Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Teen Mukhtalif Admi

Teen Mukhtalif Admi

کرنل صاحب کافی عرصے سے ریٹائرڈ زندگی گزاررہے ہیں۔ میرے والدصاحب کے پرانے دوست۔ ان کے خاندان سے ہمارادوپیڑھیوں کاتعلق ہے۔ انتہائی مذہبی، ایمانداراورمحبت کرنے والاانسان۔ لہجہ میں حددرجہ شائستگی موجودہے۔ دودن پہلے انھوں نے تفصیلی پیغام بھیجا۔ پھرفون پرطویل بات ہوئی۔

حددرجہ غمگین نظرآئے۔ آوازبھرائی ہوئی تھی۔ کہنے لگے کہ یہ ہمارے ملک کوکیسے چلایاجارہاہے؟ بربادی ہورہی ہے اورتیزی سے ناکام ریاست بنتے جارہے ہیں۔ انھیں عزت سے بھائی صاحب کہتاہوں۔ ان کی بات سمجھ نہیں پایا۔ کیونکہ یہ الفاظ تومیں کئی سالوں سے خوداستعمال کررہاہوں۔ رنجیدگی سے کہنے لگے کہ ہمارے موجودہ حکمران کس طرح عوام کی تکالیف میں اضافہ کررہے ہیں۔ پٹرول کی قیمت پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسکو بتدریج بڑھاناچاہیے تھا۔ یک دم، اتنابڑااضافہ بالکل غیرمناسب ہے۔ پہلی بارگلہ کیاکہ ہم نے اس ملک کو کس قدرمشکلات سے حاصل کیاتھا۔

جومہاجر، لٹ پٹ کر پاکستان آئے، ان کے گھروں میں اپنے پیاروں کی شہادتوں اوردنیاوی تکالیف کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ حددرجہ مشکلات صرف اس لیے برداشت کیں کہ اپنے ملک میں ایسی زندگی گزاریں گے۔ جس میں انصاف، ایمانداری اوراسلام کے فلاحی اُصول رواہونگے۔ کرنل صاحب نے باقاعدہ گریہ شروع کردیا۔

اس عظیم قربانی کاہمیں اورہماری اولادوں کویہ صلہ ملاکہ ہرطرف لوٹ مار، کرپشن، جعلسازی، غنڈہ گردی اوراستحصال ہے۔ مختلف حکمرانوں کے متعلق بات کرتے ہوئے کہاکہ مجھے سابقہ حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں تھی۔ میں نے توعمران خان کوووٹ دیاتھا۔ اپنے حلقے میں تحریک انصاف کے کسی ایم این اے یاایم پی اے کانام تک نہیں جانتا۔ تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ موجودہ وزیراعظم اس بری طرح ناکام ہوگا۔ بات ختم ہوگئی۔ کرنل صاحب کے متعلق صرف یہ عرض کرتاچلوں کہ کاروبارکرتے ہیں۔ صاحبِ ثروت ہیں اورانھیں بالکل کسی کوووٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کل رات، میرے ایک بیچ میٹ گھرآئے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ میں پوری عمرگزاردی۔ تین ملکوں میں پاکستان کے سفیررہے۔ بے تکلف دوستی ہے، تقریباًچونتیس برس سے۔ بیٹھتے ہی کہاکہ ہوابازی کے وزیرنے جتنانقصان صرف ایک تقریرسے پہنچادیا ہے، اس کافی الحال تعین نہیں کیاجاسکتا۔ دنیاکے ہرملک میں اس کی بازگشت ہے۔

انڈیانے وہ بیان اُٹھایااوراپنے سفیروں کے ذریعے دنیاکے ہراہم آدمی تک پہنچادیا۔ ہندوستان تواس وقت خوشی کے شادیانے بجارہاہے۔ ہونایہ چاہیے تھاکہ ہوابازی کاوزیر، پہلے ایک انکوائری کرواتا۔ اسکو انتہائی رازدارانہ طریقے سے منطقی انجام تک پہنچاتا۔ جو جوپائلٹ مشکوک ڈگری کامالک ہوتا، اسے نوکری سے نکالتا۔ مگراس سیاسی شخص نے اتنا غیر ذمے داری کاثبوت دیاکہ وائٹ ہاؤس تک اس کا ارتعاش محسوس ہوا۔ پاکستان کی ہرجگہ رسوائی ہوئی۔ نقصان اس قدرزیادہ ہوچکا ہے، کہ اب کوئی بھی شخص پی آئی اے پرسفرنہیں کریگا۔ تمام فضائی انڈسٹری میں پاکستانی پائلٹوں کے متعلق ایک شک ڈال دیاگیاہے۔

