ہر انسان کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ یہ سچ اسے ورثے میں نہیں ملتا، زندگی کے رموز پر غور وفکرسے ملتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ایک شخص کا سچ دوسرے کے لیے بھی وہی معنی رکھتا ہو۔ بلکہ ہوسکتا ہے ایک انسان جو اپنے زاویہ سے سچ بیان کر رہا ہے، وہ ددوسرے کے لیے زہر قاتل بن جائے۔
صنعتی انقلاب، سائنس کی ترقی، تحقیق کی جستجو نے ایک ایسے ضابطہ ِزندگی کو جنم دیا ہے جسے اپنا کر ہراپنے انسان ذاتی سچ کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کے خیالات کا مخالف انسان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ فکری ارتقاء صرف مغرب کے چند ملکوں تک محدود ہو چکا ہے۔ شمالی امریکا بھی اس میں شامل ہے اور یہ ملک موجودہ دنیا کو ہر طریقے سے کنٹرول کر رہے ہیں۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا، ایشیا کے چند بے حیثیت ممالک کی کوئی توقیر نہیں ہے۔
حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ جس بھی ملک کے حکمران طبقے کو جدید ترقی کا راز معلوم ہو جاتا ہے، وہ اپنے ملک کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ تبدیلی آج تک مثبت نتائج ہی لے کر آئی ہے۔ لہٰذا بڑے آرام سے کہا جا سکتا ہے۔ کہ انسانو ں کا سچ اگر حکومت اور ریاست کے سچ کی طرح ہو جائے تو عام آدمی کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اسلامی دنیا کیونکہ سب سے زیادہ ذہنی مفلوج ہے، لہٰذا یہاں اس زاویہ سے بات کرنا حد درجہ ضروری ہے۔
دبئی تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے۔ اسلام وہاں بھی اتنا ہی مضبوط ہے جہاں کسی اور خطے میں۔ مگر وہاں کے حکمران طبقے نے چالیس برس پہلے جان لیا کہ ملک کی ترقی بلکہ عوام کی خوشحالی اس وقت تک نہیں ہو سکتی، جب تک جدید ترین نظام کو اپنا نا لیا جائے۔ انتہائی قلیل عرصے میں دبئی، پوری دنیا کا تجارتی مرکز بن گیا۔ ہر قوم کے افراد وہاں رزق کی تلاش میں منتقل ہو گئے۔ تیل کی دولت بہت پیچھے رہ گئی۔ یہ جدید ترین معجزہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے برپا ہوا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ اور بھی ہے۔
حکومت کی ناقابل تسخیر رٹ، فیصلہ سازی، فیصلوں پر فوری عملدرآمد، سرخ فیتے کا خاتمہ، ترقی کے لیے اسم اعظم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مذہبی منافرت، شدت پسندی، قتل و غارت، ریاست کی قوت کے سامنے سرنگوں ہیں بلکہ ریاست ایسے لوگوں، تنظیموں کو بے رحمی سے کچلنے میں دیر نہیں لگاتی۔ اس ریاستی رٹ کی وجہ سے ہی وہاں شراب خانہ بھی محفوظ ہے اور مساجد بھی۔ غیر ملکی سیاح بھی تفریح کے بھرپور دن گزار سکتے ہیں اور راسخ العقیدہ مسلمان بھی اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔
حکومت کی حد درجہ طاقتور گرفت کسی کو چوں تک نہیں کرنے دیتی۔ یہ اس وقت اسلامی دنیا کا ایک بہتر ماڈل ہے۔ اب آپ کی توجہ تیونس کی طرف لے کر جاتا ہوں۔ یہ بھی مسلمان ملک ہے۔ مگر شخصی حکومت اور کرپشن کی وجہ سے عام لوگوں پر ترقی اور جائز دولت کمانے کے تمام دروازے بند ہیں۔ وہاں سماج کو مغربی طرز پر کھول تو دیا گیا مگر حکمران شاہی حصار میں بند ہو گئے۔ ملکی وسائل پر صرف ایک خاندان اور اس کے خواریوں کا قبضہ ہو گیا۔ میں صدر زین العابدین اور ان کے خاندان کا ذکر کر رہا ہوں۔
صدر کی اہلیہ آئس کریم کھانے پیرس جایا کرتی تھیں۔ قیمتی ترین ملبوسات، ہیرے جواہرات، قیمتی ترین گاڑیاں، پرتعیش ہوائی جہاز اس خاندان کے اشارہ ابرو پر تیار رہتے تھے۔ پھر یہ امیر ترین اور حکمران خاندان عوامی غیظ و غضب کا شکار ہوا۔ صدر زین العابدین اور اس کا خاندان ملک سے فرار ہو گیا اور ملک آج تک مہاجرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ مسلمان ممالک میں گورننس کا دوسرا ماڈل ہے۔ ایسا نہیں کہ یو اے ای میں کرپشن نہیں ہوتی ہے مگر حکومت نے عوام کو اچھا روزگار، ترقی کے مواقعے اور اتنی سہولتیں دے رکھی ہیں کہ انھیں اب کسی دیگر چیز میں قطعاً دلچسپی نہیں ہے۔
آپ کے سامنے دو مسلم ممالک کی صورت حال رکھنے کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ ریاستوں کی ترقی کا کوئی ایک مخصوص فارمولانھیں ہے۔ کوئی ایک نصابی کتاب نہیں ہے جس کا سبق پڑھ کر ملک ترقی کر جائیں۔ ہر خطہ اپنے معروضی حالات اورکلچر کے مطابق آگے بڑھتا ہے یا پھر ثقافتی، لسانی اور شناخت کے ابہام کا شکار ہوکر ہماری طرح پاتال میں گر جاتا ہے۔ پاکستان میں کسی ایک حکومت نے بھی اپنے خطے کے موسم، زمین اور اس زمین کے باسیوں کے کلچر، ان کی عادات، ان کے روزگار کی اقسام، ان کی لوک داستانوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ انھیں اپنے کلچر، زمین اور ثقافت سے کاٹنے کی کوشش کی۔
