کیون صرف ایک سال کاتھا۔ جنرل ضیاء الحق، سری لنکاکے دورے پرگئے۔ ایک برس کے معصوم جانورکوقطعاًاندازہ نہیں تھاکہ اس کے ساتھ آیندہ کیا ہونے والاہے۔ سری لنکا کی حکومت نے تحفہ میں پاکستانی صدرکودیا اس طرح ہاتھی کاچھوٹاسابچہ اسلام آبادپہنچ گیا۔ لوگ تسلیم نہیں کرتے ضیاء الحق آج بھی پاکستان میں حکومت کررہا ہے۔ سب اسی حکمران کے دسترخوان کے خوشہ چین ہیں۔
کیون اسلام آبادچڑیا گھر میں پہنچ گیا۔ اس کانام مرغزارہے۔ اس مرغزارمیں صرف جانوروں سے اچھے سلوک کی اَشدکمی ہے۔ سری لنکاہی سے 1991 میں مادہ ہاتھی"سہیلی"آئی۔ اسے ماحول پسندنہیں آیا اوروہ دنیاسے روٹھ کرچلی گئی۔ اب کیون اکیلارہ گیا۔ جس کمرے میں قیدرکھاجاتاتھاوہ کافی چھوٹاتھا۔ تنہائی میں کیون میں منفی تبدیلی آنی شروع ہوگئی۔ وہ اپنا سر زور زورسے ہلاتا رہتا تھا۔ مگر کسی نے اس کی بگڑتی حالت پرتوجہ نہیں دی۔
اسے زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ اگر کوئی نادان، سوال پوچھ لے تو اسے بھی پابہِ زنجیر کردیا جاتاہے۔ کیون کے ساتھ وہی سلوک کیاگیاجویہاں سکہ رائج الوقت ہے۔ اب کیون ساراسارادن کھڑا ہو کرگردن ہلاتارہتاتھا۔ آج سے چندبرس پہلے، کسی "غدار" اخباری نمایندے نے دنیا کو کیون کی حالت کے متعلق بتایااوراس کی تصاویربھی شایع کردیں۔ یہاں سے ایک نئی داستان شروع ہوتی ہے۔
چیر"Cher"نام کی امریکی سنگرکہیں سے وہ تصاویردیکھ لیتی ہے۔ چیر فی زمانہ امریکا کی ہردل عزیز سنگرہے۔ حددرجہ دولت منداورایک ایسے بہترسماج سے تعلق رکھنے والی عورت جسکی شخصیت کاایک رخ اگر موسیقی ہے تودوسرارخ، جانوروں سے شدید لگاؤ۔ چیر کو جب کیون کی اَبترصورتحال کاعلم ہواتو ہاتھی کوآزادکرنے کی اپیل کردی۔ آوازپوری دنیامیں سنی گئی۔ کیون اب پوری دنیاکامسئلہ بن چکاتھا۔
چندسال پہلے، پاکستان سے جانوروں سے محبت کرنے والے لوگوں نے حکومت کودرخواست دی، جس میں ہاتھی کی خراب صورتحال بتائی گئی تھی۔ مطالبہ صرف اورصرف کیون کی آزادی تھی۔ مگراسلام آبادمیں کیونکہ انسانوں کے حقوق کے متعلق سنجیدہ کام نہیں ہوتا۔ لہذارویہ وہی تھا، کہ یہ این جی اوزاورمغربی ایجنڈاسے متاثرلوگ ہیں۔ ہاتھی کو تو کبھی زنجیرنہیں لگائی گئی۔ اس کی حالت بالکل ٹھیک ہے۔ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کیاجارہا ہے۔
شکر ہے، کیون کوبرائے نام چڑیاگھرسے نکال کر، ڈی چوک میں کوڑے نہیں مارے گئے۔ بلکہ ایک وزیر صاحب نے فرمایاکہ کیونکہ ہاتھی بہت قیمتی جانور ہے۔ اسی لیے، این جی اوزمالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اسے فروخت کرناچاہتی ہیں۔ اس پورے عرصے میں کیون کی بے بسی بڑھتی چلی گئی۔ وہ تقریباًپاگل ہوگیا۔ دنیامیں کیون کے حق میں تحریک شروع ہوگئی۔ چیرنے ارباب اختیار سے التجاکی کہ معصوم جانورپرظلم بند کیا جائے اورزیادتی کے اس باب کوختم ہوناچاہیے۔ کسی نہ کسی طرح معاملہ عدالت میں چلاگیا۔
