Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tik Ki Awaz

Tik Ki Awaz

چند ہفتے قبل، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر صاحبان کا ایک کھانا تھا۔ ایک سرجن ڈاکٹر دوست امریکا سے تقریباًتیس برس کے بعد پاکستان آیا تھا۔ ملکی حالات دیکھ کر بہت پریشان تھا۔

ہم اسے حوصلہ دے رہے تھے کہ کوئی بات نہیں۔ ہم جو پاکستان میں کسی نہ کسی مجبوری کے تحت رہ رہے ہیں، بری خبریں سننے کے عادی ہیں۔ محفل میں چند سرجن ایسے بھی موجود تھے جو عمران خان کو گولی لگنے کے بعد آپریشن تھیٹر میں موجود تھے۔

کئی ڈاکٹرزکے ذہن میں سوالات تھے کہ خان صاحب کو گولی لگی بھی تھی یا نہیں؟ کیونکہ ہمارے چند مہربانوں اور حکومتی وزراء نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خان فراڈ کر رہا ہے، عوام کے ذہن میں بھی تذبذب ڈالنے کی شعوری پالیسی اپنائی گئی۔

مگر جو باتیں ان غیر سیاسی ڈاکٹرز نے بتائیں، حیران کن تھے۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ خان صاحب زندہ کیسے بچ گئے؟ کیونکہ جس ماہرانہ انداز میں ایٹک کیا گیا، اس کے بعد زندہ بچنا ایک معجزہ ہے۔ ان ڈاکٹرز کے بقول خان صاحب کو چار گولیاں لگیں، دھاتی ٹکڑے جسم میں الگ موجودتھے۔

Femoral arteryجو جسم کے نچلے حصے کو خون مہیا کرتی ہے، ایک گولی، اس سے صرف ایک سینٹی میٹر دور لگی تھی، اگر اس شریان میں لگ جاتی تو پھر بچنے کی امید کم تھی۔ ان ڈاکٹرزکا کہنا یہ تھا، کہ انھوں نے ایسے حملے میں کسی کو زندہ بچتے نہیں دیکھا۔

آپریشن کی جزئیات بھی سن لیجیے۔ ہر آپریشن تھیٹر میں ایک لوہے کی چھوٹی سی پلیٹ ہوتی ہے۔ اسے kidney trey کہا جاتا ہے۔ سرجن، مریض کے جسم سے کوئی بھی دھات کی چیز نکال کر اس Trey میں دو چار انچ کی بلندی سے پھینکتا ہے۔

اس سے "ٹک" کی آواز آتی ہے۔ آپریشن تھیٹر میں موجود سب کے علم میں آ جاتا ہے کہ مریض کے جسم سے گولی یا دھات باہر نکالی جا چکی ہے۔ خان صاحب کو جب آپریشن تھیٹر لایا گیاتو طویل آپریشن میں ان کے جسم سے تین گولیاں سرجری سے نکالی گئیں۔

ڈاکٹرز نے تین بار "ٹک" کی آوازتھیٹر میں موجود تمام میڈیکل اسٹاف کو سنوائی۔ دھات کے دو ٹکڑے بھی جسم سے نکالے گئے۔

چوتھی گولی جسم میں چھوڑ دی گئی۔ کیونکہ اسے نکالنا ممکن نہیں تھا۔ خان صاحب کی ٹانگ کی ہڈی، گولی لگنے سے ٹوٹ چکی تھی۔ اس لیے ٹانگ کے نچلے حصے کو پلستر میں لپیٹا گیا۔ گولیوں کے زخم اور ان کی صفائی ستھرائی بالکل الگ تھی اور ہے۔

سرجن نے خان صاحب کو تین سے چار ماہ مکمل آرام کرنے کے لیے کہا۔ یہ تمام اقدامات سرجیکل نوٹس میں بھی لکھے گئے اور سرکاری میڈیکل رپورٹ میں بھی درج کیے گئے۔ حکومتی بیانیہ، کہ عمران خان کو کوئی گولی نہیں لگی، یا وہ زخمی نہیں ہوا، ڈاکٹر کے بقول غلط ہے بلکہ افسوسناک بھی ہے۔

