ہمارے خطے میں کیسی کیسی قدآور شخصیات ایستادہ ہوئی ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنا زمانہ بدل ڈالا بلکہ اپنے افکار اور شخصیت سے آنے والے وقت پر بھی بھرپور اثرانداز ہوئے۔ انھیں میں سے ایک دیوقامت شخص شورش کاشمیری بھی تھا۔ نڈر صحافی، کمال مقرر، مؤثر شاعر اور اپنے اندر ایک جہان لے کر زندہ رہنے والا زرخیز شخص۔ آج کے بونوں کے دور میں جب شورش کے کام پر نظر پڑتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ خدا، تو نے اب ہمیں اتنا بنجر کیونکر کر ڈالا ہے؟ شاید ہماری اجتماعی سزا ہے کہ کسی بھی شعبے میں بڑے آدمی پیدا ہونے موقوف ہو چکے ہیں۔ ہمارا ملک بالخصوص ایک ذہنی اور فکری لحاظ سے تپتا ہوا ریگستان بن چکا ہے۔
جہاں کوئی قد آور درخت نما شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ بلکہ اب تو سوچنا تک جرم بنا دیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، ہمارے حکمران طبقہ کا رویہ، برطانوی سامراج سے بھی بدتر رہا ہے۔ مگر ماضی میں انگریزوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والے سیاست دان بھی تھے، شاعر بھی تھے، صحافی بھی موجود تھے۔ بلکہ قربانیوں کا ایک سلسلہ تھا جو ہماری آزادی کا موجب بنا۔ اس سلسلہ کی ایک بڑی مضبوط کڑی جناب شورش کاشمیری بھی تھے۔
شورش کے متعلق مولانا ظفر علی خان فرماتے ہیں:
کیا حکومت نے چند دن کے لیے جو زنداں میں بند تجھ کو
تو شکر حق کر کہ راہِ حق میں پہنچ رہا ہے گزند تجھ کو
رئیس امروہی جیسا بلند پایہ شخص، شورش صاحب کی بابت لکھتا ہے:
بڑے آدمیوں میں بہت سی خوبیاں ایک ہی وقت میں جمع ہو جائیں تو انھیں مجموعہ صفات یا جامع الصفات کہا جاتا ہے، یہی خوبیاں جب کسی دوسرے آدمی میں آ جائیں اور اس کی شخصیت ذرا اختلافی ہو تو وہ مجموعہ اضداد کہلاتا ہے، میں نہیں کہہ سکتا کہ شورش کاشمیری کے بارے میں اس زمانے کے بزرجمہروں کی رائے کیا ہے لیکن ہم لوگ جو ان کے قریب رہے ہیں یا جنھیں انھیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، اس رائے کے حامل ہیں کہ خاص اختلافی شخصیت ہونے کے باوجود وہ جامع صفات اور مجموعہ اضداد ہیں۔
کسی اور ملک میں ہوتے یا اسی ملک کے بہترین دور میں ہوتے اور انھیں دوستوں کا ایک بے حسد حلقہ مل جاتا تو لازماً اس ملک میں ان کا طوطی بولتا، معاصرین انھیں آنکھوں پر بٹھاتے، دوستوں میں ڈنکا بجتا، دشمن بظاہر قدح بباطن مدح کرتے لیکن قدرت نے انھیں اس ملک اور زمانے میں پیدا کیا جس ملک میں دشمن کم ظرف اور دوست بے حوصلہ ہیں۔ کسی چیز کی بہتات ہے تو وہ حاسدوں کا گروہ ہے، علم کی کمی، ذوق کی محرومی، جہد کی نامرادی، ایثار کا فقدان، استقامت کی جانکنی اور رفاقت کی بے بصری نے اپاہجوں کی ایک جماعت پیدا کر دی ہے، جو اپنی محرومیوں کا انتقام دوسروں کی کامیابیوں سے لیتی اور اپنی خاکستر ہی میں سلگتی رہتی ہے۔
آگے لکھتے ہیں کہ وہ صحافت کے شہسوار ہیں، سید عبداللہ کے الفاظ میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خاں کے وارث اور تنہا وارث، بے شک ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کا تبحرعلمی نہیں، ابوالکلام خدا کی اس سرزمین پر مشہور محاورے کے مطابق قدرت کا عطیہ تھے، ان کے چراغ سے کئی شمعیں روشن ہوئیں۔ لیکن جہاں تک مولانا کی تحریر کے بانکپن کا تعلق ہے، وہ شورش کاشمیری میں اسی شکوہ کے ساتھ موجود ہے۔
وہ الفاظ کو عربی آیات کے سنگھار سے شہ بالا نہیں بناتے، بلکہ اردو کی دلفریبی سے دولہا بناتے ہیں۔ ان کے فقرے برجستہ اور پیرے شگفتہ ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر وتقریر پر مولانا کا بے پناہ اثر ہے، لیکن ان کا یہ اثر بعض پہلوؤں سے انفرادیت رکھتا ہے۔ وہ مولانا کو اپنا پیر ومرشد مانتے اور ان کی ذات سے والہانہ عشق رکھتے ہیں۔ انھیں مولانا اپنے دور کے سب سے بڑے آدمی نظر آتے ہیں لیکن یہ کہنا غلط ہوگا۔ جیسا کہ اس خیال کو شہرت ہوگئی ہے کہ وہ ادب وخطابت میں مولانا کا عکس ہیں، وہ مولانا کی طرح خطاب وصحافت میں رجز خوانی نہیں کرتے۔ وہ لڑائی باندھ کے چومکھی لڑتے ہیں۔
