Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Taraqqi Ke Ameen Kon Hain?

Taraqqi Ke Ameen Kon Hain?

بھگونت مان تقریباً پچاس برس کا ہے۔ حددرجہ غریب خاندان سے تعلق اور اوائل عمری سے روزی روٹی کی فکر میں مصروف انسان۔ اسکول اور کالج میں روزگار تلاش کرنے کا نایاب چلن اپنا لیا۔ ہر جگہ مزاحیہ پروگرام کرنے لگا۔

ہندوستان کی سیاست، معیشت، سماجی تفریق اس کے خاص موضوع تھے۔ حس مزاح اس قدر تیز تھی کہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ نے اسے گولڈ میڈل سے نوازا۔ دس برس ٹی وی پر ایک مزاحیہ شو پیش کرتا رہا۔ نام تھا "جگنوکہندا اے"۔ اس پروگرام میں اس کے ساتھ مشہور کامیڈین جگر جگی شامل تھا۔

ایک دہائی کے بعد یہ شراکت داری ختم ہوگئی۔ اس کے بعد بھگونت نے رانا رنبیر کے ساتھ مل کر ایک پر مزاح ٹی وی پروگرام ترتیب دیا۔ نام تھا۔ "جگنو مست مست اے" بھگونت اپنے مزاحیہ ڈراموں کو پوری دنیا میں لے کر گیا۔ کیا لندن، کیا نیویارک، کیا کینیڈا، ہرجگہ اس کی جگتیں اور حس مزاح کے چرچے تھے۔

اس کا ایک ڈرامہ Nolife with wife پوری دنیا میں پنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والوں نے کمال سراہا۔ بھگونت مان فلموں میں بھی کام کرتا رہا۔ "جگو حاضر ہے" اور "میں ماں پنجاب دی" اس کی مقبول ترین فلمیں تھیں۔ بھگونت سنگھ اچھے پیسے کما رہا تھا۔

یکدم ذہن میں خیال آیا کہ لوگوں کے چہروں پر کچھ وقت کے لیے جو خوشیاں لے کر آتا ہے وہ حد درجہ وقتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ بھگونت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ لوگوں کے لیے مستقل طور پر کیسے آسانیاں پیدا کرے۔ لوگ اسے صرف اور صرف ایک مسخرہ گردانتے تھے۔

یک دم سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے یقین تھا کہ سیاست وہ واحد میدان ہے جس میں محنت کر کے وہ عام آدمی کے چہرے پر مستقل طور پر مسکراہٹ لا سکتا ہے۔ ان کی زندگیوں میں مشکلات کم کر سکتا ہے۔

انھیں نہ ختم ہونے والی خوشیاں دے سکتا ہے۔ اس نے 2011میں پنجاب پیپلزپارٹی جائن کر لی۔ 2012 میں لہرا سے ایم پی اے کا الیکشن لڑا۔ مگر بری طرح ہار گیا۔ لوگ اس کی باتیں سن کر ہنس تو لیتے تھے مگر ووٹ نہیں دیتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ صرف اور صرف ایک بھانڈ تھا۔ ہنسانے والا۔ بھگونت سنگھ حد درجہ مضبوط قوت ارادی کا مالک تھا۔

اس نے سیاسی میدان میں مزید محنت کرنے کا عزم کر لیا۔ 2014 میں"عام آدمی پارٹی" میں شمولیت اختیار کر لی۔ آنے والے الیکشن میں اس کا مقابلہ یونین منسٹر سکھ دیوسنگھ سے تھا۔ بھگونت نے طاقتور وزیر کو دو لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے ہرا ڈالا۔ یہ اس کی سیاسی کامیابی کی ابتدا تھی۔ 2014 کی بات ہے۔

اس دن سے لے کر آج تک، بھگونت سنگھ کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ اس کی ذات اور پرانے پیشہ کو اجاگر کر کے ذلیل کیا گیا۔ مگر اس نے اپنا سیاسی سفر کامیابی سے جاری رکھا۔ 2022 میں دھوری کے علاقے سے تیسری بار لوک سبھا کا ممبر بن گیا۔

