Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Urooj o Zawal

Urooj o Zawal

انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر کی آبادی آٹھ لاکھ کے قریب تھی، مگر سکھ مہاراجاؤں کے بے پناہ مظالم کی بدولت بقول بیرن چارلس (Baren Charles) صرف دو لاکھ رہ گئی تھی۔ سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا تھا۔

حد درجہ مجبوری میں ویری ناگ سے ایک بے آسرا کشمیری خاندان، لاہور منتقل ہوا۔ اس میں بارہ برس کا بچہ محمد سلطان بھی تھا۔ غربت اور مفلسی اس خاندان کے ساتھ کشمیر سے لاہور تک ساتھ ساتھ آئی۔ سلطان میں عجیب و غریب صلاحیتیں تھیں۔ اس نے بچپن میں صابن بنا کر بیچنا شروع کر دیا۔ ساتھ ساتھ اکھاڑے میں پہلوانوں کے داؤ پیچ بھی سیکھنے لگا۔ اس وقت مہاراجہ شیر سنگھ کی حکومت تھی۔

ایک دن مہاراجہ، کشتی دیکھنے آیا تو سطان اکھاڑے میں موجود تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے، سلطان نے ایک نامی گرامی پہلوان کو چت کر ڈالا۔ شیر سنگھ نوجوان کی جسمانی قوت دیکھ کر حیران ہوگیا۔ اسے ایک قیمتی گھوڑا بطور انعام دیا۔ سلطان، جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ نایاب کاروباری صلاحیت کا بھی مالک تھا۔

مہاراجہ کو درخواست کی کہ لاہور میں خالصہ سرکارجتنی بھی عمارتیں بناتی ہے اس میں کسی بھی غریب آدمی کو کام نہیں دیا جاتا۔ شیر سنگھ نے سلطان کو قلعے میں چونا لانے کا کام سونپ دیا۔ یہ وہ پہلا قدم تھا جس سے سلطان دولت کی بلندیوں تک پہنچ گیا۔ سلطان نے اس کام کے ساتھ ساتھ سرکاری عمارتیں بنانے کے ٹھیکے لینے شروع کر دیے۔

اندرون شہر میں دفاتر، حویلیاں بنانا اب سلطان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ دولت اس کی باندی بن گئی۔ 1846میں پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ سلطان نے فوری طور پر انگریزوں کے ساتھ راہ و رسم استوار کر لیے۔ انگریز افسروں کو خوش رکھنے کے لیے اندرون شہر، اپنی حویلی کے اندر ایک شیش محل بنوایا۔ جہاں دنیا کی ہر عیش و عشرت کا سامان باہم موجود تھا۔ کامیاب کاروباری صلاحیتوں کی بدولت اب فرنگی افسر اس کی جیب میں تھے۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اب تمام سرکاری ٹھیکے صرف اور صرف سلطان کو ملنے لگے۔ لاہور کا ریلوے اسٹیشن، دہلی دروازہ، لنڈا بازار، سرائے محمد سلطان، اٹک کا پل اور اس طرح کی بے شمار عمارتیں آج بھی سلطان کا نام فراموش نہیں ہونے دیتیں۔ مگر ایک عجیب سا مسئلہ بھی تھا۔ اس وقت تعمیر کرنے کے لیے چھوٹی اینٹ استعمال کی جاتی تھی۔ اندرون شہر میں متعدد عمارتیں چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی تھیں۔ ان میں لاتعداد گھر، چند مساجد، دفاتر اور حویلیاں تھیں جو سکھوں کے ظلم و ستم کی بدولت اجڑی ہوئی تھیں۔ مگر متعدد عمارتیں آباد بھی تھیں۔