چیرکے شور مچانے پر، دنیامیں جانوروں کوتحفظ فراہم کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آگئے۔ پوری دنیامیں کیون کی تصاویرشایع ہونی شروع ہوگئیں۔ اسے کرہِ اَرض کاسب سے " اکیلے ہاتھی" کاخطاب دیا گیا۔ اب کیون ایک بین الاقوامی حیثیت کاحامل تھا۔
اسلام آبادکی ہائیکورٹ نے کچھ عرصہ پہلے ایک حددرجہ خوبصورت فیصلہ کیا۔ کیون کو آزاد کیا جائے اوراس کی فلاح وبہبودکے لیے کسی ایسی جگہ منتقل کیا جائے، جہاں وہ دیگرہاتھیوں کے ساتھ آرام سے رہ سکے۔ پوری دنیامیں اس فیصلے کی بازگشت سنائی دی مگرمسئلہ تو یہ تھاکہ سرکارکے پاس زہرکھانے کوپیسے نہیں ہیں تواس زندہ ہاتھی کو آزاداورمنتقل کرنے کے وسائل کون فراہم کریگا۔ یہ سوال حددرجہ اہم تھا۔
ایک اہم بات، جس دن کیون کوآزادکرنے کا فیصلہ ہوا۔ چیرنے روتے ہوئے سوشل میڈیاپراعلان کیاکہ یہ اس کی زندگی کاسب سے خوبصورت لمحہ ہے۔ اس نے حکومت پاکستان اورعدالتوں کاشکریہ اداکیا۔ کیون کی حالت بہترکرنے کے لیےFour Paws نامی ایک بین الاقوامی ادارہ میدان میں آگیا۔
ویانامیں موجودیہ این جی او، جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ اس کی ٹیم چندہفتے پہلے اسلام آبادآئی اورکیون کاطبی معائنہ شروع کردیا۔ یہاں سے مرثیہ گوئی کا ایک اَبترباب شروع ہوتاہے۔"کافرڈاکٹروں " نے کیون کے متعلق بتایاکہ اسے حددرجہ تلخ حالات میں رکھاگیاہے۔ پاؤں اورناخن، پکے فرش کی وجہ سے زخمی ہوچکے ہیں۔ صحت حددرجہ دگرگوں ہے اور ذہنی حالت بہت خراب ہے۔ اسے فوراًکسی بہترجگہ پرمنتقل ہوناچاہیے۔ ٹیم کے ساتھ ایک پاکستانی ڈاکٹر بھی منسلک تھا۔
اس نے کیون کو گانے سنانے شروع کردیے۔ ٹیم نے پوری جان لگا کر ہاتھی کی خدمت شروع کردی۔"کفار"کے اس علاج سے کیون بہترہونے لگا۔ چنددن پہلے، اسے سفرکے قابل قرار دیدیا گیا۔ انھی لوگوں کی محنت سے کیون کو کمبوڈیا منتقل کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ جس جگہ وہ جائیگا، وہاں اس کے ساتھی بھی موجودہیں۔
عدالت نے کیون کو کمبوڈیا منتقل کرنے کاحکم بھی دیدیا۔ کچھ دنوں میں کیون آزادی سے ایک ایسی جگہ منتقل ہوجائیگاجہاں وہ بڑے آرام سے دیگرہاتھیوں کے ساتھ گھوم پھرسکے گا۔ آرام سے بقیہ زندگی گزارے گا۔ علم نہیں کہ وہ کون سی زبان بول یاسن سکتاہے۔ اگراسے بولنے کاموقع دیاجائے تووہ کسی بھی فورم پرہمارے ملک میں جانوروں پررواظلم کے متعلق ضرور بات کریگا۔ الفاظ میں حددرجہ تلخی ہوگی۔ ہونی بھی چاہیے۔ اس لیے کہ کیون کے ساتھ حددرجہ ظلم روارکھاگیاہے۔ پریہاں کون محفوظ ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ نہ جانوراورنہ انسان۔
