1970سے لے کر1971تک کاعرصہ پاکستان میں بہت کم زیرِبحث آتاہے۔ قومی ہزیمت کے یہ ڈیڑھ سے دوبرس ہمارے لیے ہرطرح سے قیامت تھے۔ مگر اسے مکمل طورپرفراموش کردیاگیاہے۔
چندبرس پہلے امریکا نے ساؤتھ ایسٹ ایشیاء اوربالخصوص اس پورے دورانیہ کے خفیہ دستاویزات جاری کیے ہیں۔ ان میں تفصیل سے یحیٰی خان، اندراگاندھی، امریکی صدر رچرڈنکسن اوروزیرخارجہ ہنری کیسنجرکے پیغامات، تقاریر، خفیہ میٹنگز، درپردہ سفارت کاری، ہرنکتہ انتہائی تفصیل سے درج ہے۔
اسے "نکسن پیپرز"کانام بھی دیاجاتا ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی لکھاری ان اہم ترین انکشافات کے متعلق بات نہیں کرتا۔ میراآج کا موضوع "نکسن پیپرز"نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب کچھ کسی اورزاویہ سے گزارش کررہاہوں۔ امریکی صدر کو 1971میں بتایا گیاکہ اندراگاندھی نہ صرف پاکستان کو توڑنا چاہتی ہے بلکہ خصوصاً مغربی پاکستان کی سالمیت کے درپے بھی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ملحقہ آزادکشمیربھی اس کی دسترس میں ہے۔
اورہاں، اندراگاندھی کے عزائم کو روکنے کے لیے پاکستان کے پاس حددرجہ معمولی صلاحیت ہے۔ تفصیل کونظراندازکرتے ہوئے عرض ہے کہ رچرڈنکسن اپنی تمام میٹنگزمیں واحدشخص ہوتاتھا، جوہرقیمت پر مغربی پاکستان کو بچانا چاہتا تھا۔ ہنری کیسنجراورتمام امریکی ادارے نکسن کی سوچ کے اَزحدخلاف تھے۔ یہ تمام اہم ترین باتیں بروس ریڈل(Bruce Riedel)کی کتابAvoiding Armegeddonمیں بھی انتہائی باریکی سے موجود ہیں۔
نکسن مغربی پاکستان کی سالمیت کو ناگزیرقراردیتے ہوئے اندراگاندھی کے متعلق شدید تحفظات کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ اندراگاندھی کو "سٹھیائی ہوئی بڑھیا"کے نام سے پکارتاتھا۔ رچرڈنکسن کے حددرجہ دباؤ کی بدولت، اندرا گاندھی نے پیغام بھجوایاکہ مغربی پاکستان کونقصان نہیں پہنچائے گی۔ مگرنکسن، اس پر اعتبارکرنے کے لیے تیارنہیں تھا۔ چنانچہ ہندوستان کے قریبی ترین دوست ملک، روس نے بھارتی وزیراعظم کے متعلق گارنٹی دی کہ مغربی پاکستان کوختم نہیں کیا جائیگا۔
معاملہ صرف اور صرف مشرقی پاکستان تک ہی محدود رہیگا۔ اگران معروضات پراعتبارنہیں ہے تونکسن پیپرز اور مندرجہ بالا کتاب کوخودپڑھ کردیکھ لیجیے۔ آج ہم جس پاکستان میں سانس لے رہے ہیں اسکوبرقراررکھنے میں امریکی صدرنے کلیدی کرداراداکیاتھا۔ مگرہم ہراہم ترین بات کی طرح یہ سچ بھی فراموش کرچکے ہیں۔
پاکستان کے دولخت ہونے کاردِعمل تویہ ہوناچاہیے تھا کہ سانحہ کے بعدہم اپنے تمام نظام اوراقدامات کا تنقیدی جائزہ لیتے۔ اپنی سوچ میں جوہری تبدیلی لاتے۔ دوررس فیصلے کرتے۔ پاکستان کی فلاح وبہبودکے لیے انقلابی منصوبہ بندی کرتے۔ دس بیس سال کی بھرپورمحنت سے پاکستان کودنیاکی ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں شامل کروالیتے۔ مگرہماری مسلسل بدقسمتی کی بدولت، ایسا کچھ بھی نہیں ہوااورنہ اس مثبت طرف جانے کاکوئی چلن ہے۔