سلطان ٹھیکیدارچھوٹی اینٹیں حاصل کرنے کے لیے پرانی عمارتوں کو گرا دیتا تھا۔ پھر انھیں اپنے نئے تعمیراتی کام میں استعمال کرتا تھا۔ اسے کوئی غرض نہیں تھی کہ یہ اینٹ کس پرانی عمارت سے حاصل کی جا رہی ہے۔ محمد سطان، اب لاہور کا رئیس ترین آدمی تھا۔ 1869میں افغانستان کا بادشاہ شیر علی خان، لاہور آیا۔ تو سطان نے اس کے لیے ایک فقید المثال دعوت دی۔ شیر علی خان، اس آؤ بھگت پر ششدر رہ گیا۔

محمد سلطان اب اس کا بہترین دوست بن گیا اور افغانستان کے تعمیراتی کام بھی ملنے لگے۔ 1876 میں پرنس آف ویلز، البرٹ ایڈورڈ جب لاہور آیا۔ تو سلطان اس کے دربار میں کامیاب ترین شخص تھا۔ یعنی اب انگریز افسروں سے لے کر انگریز حکمران، تمام کے تمام اس کے خوشہ چیں تھے۔ اسی دوران، سلطان سے ایک مہیب غلطی ہوگئی۔ اندرون شہر میں ایک مسجد تھی جس کانام ستارہ مسجد تھا جو چھوٹی اینٹ سے تعمیر ہوئی تھی۔

سلطان کو اپنے وسیع کاروبار کے لیے مخصوص اینٹ کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مسجد کو گرا کر اینٹ حاصل کی گئی اور اس سے نئی سرکاری عمارت بنوا دی گئی۔ حکایت ہے کہ ستارہ مسجد گرانے کے بعد، محمد سلطان ٹھیکیدار کا ناقابل یقین زوال شروع ہوگیا۔ کاروبار میں گھاٹا پڑتا گیا۔ سلطان نے اپنی تمام جائیداد کشمیر کے مہاراجہ کو گروی رکھوا دی اور پانچ لاکھ قرض حاصل کر لیا۔ مگر کاروباری زوال رک نہ پایا۔

سلطان پانچ لاکھ روپیہ بھی واپس نہ کر سکا۔ اس کی تمام جائیداد قرق ہوگئی۔ پائی پائی کو محتاج ہوگیا۔ اسے جوڑوں کے درد کا مرض ہوگیا۔ علاج کروانے کے پیسے بھی ختم ہو چکے تھے۔ لاہور کے طبیب، اپنی فیس وصول کرنے کے عوض اس کے گھر کی تمام قیمتی اشیاء لے جاتے تھے۔ غربت، افلاس اور بیماری نے رئیس لاہور، محمد سلطان ٹھیکیدار کو برباد کر کے رکھ ڈالا۔ بے اولاد تھا۔ اس کی موت حد درجہ کسمپرسی میں ہوئی۔ 1876 میں سلطان مسلسل گمنامی کا شکار ہو کر دنیا سے کوچ کر گیا۔

عروج اور زوال کی یہ سچی حقیقت ہمارے خطے میں مختلف طرز سے ہر جگہ موجود ہے۔ آپ اپنے شہر، قصبے یا دیہات کے پرانے لوگوں سے پوچھیں تو بتائیں گے کہ آج سے ایک صدی پہلے ان جگہوں پر کیسے کیسے فقید المثال رئیس اور نامورجاگیردار موجود تھے۔ آج ان کی قبروں کے نشان تک فراموش ہو چکے ہیں۔ عروج اور زوال کی یہ داستانیں صرف انسانوں تک محدود نہیں ہیں۔

حکومتیں، حکمران، بادشاہ، سیاسی گھرانے اور مقتدر طبقے بھی اس لازوال قدرتی قانون کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا قدرتی عمل ہے جس سے کوئی مفر نہیں ہو سکتا۔ موجودہ سیاسی حالات کو اسی بلندی اور پستی کے عدسے سے دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے۔ ہم تمام لوگ بعینہ اس دور میں سانس لے رہے ہیں۔ جہاں ایک نیا سیاسی خاکہ سامنے آ رہا ہے۔ عرض کرونگا، کہ اس وقت شریف خاندان ملک کی سیاست میں بااثر اورمضبوط ترین ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیے اورمستقبل کو دیکھیں۔ آپ کوحیران کن حقائق نظر آئیں گے۔