اسی برس، عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجری وال نے اسے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اروند اور بھگونت کی کوئی رشتہ داری، تعلق داری یا ذاتی دوستی نہیں ہے۔ وجہ صرف یہ کہ بھگونت مان اپنے پورے سیاسی کیریئر میں حد درجہ ایماندار انسان ہے۔

وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھگونت سنگھ مان نے پنجاب میں اصلاحات کا انقلاب برپا کر دیا۔ پہلے دن آئی جی کو بلایا اور پورے صوبے میں وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

وزراء اور ایم ایز سے تمام سیکیورٹی واپس لے لی۔ ذاتی سیکیورٹی بھی معدوم کر ڈالی۔ لوگوں کو بتایا کہ اس نے اہم ترین لوگوں کی سیکیورٹی ختم کر کے عام آدمی کی سیکیورٹی بڑھا ڈالی ہے۔ یہ نعرہ عام آدمی کے دل کی آواز تھی۔

اسی طرح بھگونت نے غریب آدمی کی بجلی اور پانی مفت کر دیا۔ تین سو یونٹ استعمال کرنے والے خاندان کے لیے بجلی کا کوئی بل نہیں آتا ہے۔ ایک حد درجہ مضبوط وزیر وجے منگلہ کے متعلق شکایت ملی کہ مختلف ٹھیکیداروں سے ایک پرسنٹ رشوت وصول کرتا ہے اور اسے "شکرانے" کا نام دیا گیا ہے۔ خفیہ تحقیقات کے بعد وجے کو نہ صرف برخاست کیا۔

بلکہ اسے جیل بھجوا دیا۔ صرف ایک برس میں بھگونت اپنے صوبے میں پچاس ہزار نوکریاں دے چکا ہے۔

اس حد درجہ کامیاب وزیراعلیٰ نے مختلف شہروں میں سرکاری بسیں چلانی شروع کر دیں۔ اور ان کا کرایہ پرائیویٹ بسوں سے آدھا کر دیا۔ اس قدم سے ٹرانسپورٹ سیکٹر میں مثبت تبدیلی آ گئی اور لوگوں کے لیے حد درجہ سہولت برپا ہوگئی۔ ایک مسخرے نے اپنے صوبے میں وزیراعلیٰ بن کر عام آدمی کی قسمت بدل دی۔

اپنے ملکی سیاسی اور سماجی نظام کی طرف دیکھتا ہوں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اہم ترین عہدے، ان لوگوں کے حوالے کر دیے جو حقیقت میں مسخرے تھے۔ غور کیجیے! ہمارا پورا نظام مکمل جعلی اور بدبو دار ہے۔

کسی قسم کے استثناء کے بغیر ہم، غیرسنجیدگی کی پاتال میں گرے ہوئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں ہے کہ موجودہ حالات اگر جاری رہے تو ہمارا فرسودہ نظام، ریاست کے حصے بخرے کر دے گا اور کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔

ماضی کو ابتدائی طور پر بطور سند لے لیجیے۔ پاکستان بنانے والے قائدین، مغربی درسگاہوں کی پیداوار تھے۔ ان کا رہن سہن، کھانے کے طور اطوار، لباس، عادات اور سوچ مغربی تھیں۔

علاقائی زبان تو دور کی بات، اردو نہیں بولتے تھے۔ تقریر تک انگریزی میں کرتے تھے۔ مگر دو چار سال بعد، ہمارے جعلی حکمرانوں نے، پرانے سیاسی ومعاشرتی کلچر کی جون ہی بدل ڈالی، ریاست اور معاشرے کو جعلی اور خودساختہ تاریخ اور روایات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور یہ حرکت کامیاب رہی۔ ملک نے اپنا سفر ایک لبرل، فلاحی مملکت کے طور پر شروع کیا تھا۔ مگر چند لوگوں نے ہمارا رُخ ہی تبدیل کردیا، اسے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بنا ڈالا۔