یہ شبہ ملک کے خلاف اتنابڑھاچڑھا کر بیان کیاگیاکہ ہمارے ہوابازاوردیگرعملہ تحقیرکی نظرسے دیکھے جارہے ہیں۔ ملکی مفادکے حساب سے طریقہ کار اختیارکرنا چاہیے تھاکہ ان جعلی یامشکوک ڈگریوں والے لوگوں کو سفاکانہ طریقہ سے نشانِ عبرت بنایاجاتا۔ مگر مکمل رازداری سے۔ اب، ایک تیسراواقعہ سنیے۔ میرے ایک دیرینہ دوست کرنسی کاقانونی کام کرتا ہے۔

زندگی میں اَزحدمحنت کرکے دولت کمائی اوراب ایک اچھی زندگی گزاررہاہے۔ دفترکوبیٹے کے حوالے کر دیا ہے۔ کل، ویسے ہی فون آیا۔ روایتاًپوچھ لیاکہ کاروبارکیساچل رہا ہے۔ وہ شخص پھٹ پڑا۔ زورسے کہنے لگاکہ تمام کاروبار چوپٹ ہوچکاہے۔ کاروباراورہمیں چور بنا دیا گیا ہے۔ آدھے سے زیادہ اسٹاف نکال دیاہے اوربس اب واجبی سادفتررہ چکاہے۔ آزردہ لہجے سے کہا، پوری زندگی ووٹ نہیں ڈالا۔ پہلی باراس الیکشن میں لائن میں لگا۔ پرچی بنوائی اورووٹ دیا۔ صرف اس لیے کہ عمران خان اچھا انسان ہے۔

یہ جن ملکی کمزوریوں کاذکرکررہاہے، وہ درست ہیں۔ یہ شخص ایمانداربھی ہے۔ ہونہ ہو، ملک کی تقدیربدل دیگا۔ مگرمعاملہ توبالکل اُلٹ نکلا۔ کاروبار تو خیررہاہی نہیں۔ پہلے کام جتنی رشوت دیکرکرواتے تھے، اب رشوت کاریٹ دگناہوچکاہے۔ ہرسرکاری ملازم کا موحنہ اتناکھل چکاہے کہ ہم جتنے مرضی پیسے دے دیں، ان کاپیٹ نہیں بھرتا۔ صاحبان!یہ تینوں واقعات سو فیصدجیسے ہوئے، آپکے سامنے رکھ دیے ہیں۔ ان تینوں کاآپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ایک فوج کااعلیٰ افسر، دوسرا سفیر اور تیسرا پختہ کاروباری شخص ہے۔ یہ ایک دوسرے کانام تک نہیں جانتے۔ پران کاموجودہ حالات پرتبصرہ حیرت انگیز طور پر یکساں ہے۔ تینوں موجودہ حکومت کوووٹ دیکر پچھتا رہے ہیں۔

ان لوگوں کاسیاست سے دوردورکاکوئی تعلق نہیں ہے۔ ان میں سے کسی نے الیکشن نہیں لڑنا۔ تینوں میں صرف ایک قدرمشترک ہے۔ تمام نے تحریک انصاف کوووٹ ڈالاتھااوراب اَزحدپریشان ہیں۔ تکلیف میں ہیں۔ علم نہیں کہ اسلام آبادمیں کیا ہو رہا ہے۔ پنجاب میں کیاچل رہاہے۔ اس لیے کہ دربارسے مکمل طورپرکنارہ کش ہوں۔ مگریہ بات بالکل درست ہے کہ عمران خان کے متعلق منفی عمومی رائے اجماع کی حیثیت اختیار کر رہی ہے۔ آوازِخلق ہے کہ وزیراعظم کااپنے وزراء پرکسی قسم کاکوئی کنٹرول نہیں، ہر وزیر آزاد ہے۔

جو چاہتا ہے، فرما دیتا ہے۔ جولوگ الیکشن کی دشوارترین چھلنی سے کشید ہوکر آئے ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ غیرمنتخب لوگ نظام پر چھاچکے ہیں۔ بلکہ باقاعدہ نوکری کررہے ہیں۔ جب یہ حکومت ختم ہوگی تواگلی حکومت میں نوکری شروع کر دینگے۔ وہ توصرف اپنے مفادکے تحت موجودہ نظام میں شامل ہیں۔ یہ جذبات اس وقت تقریباًہراس انسان کے ہیں، جس نے خان کوووٹ ڈالاہے۔ گزشتہ دو برسوں کے واقعات پرسنجیدگی سے غورکریں۔ مندرجہ بالابیانیہ کوتقویت ملتی ہے۔ چندہفتوں کے تازہ واقعات کو پرکھیں توتشویش بڑھ جاتی ہے۔

ایک وزیر نے ایک انٹرویو میں چھ ماہ کی ایسی مدت پیش کی، جس میں حکومت کی کارکردگی درست نہ ہوئی توسیاسی بساط الٹ سکتی ہے۔ اس انٹرویوپرکئی دانا لوگوں نے کہاکہ یہ وزیراعظم کی مرضی سے دیاگیاہے۔ ہوسکتاہے کہ درست بات ہو۔ مگرمجموعی طورپراس سے تحریک انصاف کی حکومتی ساکھ کوکافی نقصان پہنچا۔ بعدازاں، یہ کہناکہ انٹرویوکے کچھ حصوں کوسیاق وسباق سے ہٹ کرپیش کیاگیا۔ اس سے کسی قسم کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ اُلٹا، مزیدسیاسی نقصان ہوگیا۔