پاکستان میں جانوروں کے حقوق کیا ہیں۔ کیا واقعی انکاخیال رکھاجاتاہے۔ کیاکسی کوانکی عملی طور پر فکر ہے کہ نہیں۔ کیاجانوروں کے ساتھ ظلم کے خلاف بھرپور قوانین موجودہیں۔ یہ سب کچھ سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین میں انسانی تحفظ پر لفاظی موجود ہے۔ مگر جانوروں کے حقوق کے متعلق کچھ بھی درج نہیں ہے۔ یہ حددرجہ عجیب سی بات ہے۔ مگر یہاں تو کچھ بھی عجیب نہیں ہے۔
آئین میں انسانوں کے حقوق درج شدہ ضرورہیں۔ مگراس پرکوئی عمل نہیں کرتا۔ ملک میں انسانوں کے حقوق کوکوئی تحفظ نہیں ہے توجانوروں کے متعلق کیابات کرنی ہے۔ ویسے آئین میں اگرخدانخواستہ جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کربھی دی جاتی تو عملی زندگی پر تو کوئی فرق نہیں پڑناتھا۔ آئین پرعمل تو خیرہماری خصلت میں ہی نہیں ہے۔ آئین کورہنے دیجیے۔
جانوروں کے تحفظ کے قوانین بھی حددرجہ لاغر اور غیر موثر ہیں۔ انگریز دور میں شائدان پر کوئی عمل ہوتاہو۔ مگراب، جب کسی انسانی قانون پرعمل نہیں ہوتاتوجانوروں کے متعلق نحیف سے قوانین کی کیا حیثیت ہے۔ ویسے تقسیم کے کچھ عرصے تک، ہر شہر میں "کانجی خانے"ہواکرتے تھے۔ جہاں زخمی اور ظلم کے شکارجانوروں کو سرکارکی نگرانی میں رکھا جاتاتھا۔ یہ کانجی خانے اب کہیں نظرنہیں آتے۔
کچھ دکھائی دیتاہے تو پورے ملک میں جانوروں کے ساتھ ہیبت ناک زیادتی ہے۔ ہمیں فطرت کی ہر خوبصورت چیزسے ایک چڑہے۔ انسانوں اور جانوروں کوتکلیف پہنچاکرخوش ہوتے ہیں۔ اس کیفیت سے راحت کشیدکرتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جنھیں پرندے اورجانوروں سے لگاؤ ہے۔ ویسے میں ان بیوقوف لوگوں میں شامل ہوں۔
کیون کچھ عرصے میں ایک بہترملک میں منتقل کر دیاجائیگا۔ کمبوڈیامیں اپنے ہم نسل جانوروں کے ساتھ رہیگا۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی اسے یادنہیں رکھے گا۔ چندفرنگی ڈاکٹر، ایک بین الاقوامی سطح کی گائیکہ اور ہمارے معاشرہ کاایک مختصر سا حصہ، شائددیوانے ہیں کہ اس معاشرے میں ان بے زبانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
ان کے لیے ایک ہاتھی تک اہم ہے۔ کیون کویاد رکھنا چاہیے کیونکہ وہ دنیاکاغم زدہ ترین ہاتھی ہے۔ مگر یہاں توسب اپنے اپنے جہنم میں اکیلے زندہ ہیں۔ اُداس ہیں۔ مگرکچھ کہہ نہیں سکتے۔ شائد اس اُداس ہاتھی کی طرح ہم تمام لوگوں کوبھی فکری تابوت میں بند کرکے کسی بہترجگہ منتقل کردینا چاہیے۔ شائدہم بھی بہتر ہوجائیں؟