ان کی شاعری ہو یا نثر، قلم کا جوہر اس وقت کھلتا ہے جب وہ عماموں کے پیچ کھولتے ہیں اور قباؤں کے ٹانکے ادھیڑتے ہیں۔ وہ ایک بانکا پھکیت ہیں جنھیں بنوٹ لڑانے کا فن آتا ہے اور ان کا بنوٹ ان کا قلم ہے۔ ان کے قلم اور زبان میں عفو ودرگزر کا مادہ ہی ہیں، وہ تھوتھلا پاتے ان کے لیے لینا گویا ان کا فرض ہو جاتا ہے، پناہ بخدا، جو سامنے آیا چاروں شانے چت ہوگیا، جس نے سر اٹھایا، انا للہ ہوگیا۔ ان کے حریف اس طرح کانپتے ہیں جس طرح اندھیری رات کے سناٹے میں گنہگاروں کے دل کانپا کرتے ہیں۔
شورش کاشمیری کے ایک انٹرویو سے چند اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ وہ کتنا بلند پایہ انسان تھا:
ا، آپ کی تعلیم؟
ش- میری تعلیم مدرسہ کی حد تک میٹرک ہے، بہت چاہا کالج میں داخلہ لوں لیکن گھریلو حالات ایکاایکی اتنے خراب ہو گئے کہ معاشی درماندگی نے بہت سی آرزوؤں کی طرح اس آرزو کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ جتنا پڑھا، بہت کم لوگوں نے پڑھا ہوگا۔ میں اپنی جماعت میں سب سے ذہین طالب علم تھا، اردو فارسی کے ذوق کی پختگی وہاں سے لے کر آیا۔
انگریزی میٹرک تک پڑھی۔ پختہ جیل میں کیا۔ گو مجھے انگریزی میں بے لکائی بولنے کا محاورہ نہیں۔ لیکن انگریزی کے مزاج سے کماحقہ آشنا ہوں۔ کسی وقت کے بغیر انگریزی میں تاریخ، سیاست، سوانح عمری، سفرنامے اور تنقیدی مضامین پڑھ لیتا ہوں۔ قدرت نے رواں دواں ترجمے کی صلاحیت بھی دی ہے، میرے مطالعہ کا ایک ثلث انگریزی کتابوں سے ہے۔
ا، اس وقت عالم اسلام اور خود نفس اسلام کے مسائل کیا ہیں؟
ش، مسائل تو بہت سے ہیں، عالم اسلام کا فوری مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان ریاستوں کو ان کے خودغرض حکمرانوں سے نجات ملے۔ ان ریاستوں میں صحیح خطوط پر ایک اسلامی معاشرہ استوار ہو، اس غرض کے لیے ایک طویل جدوجہد درکار ہے، موجودہ نسل ختم ہوگی تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوگا۔ کیونکہ موجودہ نسل اسلام کا اقرار نہیں اظہار کرتی ہے، اس کا وجود اس کی نفی کرتا ہے۔ نفس اسلام یعنی اسلام کا بول بالا صرف اسی صورت میں ہوگا کہ موجودہ تہذیب وسیاست کی مادی قدروں کو کچل دیا جائے۔
خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کی احیاء استحصال کی بدترین شکل یعنی جاگیرداری نظام کی خونخواری کا قیام تھا، یہ نظام مدتوں چلتا رہا۔ جس سے اسلام کو تہذیبی اور تمدنی طور پر ضرور وسعت وتنوع حاصل ہوئے۔ لیکن روح اسلام تدریجاً مفقود ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ اصل اسلام کی جگہ ان فتنوں نے لے لی جو اسلام کے نام پر حکمرانوں کی جماعت نے برپا کیے، آخر یہ نظام یورپ کے صنعتی انقلاب کے ہاتھوں مفتوح ہوا تو بالواسطہ اور بلاواسطہ غلامی آ گئی۔
ا، کیا آپ اس وقت پاکستانی ادب میں خلا محسوس نہیں کرتے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے شاعروں، ادیبوں، افسانہ نویسوں اور قلمکاروں نے معاشرے سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے، آخر اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا، مصلحت کار ہو گئے ہیں؟ ان کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں، ان کے قلم مہربہ لب ہیں یا انھوں نے قصر حکومت میں اپنی بولی چکا لی ہے؟
ش، یہ ایک زبردست حادثہ اور ایک عظیم سانحہ ہے کہ پاکستان کے ان نازک ترین ایام میں قلم کاروں کی جماعت ادب سے لے کر صحافت تک اور تاریخ سے لے کر دین تک (دوچار دیوانوں سے قطع نظر) سپرانداز ہوگئی ہے بالخصوص ادباء شعراء کی وہ جماعت جس نے کبھی ترقی پسند مصنّفین کا زناری ہونا پسند کیا تھا اور جو اپنے سوا ہر ادیب وشاعر کو رجعت پسند یا مفاہمت پسند گردانتے تھے وہ اس طرح چپ سادھ کے بیٹھے ہیں گویا ان کے ضمیر کو خلش ہی نہیں ہوتی۔