Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Turup Ka Patta

Turup Ka Patta

ملکی حالات اتنے زیادہ خراب ہیں کہ ان کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ حد درجہ غیر متوقع نتائج، دور رس بھی ہو سکتے ہیں اور اقتدار کی بساط کو مستقل طور پر تبدیل کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔

قیامت یہ ہے کہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل مقتدر حلقے کے اختیار سے باہر نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ریاستی ادارے جن کا نام سن کر بڑے بڑے لوگوں کا پتا پانی ہو جاتا تھا۔ آج بہت حد تک بے اختیار نظر آ رہے ہیں۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقین ممکنہ حد تک دیوار سے لگ چکے ہیں۔ کسی کے پاس بھی کوئی آگے بڑھنے کا پرامن راستہ موجود نہیں ہے۔ اس طرح کی خوفناک صورتحال پہلی بار وقوع پذیر ہوئی ہے۔ دانا ترین لوگ بار بار سب کو بتا رہے ہیں کہ اب حالات کو ٹھیک کرنا کسی بھی ایک فریق کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مہربانوں کی گرفت ہر لحاظ سے کمزور ہو چکی ہے۔ کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ یہ 1970 کی دوسری قسط ہے۔

مگر طالب علم کا دلیل پرمبنی بیانیہ یہ ہے کہ آنے والے حالات پر اگر اسی موجودہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو لوگ 1970ء کے حالات کو بھول جائیں گے۔ قطعاً مایوسی کا شکار نہیں۔ نہ ہی کسی لابی کا حصہ ہوں مگر میری بدقسمتی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے خبر چل کر میرے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اکثر باتیں لکھ بھی نہیں سکتا۔ لکھ بھی دوں تو چھپ نہیں سکتیں۔

آج سے ٹھیک گیارہ بارہ ماہ پہلے ایک سیاسی نشست میں بات چیت جاری تھی۔ چند قریبی لوگ موجود تھے۔ زیادہ تر خان صاحب کے حامی تھے۔ باور کروا رہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت ہر طور پر محفوظ ہے۔ مہربان سو فیصد ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے۔ عمومی معاملات بھی خان صاحب کے حق میں تھے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ طالب علم نے گزارش کی تھی کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھ منسلک لوگ اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔

خان صاحب میں اتنی فراست نہیں کہ بین الاقوامی مقتدر حلقوں کے اشاروں کو سمجھ سکیں۔ حالات پلٹ سکتے ہیں اور خان صاحب کو اقتدار سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دیا جائے گا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے حد درجہ طنزیہ فقرے سننے کو ملے۔

یہاں تک کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف ہوں اور ذاتی عناد کی بنیاد پر غیر ذمے دارانہ باتیں کر رہا ہوں۔ اس وقت میرے پاس خبر بھی تھی اور دلیل بھی۔ خان صاحب کا دوستوں سے حد درجہ ادنیٰ رویہ، نچلی ترین سطح کے لوگوں کو اقتدار پر بٹھانے کی عادت اور قیامت خیز ضعیف الاعتقادی میرے تجزیے کی بنیاد تھے۔ مگر خبر بھی تھی کہ خان صاحب کے حالات اب خرابی کی جانب جا رہے ہیں۔

اگرایک سال پہلے الیکشن ہوتے تو تحریک انصاف کو حد درجہ ہزیمت اٹھانی پڑتی۔ بہرحال سال پہلے میری بات کسی نے بھی نہ مانی۔ چند دن پہلے اسی طرح کی ایک مجلس میں ایک پرانے دوست نے وہ تمام جملے دہرا دیے۔ جو میں نے ایک سال پہلے گزارش کیے تھے۔ اس لیے کہ وہ بھی پرانی محفل میں شامل تھے۔ مگر ان کا سوال تھا کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ طاقت کی بساط پر عمران خان کو شاہ مات ہونے والی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں اپنا سورس تو قطعاً بیان نہیں کر سکتا۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ ایک سال پہلے میری گزارشات درست ثابت ہوئیں۔

موجودہ حالات کی بابت لکھنا حد درجہ ضروری ہے سب سے پہلے تو یہ عرض کرونگا کہ مہربانوں کو اس طرح کے حالات میں الجھا دیا جائے گا، جن کی بدولت ان کی توجہ اصل معاملات تک پہنچ نہیں پائے گی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمسایوں سے محدود فرمائشی جنگ، ملک میں دہشت گردی کی طاقتور لہر یا کسی بڑے انسان کی غیر قدرتی دنیا سے واپسی۔ کچھ بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت مسند شاہی پر بیٹھے ہوئے خاندان کو کیا فائدہ ہوا۔ ان کے تمام کیس آئینی طریقے سے ختم کیے گئے۔ تحریک انصاف کی اصل طاقت تارکین وطن ہیں۔ ان کو حق رائے دہی سے محروم کیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی طاقتوں، حلقوں کی ہر بات مانی گئی۔ اب حد درجہ گہری بات عرض کر رہا ہوں۔ این آر او سیاست دانوں کو نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس کے بالکل متضاد، سیاسی لوگوں نے غیرسیاسی لوگوں کو پرامن راستہ فراہم کیا ہے۔

اہل علم سے مخاطب ہوں۔ میری اس بات کی توثیق لندن اور واشنگٹن کے طاقتور حلقوں کے بیانات سے ہو رہی ہے۔ یہ خوفناک حقیقت ابھی تحریک انصاف کی قیادت سمجھنے سے قاصر ہے۔ جان کی امان پاؤ تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ غیر ملکی حلقوں نے ڈنڈے کے زور پر بلاول بھٹو کو اگلے وزیراعظم کے طور پر نامزد کیاہے اور ان کی بات مانی گئی ہے۔ پینٹا گون کی تمام ملاقاتوں میں زرداری صاحب کے دست راست، جناب حسین حقانی کی موجودگی حد درجہ ذو معنی ہے۔ اشارے مل رہے ہیں۔ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے۔

