Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Waldain Ke Dil To Mom Ke Hote Hain

    Waldain Ke Dil To Mom Ke Hote Hain

    ناصرمحموداوریاسرمحموددونوں سگے بھائی ہیں۔ پنڈی کے ایک مضافاتی بستی کے رہائشی۔ سفیدپوش بلکہ اس سے بھی نچلی سطح پرزندگی گزارنے پرمجبور۔ والدزندہ تھا۔ کم ازکم ایک برس پہلے تک۔ ناصربڑابھائی تھا۔ اسے احساس ہواکہ والدضعیف ہوچکاہے۔ کسی بھی وقت بلاواآسکتاہے۔ چھوٹابیٹایعنی یاسروالدکے کافی نزدیک تھا۔ خدمت کرتاتھا۔ لہذابوڑھے والدکاچھوٹے بیٹے کی طرف جھکاؤبہت زیادہ تھا۔

    اس کے ذہن میں آیاکہ کہیں والد، محبت کے جوش میں جائیدادبرادرخوردکے نام نہ لگا دے۔ اثاثے بھی کیاتھے۔ دوتین ایکڑبارانی زمین اور ایک نیم پختہ مکان۔ بارش پرمنحصرزمین سے چند ہزار روپے سال کے وصول ہوتے تھے۔ وہ بھی ہمیشہ نہیں۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں کونسی فصل اورکونسے پیسے۔ انتہائی معمولی ذرائع آمدن میں زندگی کیا ہوگی۔

    اس کا اندازہ لگانازیادہ مشکل نہیں۔ ناصرشادی شدہ تھا۔ اس نے اب ہروقت سوچناشروع کردیاکہ کہیں چھوٹابھائی جائیدادکا مالک نہ بن جائے۔ چنانچہ اس نے ایک انتہائی ادنیٰ اور المناک فیصلہ کیا۔ شروع شروع میں تووالدکوکہاکہ جائیداد کا بٹواراکردے۔ جب اس بوڑھے آدمی نے جواب دیاکہ اپنی زندگی میں جائیداداولادکے نام نہیں کریگا۔ اس کی وفات کے بعدشرعی طریقے سے زمین اورگھراولادمیں تقسیم ہوجائیگا۔

    اس نکتہ پرروزباپ بیٹے میں جھگڑاہونے لگا۔ ناصرنے ایک منصوبہ بنایا۔ جس میں والدکوزندگی کی قیدسے آزاد کرنا شامل تھا۔ رات گئے، اپنے والدکے کمرے میں گیا۔ بوڑھا باپ سورہاتھا۔ ناصرنے پوری طاقت سے باپ کا گلاد با دیا۔ بیٹے کی تسکین پھربھی نہ ہوپائی۔ ایک بوری لایا۔ باپ کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ گوشت کوبوری میں بندکیا۔ بستی کے نزدیک ایک نالہ بہتاتھا۔

    بوری، جس میں باپ کی لاش کے حصے تھے، خاموشی سے نالہ میں پھینک دیا۔ گھرمیں چھوٹے بھائی کومعلوم ہی نہ ہوپایاکہ اس کے سگے بھائی نے اپنے ہی والدکوبے دردی سے قتل کر دیاہے۔ خیرتلاش شروع کی گئی۔ اس میں ناکامی کے بعد، پولیس کومطلع کیاگیا۔ پولیس نے چندہی دنوں میں شبہ کی بنیادپرناصرکوگرفتارکرلیا۔ دورانِ تفتیش بیٹاسب کچھ مان گیا۔ نالہ سے بوری بھی برآمدہوگئی۔ باپ کی لاش کے ٹکڑوں کواہل خانہ نے دفن کردیا۔ بڑے بیٹے یعنی ناصرمحمودکے خلاف بھرپورقانونی کارروائی کی گئی۔