1985 سے نواز شریف کے سیاسی عروج کا سفر شروع ہوتا ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ملنا چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ملک کے تین بار وزیراعظم بنے۔ شہباز شریف کا پنجاب پر مسلسل اقتدار رہا۔ حالیہ تاریخ میں اتنی طاقت کسی اور خاندان کے نصیب میں نہیں آئی۔ شاید ہندوستان میں نہرو خاندان کو بھی اتنا عروج حاصل نہیں ہو سکا۔ البتہ پاکستان میں بھٹو خاندان کے بارے میں ایسا ہی کہاجا سکتا ہے۔ اب زرداری خاندان بھی بہر حال دولت اور اقتدار میں کسی طرح پیچھے نہیں رہا۔

2016 سے 2018 تک کے حالات کو دیکھتے ہیں۔ مقتدر حلقوں نے شریف خاندان کے سیاسی عروج کو عبرت میں بدل دیا۔ عمران خان، جن کی سیاسی تربیت نہ ہونے کے برابر تھی، اسے اقتدار سونپ دیا گیا۔ اپنے دور اقتدار میں خان صاحب غیر مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گئے۔ عام اندازہ تھا کہ اگر وہ پانچ برس پورے کر گئے تو تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے کے لیے کوئی امیدوار نہیں ہوگا لیکن یہ عمران خان کے سیاسی زوال کا عروج تھا، جب خان کو اقتدار سے نکالا گیاتواس کا زوال تیزی سے عروج میں بدلنی شروع ہوگیا۔

صرف عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے ہوئے آٹھ مہینے ہوگئے ہیں لیکن عمران خان اب ملک کی مقبول سیاسی قیادت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر حلقے میں تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والوں کا "جمعہ بازار" لگا ہوا ہے۔ مجھے اگلے الیکشن میں خان کی کامیابی نظر آ رہی ہے۔

اب تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم کے نام سے سیاسی اتحاد قائم ہوا اور اس اتحاد نے مخلوط حکومت بنائی۔ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا جب کہ پنجاب کا اقتدار ان کے صاحبزادہ کے سپرد کیا گیا۔ مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہو گئے۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں سب سے مضبوط اور مقبول سیاسی جماعت تھی۔

پنجاب میں شہباز شریف کے صاحبزادہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا لیکن عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا کر پانسہ پلٹ دیا، مسلم لیگ ن حالات کی تپش سے پگھلنی شروع ہوگئی۔ نواز شریف نے حد درجہ محنت کر کے جو سیاسی قلعہ بنایا تھا، اس کو بچانے کی موجودہ تمام کوششیں رائیگاں نظر آنے لگی ہیں۔ عمران خان جو قتل ہوتے ہوتے بچا ہے، سب سے بڑی سیاسی حقیقت بن کر پی ڈی ایم کو تقریباً فارغ کر چکا ہے۔

ن لیگ کے پاس مرکز میں وزارت عظمی اب بھی موجود ہے لیکن ن لیگ کا پنجاب میں سیاسی زوال رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ زرداری صاحب جو بادشاہ گر جانے جاتے ہیں، کوشش کرنے کے باوجود پنجاب سے نامراد واپس گئے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اقتدار کا حصہ ہیں تاہم مجھے لگتا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت بھی زوال پذیر ہیں۔ ریاستی ادارے بھی اپنی اپنی جگہ مشکلات کا شکار ہیں۔

سلطان ٹھیکیدار کا عروج و زوال سامنے رکھیے۔ آپ کو آنے والے وقت کا نقشہ صاف نظر آ جائے گا۔ کئی اہم ترین لوگوں کو جوڑوں کا درد شروع ہو چکا ہے۔ طبیب ملک کی قیمتی ترین اشیاء بطور معاوضہ کھل کر وصول کر رہے ہیں، مگر دوچار ماہ میں موجودہ اتحادی حکومت کہاں ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل کام ہے۔