جو کچھ تیس پنتیس برس سے قومی تھیٹرپرہورہاہے، وہ 1947 سے اب تک ایک ہی ڈگرسے جاری وساری ہے۔ کشیدشدہ سچ یہ ہے کہ ہمارے نناوے فیصدلوگوں کوسچ اور حقیقت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اپنے ہی ملک سے اتنی بے اعتناعی کم ازکم اس جدیددورمیں طالبعلم کوکہیں بھی نظرنہیں آتی۔ ایسے لگتاہے کہ ہمیں دنیاکی ہر ضروری، غیرضروری اورحددرجہ فضول چیزمیں دلچسپی ہے۔ اگرنہیں ہے تواپنے ملک سے عملی لگاؤنہیں ہے۔ لفظی ترانوں، اعلانات، پیغامات اورجذباتیت کی بات نہیں کررہا۔ لفاظی میں تو شاید ہی کوئی قوم ہم سے بازی لے سکے۔
کیونکہ ہم ہیں، جملوں کے بازی گر۔ اپنے ملک کوعملی طورپرآگے لیجانے کی ہمت، استطاعت اورسوچ کا ہم سے دور کا لینا دینا نہیں ہے۔ ان تمام خیالات کے اظہارکی وجہ گزشتہ چندبرسوں سے ہماری انتہائی سطحی ترجیہات کافروغ پانا ہے۔ قومی بزرجمہراس وقت گلا پھاڑ پھاڑکراس خطے میں ایک نئی "ملکی صف بندی" کا بیانیہ عام لوگوں کورَٹارہے ہیں۔ فرمان ہے، پاکستان، ایران، ترکی، ملائیشیااورچین ایک نئے اتحادی کی صورت سے اُبھررہے ہیں۔
کچھ لوگ اس گروپ میں روس کوبھی شامل کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان، امریکا اور اسرائیل میں ایک نیااتحادقائم ہورہاہے۔ پاکستان کی مجموعی فضامیں ایک ایساجذباتی ماحول قائم کیاجارہاہے جس میں وضاحت سے کہاجارہاہے کہ اب کچھ ہی سالوں میں ہم لوگ، اس نئی گروہ بندی سے بیت المقدس تک پہنچ جائینگے۔
اسلامی ممالک کی قیادت کی نئی دستاربھی تیار ہے۔ پاکستان اس کے لیے تیارہے۔ مبالغہ آرائی کی حدیہ ہے کہ قومی سطح پر ہمیں یہ بیانیہ بیچاجارہاہے کہ ہماراملک توپیداہی اسلامی دنیاکی لیڈری کے لیے ہے۔ بس تھوڑاسا انتظار کیجیے۔ امریکی صدر، ہندوستانی وزیراعظم اور اسرائیلی قیادت گھٹنوں کے بل ہمارے سامنے ہاتھ جوڑکرکھڑی ہوگی کہ حضور، دنیاتوآپکے قدموں تلے روندی جاچکی ہے۔ بس ایک مہربانی کیجیے۔ ہمارے جیسے کمزورملکوں کا خیال کرلیجیے گا۔ یہ سب کچھ حددرجہ خطرناک خواب ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اکثریت اس پریقین کر چکی ہے یا کرنا چاہتی ہے۔ اس کی ایک اوربہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی جان کوخطرے میں ڈال کرسچ بتانے، لکھنے اور کہنے کوتیارنہیں ہے۔ ہاں، جولوگ اس خواب کوفروخت کر رہے ہیں وہ خوب مزے میں ہیں اورحددرجہ پیسہ کمارہے ہیں۔
ترکی سے شروع کرلیجیے۔ پاکستان میں ترک صدرکومسلمانوں کی فلاح کاایک دیومالائی نمایندہ بنادیا گیاہے۔ بیانات کی حدتک تویہ مفروضہ درست نظر آتا ہے۔ برمامیں مسلمانوں پرظلم ہو، توانکی آوازسنائی دیتی ہے۔ ترکی، یواے ای کی بھرپورمذمت کرتاہے کہ اس نے اسرائیل سے روابط قائم کرکے غداری کاثبوت دیا ہے۔ مگرترکی کے اسرائیل کے ساتھ بہترین سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ترکی اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کرلیتا۔ مگرصاحبان! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیوں۔ اس لیے کہ زبانی جمع خرچ اپنی جگہ، مگرعملی طورپرترک قیادت سب سے پہلے اپنے ملک کے مفادات کی ضامن ہے۔
