ہنگامہ خیز مہینے کے بعد دو دن پہلے رات گئے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہر سنجیدہ انسان ملک کی خیر مانگ رہاتھا۔ میرے جیسا عام سا آدمی جس کا کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف کسی قسم کا کوئی رجحان نہیں ہے حد درجہ پرسکون رہا۔
وجہ صرف یہ کہ ملک کی ہر سیاسی جماعت، لسانی و طبقاتی گروہ، ریاستی ادارے، اکابرین اور سیاسی رہنما مکمل طور پر اپنے اصل وجود کے ساتھ سب کے سامنے واضح ہو گئے۔ سب کو پہچاننے میں آسانی ہو گئی۔
جذباتیت کی گرد سے باہر نکل کر سارے کردار کھل گئے۔ کجا ارباب سیاست اور مذہبی و سیاسی اکابر۔ سب کے مفادات بھی نظر آئے اور اس کی آخری لکیر بھی۔ عرض کرتا چلوں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر بات کرنا ہرگز ہرگز توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ ہاں مہذب حدود و قیود میں رہنا ضروری ہے۔ مگر جو تمام پس منظر کردار، اس تمام تماشے کے پیچھے تھے اور ہیں۔ وہ بھی کمال کر گئے۔
دس ماہ قبل سے معاملات کو دیکھیے اور ان کے منطقی انجام کی جانب غور فرمایئے۔ سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ کوئی نئی بات نہیں کر رہا۔ واقفان حال سب کچھ جانتے ہیں۔ ایک اینکر نے تقریباً چار ماہ پہلے کہا تھا کہ حکومت کے خلاف بیرون ملک میں ایک منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اورارباب اختیار اس سے واقف ہیں۔ ان کا بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کیا ان کے حد درجہ شائستہ رویے نے وہ تمام معلومات وقت پر لوگوں کے سامنے رکھیں جس طرح ہونا چاہیے تھا۔
بے شمار برقی پیغامات، فون کالز، بیرون ملک پاکستانیوں کے درد میں ڈوبے ہوئے نوحے، ہر دم موصول ہوتے رہتے ہیں۔ خلق خدا پریشان تھی اور آج بھی پرملال ہے۔ آسودگی تو صرف چند خاندانوں یا سیاست دانوں کے صحن میں اتری ہے۔ بھلا اس کا عام آدمی کی فلاح سے کیا واسطہ۔ بلکہ عرض کرنے دیجیے۔ اس پوری سیاسی بساط کی پاکستانی عوام سے کیاغرض ہے۔ ہر اخبار کے اندر قتل و غارت کے مہیب واقعات تواتر سے درج ہوتے ہیں۔
بیٹی نے باپ کو قتل کر ڈالا، شوہر نے بیوی کو مار ڈالا، ماں نے بچوں کو ذبح کر دیا۔ جائیداد کے جھگڑوں پر لواحقین کے ایک فریق کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس طرح کی پر تشدد وارداتیں اب ہمارے سماج کا عام سا حصہ ہیں۔ پڑھا، دیکھا اور بات کی اس کے بعد معاملہ ختم۔ مگر کیا آج تک کبھی نظام انصای نے عام آدمی کی ان دلخراش وارداتوں کے متعلق بات کی ہے یا کسی نے سووموٹو لیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کی باز پرس کی ہے۔
جواب عمومی طور پر نفی میں ہے۔ اس طرح کی خبریں بھی عام سامنے آتی ہیں کہ جب ایک ملزم یا مجرم کا کیس عدالتوں میں پیشی پر لگا، تو وہ تاخیر کی بدولت زندگی سے ہی ہاتھ دھو چکا تھا۔
کیا وہ انصاف کے لیے دو صدیوں پر محیط زندگی لے کر آتا۔ نہیں صاحب، اس عدالتی نظام میں کسی عام سے پاکستانی کو کبھی بروقت انصاف نہیں مل پایا۔ اگر تنقید سے پرکھیے تو یہ "اسٹیٹس کو" قائم رکھنے کا ایک طور ہے جس سے مسائل کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں۔ کیا چھٹی والے دن عام پاکستانی کے لیے فیصلوں کے دروازے کھلے ہیں۔ جناب حضرت ہرگز نہیں۔ خواص، خواص ہی ہوتے ہیں۔
سیاست دانوں کی جانب نظر اٹھا کر دیکھیے تو تکلیف ہوتی ہے۔ موجودہ وزیراعظم نے اقتدار میں آنے کی خاطر ہر ایک سے منت سماجت کی۔ مگر مسند شاہی پر بیٹھ کر من مانی کا وہ ریکارڈ قائم کیا کہ سارے ادارے اور لوگ گھبرا گئے۔ فروعی مسائل میں ایسے الجھے کہ امور مملکت پر گرفت صرف لفظوں کی حد تک ہی رہ گئی۔ ہر وہ شخص جس نے ان کی ہلکی سی بھی مدد کی تھی اسے تاک کر جاں بلب کیا۔ نیب کو افسروں کی پگڑی اچھالنے کے لیے ہر طور استعمال کیا۔
