رئیل اسٹیٹ سیکٹر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ غور سے تجزیہ کیا جائے تو پورا ملک ہی پراپرٹی کے شعبہ کی بدولت چل رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سیکٹر کی مالیت تین سے چار سو بلین ڈالر ہے۔ یہ صرف ایک حددرجہ تحفظ پر مبنی قیافہ ہے۔
بعض ہوش مند لوگوں کے مطابق یہ آٹھ سو بلین ڈالر کے قریب ہے۔ پاکستان کا کوئی شعبہ منافع اور کاروبار میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ اس کے نزدیک تک نہیں پہنچ سکتا۔ امیر ترین لوگوں سے لے کر سفید پوش شہریوں کا مفاد اسی سے وابستہ ہے۔ سابقہ حکومت نے ہر حکمران کی طرح کچھ اچھے کام کیے اور کچھ ادنیٰ حرکتیں کرتے رہے۔ کسی گرو نے انھیں سمجھا دیا کہ جناب رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سہولتیں دیں، بینکوں سے عام آدمی کے لیے قرضہ لینے کو آسان کریں، سستے گھروں کے لیے سرمایہ کاری میں ریاستی سرپرستی کریں۔
اندازہ نہیں کہ یہ مشورہ کس نے دیا تھا۔ پھر خان صاحب نے اس شعبہ میں سرمایہ کاری کی حددرجہ حوصلہ افزائی کرنی شروع کر دی۔ اس سے عام لوگوں اور کاروباری طبقے نے خوب فائدہ اٹھایا۔ معیشت کا پہیہ بہتر طور پر چلنے لگا۔ جی ڈی پی میں اس شعبہ کا حصہ دو سے تین فیصد تک پہنچ گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لوگوں میں ذرا سی خوشحالی آ جائے تو ملک کا ہر سیکٹر پھلنے پھولنے لگتا ہے۔
گاڑیوں کی خرید وفروخت سے لے کر سیاحت تک، ہر سیکٹر پر ہریالی چھا جاتی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ صنعتی شعبہ یعنی مینوفیکچرنگ کے بغیر ترقی کا کوئی راستہ ہے۔ مگر پراپرٹی کا شعبہ پورے ملک کی ترقی کے لیے ایک انجن کی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ ذہین ممالک بلکہ ذہنی طور پر زرخیز لیڈر اپنے ملکوں میں اس شعبہ کو کلیدی حیثیت دیتے ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ملک صنعتی اور ملکی ترقی کی اوج ثریا پر چلے جاتے ہیں۔
دبئی میں مقیم ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دبئی کی ترقی کے متعلق حیرت انگیز باتیں بتائیں۔ موصوف چالیس برس پہلے لاہور سے دبئی چلے گئے تھے۔ شیخ زید بن سلطان جسے متحدہ عرب امارات کا "بابائے ملت" کہنا زیادہ مناسب ہے، ان کے دور کی ابتداء تھی۔
شیخ زید پاکستان سے بے حد متاثر تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے تو خیر مرید جیسے ہی تھے۔ بھٹو کراچی کو ایک بین الاقوامی سطح کا ایسا شہر بنانا چاہتے تھے جس میں بیرونی سیاحوں کے لیے ہر سہولت اور کشش موجود ہو۔ بھٹو صاحب ایک وسیع المشرب انسان تھے۔ جانتے تھے کہ کراچی میں ایسی صلاحیت موجود ہے کہ ایشیا کا بہترین اور مرکزی شہر بن سکتا ہے۔ اور ان کی سوچ بالکل درست تھی۔ بہرحال ہر ذہین لیڈر کی طرح وہ بھی ہمارے ملکی نظام کی سفاکی کے سامنے دم توڑ گئے۔ پھر کراچی جمود میں غرق ہو گیا۔ شیخ زید نے بھٹو کی کچھ باتیں پلے باندھ لیں۔
