بڑھ کر کھانا ملنا چاہیے۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکمران طبقے کا پیٹ ہی نہیں بھرتا اور نہ بھرے گا۔ اگربات سمجھ آگئی ہے توٹھیک ہے۔ ملاقات کے بعدباہر نکلا۔ توایک اتنااہم آدمی ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ جسکی تصویرصرف اور صرف، اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس سے آگے کچھ لکھنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ مجھے اس جنگل میں رہناہے اورمحفوظ رہناہے!