بالکل اسی طرح، ایک خاتون وزیرنے کوروناکے متعلق غیرذمے دارانہ باتیں کیں۔ سوشل میڈیاان کی تاویلوں سے بھرگیا۔ ہرطرف اس بیان سے منسلک لوگوں نے ایسے ایسے جملے تراش ڈالے کہ انسان پریشان ہوجاتا ہے۔ مگرکم ازکم طالبعلم نے یہ نہیں سنا، کہ اس خاتون وزیر نے کسی جگہ پریہ کہاہوکہ ان کی سائنسی معلومات بہت کم ہیں اوران سے غلطی ہوگئی ہے۔ علمی کوتاہی کوتسلیم کرنے سے اس وزیرکاقدحددرجہ بڑھناتھا، مگر ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

آگے چلیے۔ تیل کی قیمتوں کوبڑھانے کاجومرضی جوازدے دیں۔ مگرعام لوگوں کے ذہن میں یہ تاثرپختہ ترہوگیاکہ جب پٹرول کی قیمت کم کی گئی، تو نایاب ہوگیا۔ پٹرول پمپ پرلوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ عام آدمی پٹرول کے حصول کے لیے ذلیل وخوار ہوگیا۔ مگر جب قیمت بڑھائی گئی تواسی لمحہ حکم کونافذالعمل کر دیا گیا۔ تیل کی کمپنیوں نے بیٹھے بیٹھے اربوں روپیہ کمالیا۔ تاثر یہی ملاکہ دانستہ طورپرکمپنیوں کوبے جامنافع حاصل کرنے کی چھوٹ دی گئی۔ الزام لگنے شروع ہوگئے۔ جب اس اضافہ کے جوازکے لیے پریس کانفرنس ہوئی تو اس میں ایک تیل کمپنی کا مالک، وزیرپٹرولیم کے بالکل برابربیٹھاہواتھا۔

وہ بھی تاویلیں پیش کررہاتھاکہ اتنا اضافہ کیونکرکیاگیا۔ کسی نے اس سے یہ نہیں پوچھاکہ حضور، آپکی کمپنی نے اسی گنگامیں سے کتناجل حاصل کیا۔ کیاوزیراعظم کومعلوم نہیں ہواکہ وہ شخص جوخودتیل کے کاروبارمیں ایک ادنیٰ شہرت کاحامل ہے جو ہر حکومت کاحصہ رہاہے۔ جو الیکشن لڑناتودورکی بات، بلدیاتی کونسلرتک منتخب نہیں ہوسکتاہے۔ آخرکون سی مجبوری ہے کہ اس شخص کو، اپنے ہی مالیاتی مفادکی نگہبانی کے لیے تعینات کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے میڈیا نمائندوں، نے کافی کوشش کی کہ کسی طرح اس منفی تاثرکوزائل کیا جاسکے۔ مگروہ ناکام ہوگئے۔ قیاس یہی ہے کہ تیل کی کمپنیوں نے بھاری معاوضہ دیکراربابِ اختیارکو خرید لیا اوربس پھرہرطرف خاموشی چھاگئی۔

ایک اور ادارے پر تھوڑاساہاتھ ڈالاگیا تو ہوشربا معاہدے سامنے آئے۔ لگتایہی تھاکہ یہ لوگوں کی رگوں سے خون نچوڑرہے ہیں۔ انکوقرارواقعی سزاملے گی۔ مگر پھرایک دوست ملک کی تاویل کوسامنے رکھ کرمکمل مجرمانہ خاموشی اختیارکرلی گئی۔ اس میں جولوگ ملوث ہیں، وہی لوگ کھادکی قیمتوں کے ناجائزتعین میں پیش پیش ہیں۔

تحریک انصاف کاووٹراب مایوس اورپریشان ہے۔ ہرشعبہ میں غصہ اوربے بسی کادوردورہ ہے۔ جن تین مختلف آدمیوں کی مثال دی، ان میں صرف ایک اَمریکساں ہے۔ کہ انھوں نے پہلی بار، اس الیکشن میں تبدیلی کوووٹ ڈالاتھا۔ اب وہ تمام آنکھوں میں انگلیاں دے کرآنسوبہارہے ہیں۔ آیندہ الیکشن میں کیا ردِعمل ہوگااس کابھرپوراندازہ ہے۔ مگروزیراعظم کیا سوچ رہے ہیں۔ کس سے مشاورت کرتے ہیں۔ اسکا کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں۔ معلوم نہیں کہ وہ مشاورت کرتے بھی ہیں یانہیں!کچھ معلوم نہیں!