دبئی اس وقت ایک حددرجہ معمولی سا شہر تھا۔ کچے پکے مکان، ادنیٰ سڑکیں اور کمزور تجارت۔ شیخ زید نے اپنے ملک کو فکری اور اقتصادی طور پر کھولنا شروع کر دیا۔ مجھے اس شخص نے بتایا کہ شیخ زید ہر سال ایک پریڈ منعقد کرتے تھے جس میں انھیں سلامی دی جاتی تھی۔ اس میں عسکری دستے نہیں ہوتے تھے بلکہ رئیل اسٹیٹ میں کام آنے والی مشینیں، ٹرک، کرینیں، مکسر، بلڈوزر وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ وہ پاکستانی بذات خود شیخ زید کی اس پریڈ میں شامل تھا۔ شیخ زید نے رئیل اسیٹ میں کام کرنے والے کاروباری لوگوں کو محبت دی۔ ایک درمیانی سی گاڑی میں اپنے گھر سے نکل پڑتے تھے۔
جہاں تعمیراتی کام نظر آتا تھا وہاں رک کر مزدوروں اور دیگر لوگوں سے باتیں کرنی شروع کر دیتے تھے۔ ان کے مسائل پوچھتے تھے اور موقع پر احکامات جاری کرتے تھے۔ مجھے ملنے والا شخص آبدیدہ ہو کر کہنے لگا کہ صرف پانچ سے دس برس میں ہی شیخ نے دبئی کی شکل اور ہیئت بدل دی۔ بلند وبالا عمارات، ایئرپورٹ، بندرگاہیں اور جدید ترین سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ ہاں ایک اور بات، انھوں نے دبئی میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ہر مغربی سہولت مہیا کی۔ بارز، کیفے، کلب، ہوٹل اور سیاحوں کی بھرپور حفاظت، ریاست کی قیمتی ترین پالیسی بن گئی۔ صرف چالیس برس میں دبئی پوری دنیا کے لیے سرمایہ کاری کا مرکز بن گیا۔
مغربی ممالک سے لوگ وہاں نوکری کی تلاش میں آنے لگے۔ سیاحوں کی قطاریں لگ گئیں۔ تجارت ہر طور قیامت خیز ہو گئی۔ پورے دبئی بلکہ متحدہ امارات نے دنیا میں اہمیت حاصل کر لی۔ یہ معجزہ کس شعبے کی بدولت برپا ہوا، اس کا جواب صرف اور صرف تعمیراتی شعبہ ہی بنتا ہے۔ آپ کے شاید علم میں نہ ہو کہ دبئی میں تیل کی کسی قسم کی پیداوار نہیں ہے۔ ان کی مکمل ترقی رئیل اسٹیٹ سے شروع ہو کر اسی شعبہ میں ختم ہو جاتی ہے۔
آپ اپنے قائدین کو دیکھیے، سب کے گھر دبئی میں موجود ہیں۔ کیوں۔ ہاں، یاد رہے، ان کا سرمایہ بھی وہاں موجود ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر پارٹی کے سیاسی عمائدین، ہمارے تاجر اور امیر حضرات دبئی میں پراپرٹی خریدتے ہیں۔ کئی لوگوں نے تو اپنے اہل خانہ کو بھی وہاں منتقل کر رکھا ہے۔ ریاست نے وہاں ہر طور پر اپنی پالیسیوں کو تحفظ دے رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ آج ایک پالیسی ہے اور کل اس کے متضاد پروگرام شروع کر دیا جاتا ہے۔
دبئی سمیت ہر ترقی یافتہ ملک، تعمیراتی شعبے کو انتہائی محفوظ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کامیاب ممالک رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ایک لاڈلا بچہ بنا کر رکھتے ہیں اور ان کوششوں کی بدولت اپنی قوم میں جائز دولت کمانے کے رجحان کی سرپرستی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دبئی، نیویارک، لندن، میلبورن اس کرہ ارض کے صنعتی اور کاروباری مراکز بن جاتے ہیں۔