ان پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد ترقی کا اپنا ایک علیحدہ ماڈل تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ جس میں اس کی مقامی روایات، عوامی فلاح اور بہبود کو ہر طریقے سے بڑھاوا دیا جاسکے۔ ذرا ٹھہریے۔ یہاں بنگلہ دیش کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ بنگلہ دیش آج ہر لحاظ سے موجود پاکستان سے بہتر اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت اور ریاستی اداروں نے حدد درجہ مشکل فیصلے کر ڈالے ہیں، جو ہم اپنے ملک میں سوچ تک نہیں سکتے۔ انھوں نے ملک کا آئین سیکولر طرز پر استوار کر ڈالا ہے۔ مذہب اور ریاست کو الگ کر دیا ہے۔ ہر بنگلہ دیشی کے قوانین بھی یکساں ہیں، تعلیمی نصاب بھی یکساں ہے اور ترقی کے مواقعے بھی یکساں ہیں، مذہبی منافرت اور شدت پسندی کو آہنی ہاتھ سے کچلا ہے۔
حالانہ بنگلہ دیش کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ مگر ریاست نے آئین کے مطابق دین اور شخصی حقوق کو الگ الگ کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ تمام تر خامیوں اور برائیوں کے بنگلہ دیشی معیشت ہم سے زیادہ ترقی کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش کا ماڈل ان کی حد تک کامیاب ہے۔ ان کے پاس کوئی جوہری طاقت نہیں مگر ان کی معاشی اور اقتصادی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد نے دنیا کو حیران ہے۔
مرکزی نکتہ وضاحت سے عرض کروں گا، کوئی بھی ملک، دوسرے کی ترقی کے ماڈل کو اپنا کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کوئی ایسا مجرد نسخہ ہے ہی نہیں جس کے ذریعے ہر ملک ایک جیسی ترقی کر سکے۔ مطلب یہ کہ ہر قوم کو اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنی ترقی کا فارمولا خود بنانا پڑتا ہے۔ ویت نام کا ماڈل، بنگلہ دیش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کینیڈا کا طرز ترقی، امریکا نہیں اپنا سکتا، ساوتھ کوریا کا ماڈل، ہمارے ملک میں کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب کونسا راستہ منتخب کیا جائے۔ پاکستان کیسے ترقی کی راہ پر روانی سے سفر کر سکتا ہے۔
کون سا ایسا نسخہ ہے جس سے ہماری عوام معاشی اور سماجی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ طالب علم کی نظر میں یہ حد درجہ سنجیدہ سوال ہے جس کا کوئی ایک درست جواب ممکن نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ ترقی کا ماڈل ترتیب نہیں دیا جا سکتا یا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم ترقی کر سکتے ہیں۔ مگر موجودہ صورت حال کو بغیر کسی تعصب سے پرکھنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت لسانی، مذہبی، سیاسی اور سماجی اختلافات کو ذاتیات کے تابع کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ ایک سیاست دان کو پسند کرتے ہیں تو دوسرے سیاست دان کے لیے آپ کے دل میں تحقیر کا جذبہ ہونا لازم ہو چکا ہے۔ یعنی ہم نے سیاسی اعتبار سے سماج میں دیواریں اور خندقیں چن دی ہیں۔ بالکل یہی حال دینی حلقوں میں ہے۔
ایک فرقہ، دوسرے فرقہ کو مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتا۔ کئی مساجد کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے فرقے کے لوگ نماز نہیں پڑ ھ سکتے۔ مگر عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ تمام فرقے، مسجد نبوی اور حرم شریف میں ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔ کسی کو دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سعودی عرب میں ریاست کی رٹ پوری قوت سے قائم ہے۔ کوئی سعودی شہری یا غیرملکی شہر ریاست وحکومت کی رٹ اور ہیبت کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ترقی کس ماڈل کو اپنانے سے ممکن ہو سکتی ہے۔
ریاستی ادارے خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ پارلیمنٹیرینز کا خیال ہے کہ وہ عام پاکستانی شہریوں کے مقابلے اعلیٰ ہیں۔ پورے نظام میں حکومتی رٹ وینٹی لیٹر پر پڑی نظر آتی ہے۔ ریاستی اداروں پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اب ایسے حالات میں کیا معاشی منصوبہ بندی کی جائے۔ ایک فریق کی بہترین بات، دوسرے کے لیے مذاق ہے۔ قرائن یہ کہ جب تک ہم اپنے نظام کو انسانی خون کا خراج پیش نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم عمل کی طاقت سے محروم رہیں گے، مگر پھر سوچتا ہوں کہ اگر خون بھی بیکار اور ضایع ہو گیا، پھر کیا ہو گا؟