ایک سرجن نے ایسی بات کہی کہ میں چونک گیا، اس نے بتایا کہ خان کی ہڈی تیزی سے دوبارہ جڑرہی ہے، خان قدرتی حصار کی حفاظت میں ہے۔ انگریزی میں یہ جملہ کہا، Khan has a aura around him۔ خیر یہ باتیں سن کر میں خاموش ہوگیاکیونکہ روحانی معاملات کو تھوڑا تھوڑا میں بھی جانتا ہوں۔

میرے ایک بیچ میٹ چوہدری صاحب، اکثر تشریف لاتے رہتے ہیں۔ رئیس آدمی ہیں لیکن تصوف کی طرف مائل ہیں۔ ایک برس سے بار بار دہرا رہے ہیں کہ خان پر قدرت مہربان ہے جو اسے ہر مشکل سے باہر نکال کربہترین مقام پر کھڑا کر دیتی ہے۔ مجھ سے یہ بات چوہدری صاحب کے علاوہ بھی تصوف سے دلچسپی رکھنے والے چند افراد نے کہی۔

پاکستان میں سیاست کا میدان غلاظت سے اٹا ہوا ہے، یہاں صرف جھوٹ کی عمل داری ہے لہٰذا سیاست میں روحانیت کا معاملہ عجیب لگتا ہے۔

جب عمران خان کے ساڑھے تین برس کے دور اقتدار کی مہیب غلطیوں پر نظر جاتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ عمران خان، سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری انسان ہے۔ وہ سیاست کا کھلاڑی ہے ہی نہیں لیکن دوسری جانب غور فرمائیے، وہ امیر افراد، جنھیں خان کی اے ٹی ایمز کہا جاتا تھا، گمان تھا کہ وہ اگر علیحدہ ہو گئے تو خان دھڑام سے زمین پر گر جائے گا۔ مگر ہوا، اس کے بالکل برعکس ہے۔

جن طاقتور لوگوں نے خان کو چھوڑا، وہ خود دربدر ہو گئے۔ بڑے بڑے جغادری، خان کے خلاف ہو چکے ہیں۔ مگر لوگوں کے اندر اس کی مقبولیت بدستور قائم ہے۔ توشہ خانہ کا معاملہ ہی لے لیں، ایک برس سے گھڑی چور، گھڑی چور کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔

عمران خان کو ایک بددیانت ثابت کیا جا رہا تھا لیکن جب توشہ خانہ کی دو دہائیوں کی تفصیل سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ خان کے خلاف بددیانتی کا طلبہ بجانے والے افراد کی اکثریت خود توشہ خانہ سے فیض یاب ہوئے ہیں۔

اہم ترین سیاسی لوگوں نے توشہ خانہ کو اس بے دردی سے لوٹا ہے کہ خدا کی پناہ۔ دکھ تو اس بات کا بھی ہوا ہے کہ قانون کے مطابق توشہ خانہ سے گاڑیاں نہیں خریدی جا سکتیں۔ اس کے باوجود ہمارے سابق وزراء اعظم، اور صدور نے قیمتی گاڑیاں تک ہتھیا لیں ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت ہے، ان کے اپنے دور حکومت میں، ان کے اپنے وزیراعظم کے ہوتے ہوئے، توشہ خانے میں خرابا دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے۔

عمران خان پر گھڑی چور کاالزام لگانے والے یک دم خاموش ہو چکے ہیں بلکہ ایک سابق وزیراعظم تو ٹی وی پر آ کر فرما رہے ہیں کہ توشہ خانہ سے انھوں نے گھڑیاں بالکل قانون کے مطابق خریدی ہیں۔ لہٰذا عمران خان پرگھڑی چور کا الزام کیوں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ قدرت اس کی مدد کر رہی ہے۔

الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں یا طویل عرصے کے لیے ملتوی کر دیے جاتے ہیں، اب یہ معاملہ قطعاً اہم نہیں رہا۔ اس وقت سیاسی میدان میں خان توانا ہو کر کھڑا ہے۔ مگر دل میں یہ وسوسہ تو آتا ہے، کہ خدا نخواستہ عمران خان کے علاوہ کوئی اہم سیاسی شخص، آپریشن تھیٹر میں چلا گیا تو پھرکیا ہوگا؟