مگر ہمارے ملک میں ہر چیز الٹی ہے۔ کسی بھی حکومت کی بہترین پالیسی آنے والی حکومت ملک دشمن قرار دے دیتی ہے۔ اس میں ہر طرح کے کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ سابق حکومت کے منصوبوں میں کام کرنے والے سرکاری عمال کو جعلی احتساب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، گرفتاریاں کا ایک ایسا طوفان شروع ہوتا ہے کہ ہر سطح کے سرمایہ کار کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انھیں ملزم نہیں بلکہ مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ہر حکومت گزشتہ حکومت سے متضاد چلنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ ہاں، کرپشن کی جھوٹی سچی کہانیاں بھی قصداً پھیلائی جاتی ہیں۔ آپ نوے کی دہائی دیکھیں، نواز شریف کے موٹروے جیسے انقلابی پروگرام کو کس طرح پیپلزپارٹی نے برباد کرنے کی کوشش کی۔ موٹروے نے پورے ملک میں اقتصادی ترقی کی وہ جاگ لگائی کہ علاقے تبدیل ہونے شروع ہو گئے۔ موٹروے وہ سڑک بن گئی جس نے لوگوں کی معاشی حالت تبدیل کر کے رکھ دی۔ پر نہیں، اس کے بعد آنے والی حکومت نے اس منصوبہ میں سو خرابیاں تلاش کر لیں اور پھر نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کے اچھے منصوبوں کا بھرپور طور پر قلع قمع کیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ اب ذرا پچھلے چار سال کے دورانیے کو پرکھئے۔ خان صاحب نے ہر حکمران کی طرح بھرپور غلطیاں کیں جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑا مگر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ان کی حکومت نے بہترین طور پر توانا کیا۔ بینکوں سے قرض کی سہولت کو آسان کر دیا۔ ذاتی گھر بنانے کے خواب کو بھی جلا بخشی۔ پورے وثوق سے عرض کر سکتا ہوں کہ ملکی معیشت کو اس مثبت پالیسی سے بہت فائدہ ہوا۔
شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ معمولی سا گھر بنانے میں کم ازکم آٹھ سے دس خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ چالیس کے لگ بھگ صنعتوں میں اضافی کام شروع ہو جاتا ہے۔ اینٹ بنانے والے بھٹوں سے لے کر لوہا بنانے والے کارخانوں تک، کو بھرپور فائدہ شروع ہوتا ہے۔ یہ کہنا چاہوں گا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری سے کروڑوں لوگوں کے گھر کا چولہا بآسانی جلنا شروع ہو جاتا ہے۔ گزارش ہے کہ کراچی کے اسٹاک ایکسچینج کی لاہور کی بعض ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی کاروباری سرگرمی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ خود تجزیہ کر لیجیے۔ آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اسٹاک یا سٹے بازی سے کسی قسم کی کوئی ترقی وابستہ نہیں ہے۔
یہ دراصل جوئے کی ایک جدید قسم ہے۔ سارے معاملات کو سمجھنے کے باوجود موجودہ حکومت نے اس شعبہ میں ہر چیز اتنی مہنگی کر دی ہے کہ تعمیراتی صنعت دم توڑ رہی ہے۔ معلوم نہیں کہ ان لوگوں کو کنسٹرکشن انڈسٹری سے کیا دشمنی ہے، کہ یہ مکمل یکسوئی سے اسے برباد کرنے کا بھرپور جتن کر رہے ہیں۔ مگر انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر تعمیراتی شعبہ بیٹھ گیا تو موجودہ پوری سرکار معاشی بدحالی کی پاتال میں غرق ہو جائے گی۔ ابھی بھی وقت ہے، اس شعبے کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کریں۔ مگر میری یہ سنجیدہ بات کون سنے گا! بلکہ کیوں سنے گا۔