ماضی کو رہنے دیجیے۔ گزشتہ چالیس سال پر تدبر فرمائیے۔ جنرل ضیاء نے ہمارے سماج کا رخ ہی بدل ڈالا۔ ایک ایسی قیادت کوپروان چڑھایا جسے دولت اکٹھا کرنے کے سوا اور کچھ بھی روا نہیں تھا۔ یہ قیادت آج بھی توانا ہے اور حکمرانی کر رہی ہے۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملک مشکل معاشی حالات میں مبتلا ہے۔ مگرکیا یہ حقیقت صرف عوام کے لیے ہے؟ موجودہ حکمرانوں کا ایک فیصلہ بتائیے جس میں انھوں نے سادگی کو اپنا کر ثابت کیا ہو کہ سرکاری اخراجات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے اللے تللے آج بھی جاری ہیں۔

کیا حکمران سرکاری محل چھوڑ کر ایک کنال کے سرکاری گھر میں منتقل نہیں ہو سکتے؟ کیا وہ سرکاری جیٹ کے استعمال کو ترک کر کے، ٹرین یا بس پر سفر نہیں کر سکتے؟ کیا سرکاری مرسڈیز کار چھوڑ کر، ملک کی بنی ہوئی عام سی گاڑی میں سفر کرنا پسند نہیں فرما سکتے؟ کیا وہ اسلامی بلکہ انسانی روایات کو بروئے کار لاتے ہوئے، ملک کی مشکلات ختم کرنے کے لیے اپنا دھن، وطن کے لیے وقف نہیں کر سکتے؟ مگر نہیں۔ صاحبان، مشکل معاشی معاملات صرف اور صرف عام آدمی کے لیے ہیں۔

سیاسی ٹولہ تو سرکاری وسائل کو اس طرح کھا رہا ہے جیسے بکری، سبزہ کو ہڑپ کرتی ہے۔ صوبوں کی طرف آئیں۔ پنجاب کے عبوری وزیراعلیٰ کو جانتا ہوں۔ بھلے آدمی ہیں۔ مگر کیا واقعی وہ صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگانے پر یقین رکھتے ہیں؟ جواب سب کو معلوم ہے۔ عملی طور پر، مہربانوں نے پنجاب کو مسلم لیگ ن کے حوالے کر دیا ہے۔

اور کے پی کو فضل الرحمن صاحب کے۔ اب یہ تمام فریق بدلے لے رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین سے بھی اور عام آدمی سے بھی۔ دعویٰ سے عرض کرتا ہوں کہ آنے والے حالات کا بگاڑ آپ کے تصور سے بھی باہر ہوگا۔ ہمارے سیاسی قائدین لوگوں کا خون چوس کر اپنے چہروں کی لالی بڑھا رہے ہیں۔

اب تو ہر آدمی سب کچھ سمجھ چکا ہے۔ چالیس برس تک ملک کا اجاڑا کرنے والے خاندان اور ان کے حواری، آج فرماتے ہیں کہ ملک تو اس نے تباہ کیا جس نے صرف پونے چار برس حکومت کی۔

یعنی وہ چار دہائیوں کے اقتدار کو اپنا جائز حق تصور کرتے ہوئے، صرف اس انسان سے گھبرا رہے ہیں جو ان کے لیے سب سے بڑا سیاسی خطرہ ہے۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھیں تو معلوم ہو کہ خلق خدا ان سے کتنی نالاں ہے۔ عوامی غصہ کا اندازہ آنے والے الیکشن میں بخوبی ہو جائے گا۔ اسی لیے یہ الیکشن کے نام سے بھی دور بھاگتے ہیں۔

مگر انہونی ہو کر رہنی ہے۔ جلد یا بدیر، سچ سامنے ضرور آئیگا۔ اگر یہ معاملہ کشت و خون کے بغیر طے ہو جائے، تو شاید بہتر ہے۔ مگر پرامن طریقے سے شاید سیاسی تبدیلی اب ممکن نہیں رہی ہے۔ ذرا غور فرمائیے۔

بھگونت مان تو کامیڈین تھا۔ مگر وزیراعلیٰ بننے کے بعد اس نے اپنے پنجاب کو مثالی ترقی کی شاہراہ پر روانہ کر دیا۔ اور یہاں ہمارے روایتی سیاست دان ہیں جو دہائیوں سے ہمارا خون چوس رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم ترقی کے امین ہیں۔ انھیں کس نام سے پکارا جائے؟ فیصلہ فرمائیے۔ اصل مسخرے کون ہیں؟