جھوٹے مقدمات قائم کیے۔ سند سے عرض کر کر دونگا کہ اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے ہر شخص کو تکلیف ضرور پہنچائی۔ اس کی جزوی سزا نہیں ملے گی اور اسی دور میں ضرور ملے گی۔ وزارت اعظمیٰ کی جگہ سے اس طرح نکلنا ہرگز ہرگز معمولی المیہ نہیں۔ یہ بنیادی طور پر حکمرانوں کے لیے خوفناک خواب ہوتا ہے جسے دیکھنے کی کوئی بھی آرزو نہیں کرتا۔ خان صاحب کو یہ دن دیکھنا پڑا ہے تو اس کی حد درجہ ٹھوس وجوہات ہیں۔ اب ان کے پاس خاصہ فارغ وقت ہو گا۔ شاید وہ اپنی کوتاہیوں پر نظر دوڑا سکیں۔ غلطیوں سے کچھ سیکھ سکیں۔ مگر اس کا امکان بہت کم ہے۔
اس لیے کہ نرگسیت کے سیلاب میں ڈوبا رہنے کی بدولت، صرف وہ خود ہی ٹھیک ہیں۔ باقی تمام لوگ غلط ہیں بلکہ تھوڑے تھوڑے غدار بھی ہیں۔ سیاسی جنگ کبھی بھی حق و باطل کا میدان نہیں ہوتا۔ اسمبلی میں غیر آئینی حکم دینے سے کوئی شیرشاہ سوری نہیں بن پاتا۔ محلوں میں رہ کر ریاست مدینہ کی بات کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ توہمات پرستی سے کبھی بھی کار خیر کا ڈول نہیں ڈلتا۔ مگر یہ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر ہوا۔
یہ تو خیر سب کے سامنے آ ہی گیا۔ مگر اپوزیشن بھی ہر طرح کے اخلاقی جواز سے عاری نظر آئی۔ وفاداری کی تبدیلی تو خیر برصغیر کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے ہی۔ مگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے پہلے یہ فرمانا کہ جناب اگر بیچ بچاؤ کا راستہ اختیار کیاگیا۔ کسی عدالتی حکم میں کوئی تصفیہ طلب بات ہوئی، تو فیصلہ نہیں مانا جائے گا۔ یہ چلن جمہوری نہیں ہے۔
سندھ میں اقتدار کے مالک، جناب زرداری صاحب کا یہ فرمانا کہ ہمارے حق میں فیصلے پر ایک لمحہ کی بھی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ بیان سب کے سامنے ہے۔ اور اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ پنجاب کے سرپنچ کی جذباتی کیفیت تو دیدنی تھی۔ عدالت میں یہ فرمانا کہ ملک کی خاطر، اسمبلی کو بحال کر دیں۔
یہ بات ایک عام آدمی کی تو ہو سکتی ہے مگر ایک "اسٹیٹس مین" کی گفتگو قرار نہیں دی جا سکتی۔ دراصل یہ پورا کھیل اس طرح رچایا گیا کہ پہلی سیاسی ٹیم اپنے آپ کو حقیقت میں مقتدر سمجھنے لگی۔ چنانچہ اب اقتدار سے محروم دوسرے فریق کو حق حکمرانی مل جائے گا۔ یہی کچھ جو ہمارے جیسے نیم مہذب ملکوں کا واجب دستور ہے۔ کس پر تنقید کی جائے۔ سچ بات بتانے سے ہر ایک گھبراتا ہے۔ ہاں ایک بات میں لکھنے سے چوک گیا۔
سندھ ہاؤس اور ایک بڑے ہوٹل کی دلفریب داستانوں پر بھی کسی نے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ پیسے کے لین دین کا کیونکہ معاملہ حد درجہ سنگین ہے۔ لہٰذا گیلے فرش پر چلنے کے بجائے، انگلی پکڑ کر پیاں پیاں چلا گیا۔ صدر کی طرف سے لوٹوں کی سزا والے ریفرنس کا بھی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ یہ تمام باتیں بین الاقوامی سطح پر کی جا رہی ہیں۔
آگے کیا ہو گا۔ اس پر بات کرنی ضروری ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد نیا الیکشن اب شاید نا ہو پائے جب تک نئے وزیراعظم اپنی پوری انتظامی ٹیم کو ہر جگہ لگا نہیں لیتے۔ اس وقت تک الیکشن کی بات تک نہیں ہو گی۔ اس لیے کہ وہ اس کام کے "گرو" ہمیشہ سے ہیں اور رہینگے۔ مفاہمت کا بادشاہ اور سب سے بھاری، اب مل کر کیا کھیل کھیلیں گے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جو دانشور اہل قلم، سیاسی اور غیر سیاسی لوگ، یہ فرما رہے ہیں کہ ملک میں اب سیاسی استحکام آ جائے گا۔ شاید ان کا قیاس درست نہ ہو۔ آنے والے وقت میں مزید عدم استحکام کا بول بالا ہو گا۔ ہاں جہاں تک عام آدمی کے استحصال کی بات ہے۔ اس میں تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریق مکمل طور پر ایک جیسے ہیں۔ یہ جان لیوا اسٹیٹس تو اب دوام حاصل کر چکا ہے۔