کچھ عرصے بعد الیکٹیبلز کی کافی تعداد، زرداری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی ہے۔ تیس سے پنتیس ایسے سیاسی مضبوط لوگ جو جنوبی پنجاب میں حد درجہ طاقتور ہیں۔ بڑے آرام سے نئے پھلوں سے لدے درختوں پر ہجرت کرنے والے ہیں۔ دانے اور چوگے کا مکمل اہتمام کیا جا چکا ہے۔ اگر اب بھی یقین نہیں تو طاقت ور ترین ملک کے سفارت خانے میں آنے جانے والوں کی فہرست نکال لیجیے۔ آپ کو نام تک معلوم ہو جائیں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ان لوگوں کا نام کسی بھی فہرست میں نہ ہو۔

زمینی حقائق کیا ہیں۔ ہر ایک کے علم میں ہے۔ تحریک انصاف اس وقت عملی طور پر پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ مگر کیا مقتدر حلقے اس کی مقبولیت کو ووٹ کے ڈبے میں منتقل ہونے کی اجازت دیں گے۔ یہ وہ سوال ہے۔ جس پر اس وقت تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقین ایک دوسرے کو داؤ لگانے میں مصروف ہیں۔ جب پاکستان کے بڑے گھرمیں سیاسی فریق نے مہربانوں سے یہ سوال کیا کہ حضور سب باتیں ٹھیک ہیں۔ مگر جناب کے وعدوں کی کیا گارنٹی ہے۔ مطلب یہ کہ آپ پر کیوں اعتماد کیا جائے۔ آپ کا ضامن کون ہے۔ ملاقات کی تلخی بعد میں حدت میں بدل گئی۔

چند اہم گرفتاریوں اور نئے کیس بھی بننے شروع ہو گئے۔ شنید ہے کہ مشرق وسطی کے طاقتور ترین ولی عہد سے ضامن بننے کے لیے کہا گیا ہے۔ مستقبل کے سیاسی خاکہ کی بات کر رہا ہوں۔ اس پروہ رضا مند ہوئے ہیں یا نہیں۔ قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یہ ایک المناک سچ ہے کہ ہمارے ادارے اب ایک دوسرے سے حد درجہ بدگمان ہیں۔ کوئی بھی کسی پر، کسی طرح کا اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا سعودی عرب اب سیاسی طور پر حد درجہ اہم ہو چکا ہے۔ اندرون خانہ بہت کچھ چل رہا ہے۔ جسے نظر انداز کرنا حد درجہ تکلیف دہ ہے۔

خان صاحب کو بذریعہ کبوتر بتایا جا رہاہے کہ اچھے بچے بن جاؤ۔ دودھ پیو، ورزش کرو، مگر چاند کی طرف مت دیکھنا۔ اس وقت تک کہ حالات خان صاحب کے حد درجہ مخالف ہیں۔ مگر مہربان سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پنجاب کا مرد آہن، مرکز کی شعاعوں سے پگھل کر رہ جائے گا۔ غیر مؤثر اور بے بسی کی تصویر بن جائے گا۔ مہربان اس بات سے حددرجہ پریشان ہیں۔ اسی لیے لندن سے بڑے صاحب کے قریبی عزیز کو حکومت کی معاشی شہ رگ پر بٹھایا گیا ہے۔ مفتاح اسماعیل کا ڈومیسائل کیونکہ غلط ہے۔ اس لیے تمام حد درجہ مشکل کام ان سے کروا کرنمائشی گلی ڈنڈا کھیلنے پر لگا دیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں ممکنہ طاقت کا مرکز شاید وزیر اعظم کے دفتر سے باہر نکل چکا ہے۔ ہاں۔ نمائشی طور پر معاملہ جاری رہے گا۔ پریس کانفرنس، باتیں اور تقاریر میں یہی بتایا جائے گا کہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹو کون ہے۔ مگر جس کے ہاتھ میں خزانے کی چابی ہے۔ اصل طاقت اس کے پاس جا چکی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ان مہروں کی واپسی ہے کہ جو ان صاحب کے طفیلی ہیں۔ اس سے آگے کیا لکھوں۔

ٹھہر جایئے۔ ابھی ایک حد درجہ سنجیدہ مرحلہ باقی ہے۔ عوامی طاقت اگر ریاستی طاقت کو مات دے گئی تو کھیل کی ترتیب اور نتیجہ مکمل طور پر بدل جائے گا۔ خان صاحب کی لانگ مارچ اگر کامیاب ہو گئی تو پھر کیا ہو گا۔ اس پر ہر طریقے سے غور وفکر جاری ہے۔

ظاہر ہے، اس پراسس میں کوئی بھی سیاسی مسخرہ شامل نہیں ہے۔ فیصلے جہاں ہوتے ہیں۔ وہیں پر ہو رہے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ریاستی خاکی قوت کو لانگ مارچ میں لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یعنی ملک کی سب سے بڑی طاقت کو عوام کے مقابلے میں نہیں لایاجائے گا۔ حد درجہ مشکل صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔

سوال ہے کہ اگر چند لاکھ بندے بھی اسلام آباد آ گئے تو پھر ایک کمزور حکومت کو سہارا دیا جائے یا فارغ کر دیا جائے۔ الیکشن والی بات مانی جائے یا درگزر کر دی جائے۔ دو چار دن میں اس پر بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ مگر ترپ کا پتہ اب صرف اور صرف عوامی طاقت ہے۔ جو ظاہر ہے، عمران خان کے پاس ہے؟