اوریہیں سے ہمارا اور انکا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ ہم اپنے قومی مفادکوجوتے کی نوک پررکھتے ہوئے ہر بین الاقوامی تنازع میں کودنااپنی شان سمجھتے ہیں۔ مگر ترکی تمام دیگرممالک کی طرح اپنے مفادات کااسیر ہے۔ جوکہ ایک راست قدم ہے۔ ملائیشیا کا ذکر کرنابھی ضروری ہے۔ ملائیشیامیں ہمارا اتحاد مہاتیرکے ساتھ تھا۔ اپنے ملک کاعظیم قائد۔ لیکن اسے تو وہاں کی عوام نے وزارت عظمیٰ سے نکال باہرکیا۔ کیاواقعی مہاتیر، پاکستان کے لیے سودمندثابت ہوسکتے ہیں۔
قطعاً نہیں۔ انھوں نے اپنے ملک کوترقی دی اورہمارے لیے صرف بیانات اور جملے بازی۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ کشمیردراصل مسئلہ تو ہمارا ہے۔ اسکوہم اورہمسایہ ملک کے علاوہ کوئی اورحل نہیں کرسکتا۔ مگراب ہم کوئی سنجیدہ بات سننے کوتیارہی نہیں ہیں۔ روس کے متعلق بات کی جاتی ہے۔ تھوڑی سی تحقیق کرکے دیکھیے۔ آج بھی روس کے تعلقات، ہندوستان سے حددرجہ خوشگوارہیں۔
آج بھی ان کے درمیان اَن گنت دفاعی، ثقافتی، تجارتی اورسماجی معاہدے موجود ہیں۔ روس2020میں ہمارے ملک کے لیے کتنا فائدہ مندہے۔ اس پردلیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ روس کاپاکستان سے ایک گلہ ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ہم نے سوویت یونین کوامریکا کے سہارے ختم کرنے میں کرداراداکیا۔ پھراس جنگ کواپنے ملک میں لے آئے۔ یہ آگ اب پاکستان کوبری طرح جھلسارہی ہے۔
چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہترہیں۔ مگر پاکستان میں کوئی یہ ذکرنہیں کرتاکہ ہندوستان اور چین میں چوراسی بلین ڈالرکی باہمی تجارت ہے۔ چین ایک تاجر ملک ہے اوروہ صرف اورصرف اپنے مفادات کے تحت کام کرتاہے۔ لاہورکی سب سے بڑی مارکیٹ، یعنی شاہ عالمی مارکیٹ میں چلے جائیں۔ پاکستان کے درمیانے درجہ کی مصنوعات کے کاروباری لوگوں سے بات کریں۔
وہ بتادینگے کہ چینی مصنوعات کی بدولت ان کے کاروبارٹھپ ہوکررہ چکے ہیں۔ اب وہ کچھ بھی نہیں بنارہے۔ صرف چینی مصنوعات بیچ رہے ہیں۔ ہم مکمل طورپرچین کی ایک کالونی بن چکے ہیں۔ جوچینی قیادت سے ہردم مراعات اورپیسے لینے کے لیے جدوجہدکرتے نظرآتے ہیں۔ ہاں، جس ملک نے1971میں عملی طور پر ہمیں تباہی سے بچایا۔ اس کے ہم سخت ناقد ہیں۔ پستہ قدبونے ہمیں سمجھاتے ہیں کہ امریکا سے منفی تعلقات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مگرسچ یہ ہے کہ امریکا کی دشمنی ہمیں توقع سے زیادہ مہنگی پڑسکتی ہے۔ خدارا، اپنے قومی مفادات کوسامنے رکھیں۔ شایدبہترفیصلے ہوپائیں۔ مگر یہاں پاکستان کے حق میں فیصلے کرنے والاکون ہے۔ ہم نے تو یروشیلم کوفتح کرنے سے پہلے اورکوئی کام نہیں کرنا؟ ہاں!ایک اہم ترین کام توفراموش ہی کردیا۔ سعودی عرب اورایران کی چودہ سوبرس سے جاری جنگ کو ختم کرواکرانکی صلح بھی کروانی ہے؟