    اسی نکتے کوآگے بڑھاتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پشاورمیں بخشی پُل کے نزدیک ایک بستی ہے۔ غربت سے اَٹی ہوئی ہمارے عظیم ملک کی معمولی سی کالونی۔ وہاں کاشف نام کاایک شخص، بیوی بچوں سمیت اپنی والدہ کے ساتھ رہتاتھا۔ والدہ کانام مجددہ بی بی تھا۔ ساس بہومیں ہروقت نوک جھوک ہوتی رہتی تھی۔ گھر کا ماحول حددرجہ خراب ہوچکاتھا۔ کاشف کبھی اپنی بیوی کوسمجھاتااورکبھی اپنی والدہ کو۔ مگروہ ہروقت کی اس چخ چخ کونہ کم کرپاتاتھا، نہ گھرمیں اس کی کوئی بات سنتا تھا۔

    ایک دن اسی طرح ساس بہوکاجھگڑاہورہا تھا۔ کاشف نے الماری سے پستول نکالااوراپنی والدہ پر فائرنگ کر ڈالی۔ اس کے بعدگھرسے بھاگ گیا۔ ماں زخمی ہوکرزمین پرگرگئی۔ بوڑھی عورت نے زورزورسے چیخناشروع کر دیا۔ فائرنگ اورچِلانے کی آواز سنکر ہمسائے گھرپہنچے تو مجددہ سانس لے رہی تھی۔ اسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ مگرخاتون زخموں کی تاب نہ لاسکی۔ اورایمبولینس ہی میں دم توڑگئی۔ کاشف کوبھی گرفتارکرلیاگیا۔ اس سے آگے لکھتے ہوئے میرا قلم لرزرہاہے۔ ہمت ہی نہیں کہ اسطرح کے اَن گنت واقعات قلم بندکرپاؤں۔

    اخبارمیں والدین کی اولادکے ہاتھوں مارے جانے کی خبریں پڑھنے کوملتی رہتی ہیں۔ معمولی سے جھگڑے، جائیدادکی تقسیم اورخاندانی تنازعوں میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے مارے جانے کے واقعات اب کوئی رازنہیں ہیں۔ ایسی قبیح حرکت۔ اتنابڑاظلم۔ اولادکے ہاتھوں والدین ہی جان دھوبیٹھیں۔ سوچنا تک دشوارہوجاتا ہے۔

    مگر عذاب یہ ہے کہ اسطرح کی خبریں سچی ہوتی ہیں۔ اسطرح کے واقعات اب بڑھتے جارہے ہیں۔ قطعاً عرض نہیں کررہاکہ ماضی میں یہ گھٹیاروش نہیں تھی۔ بالکل تھی۔ خصوصاًاقتدارکی جنگوں میں بھائی، باپ، بیٹے ایک دوسرے پرلشکرکشی کرتے رہتے تھے۔

    برصغیرمیں کیونکہ اقتدارکی منتقلی کے متعلق ہونے کاکوئی ضابطہ نہیں تھا۔ اس لیے جیسے ہی بادشاہ کمزورہوتاتھا، بیمار پڑجاتا تھا یا آخری دموں پر ہوتاتھا۔ توپھراولادایک دوسرے کے خلاف سلطنت حاصل کرنے کے لیے شورش میں مبتلا ہوجاتی تھی۔ برصغیرکی یہی روایت تھی کہ اقتدارکوصرف اورصرف تلوار کے زورپرہی حاصل کیاجاتاتھا۔ اگرچندصدیوں پہلے کی مغربی دنیاپرنظرڈالیں تووہاں بھی سلطنت حاصل کرنے کے لیے بھائی، بہنیں، بیگمات ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔

    ویسے غورسے دیکھا جائے تو اسلامی ممالک کی اکثریت آج بھی اس منفی روش کا شکار ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں بتایاجاتاہے کہ جمہوریت ہے۔ مگریہاں بھی غیبی تلوارکی طاقت کے بغیرکچھ نہیں ہو سکتا۔ سازش، قتل وغارت کوتہذیب کابرہنہ لباس پہنا دیاجاتاہے۔ مگربنیادی نکتہ وہیں رہتاہے کہ تخت کیسے حاصل کرناہے اورپھراس پرتسلط کیسے قائم رکھنا ہے۔ سلطنت کے حصول کی جنگ میں خاندانی رقابت کا المیہ سمجھ میں آتاہے۔ مگرمعاشرے میں بالکل معمولی سی باتوں پر والدین اوراہل خانہ کوموت کے گھاٹ اُتار دینا صرف اور صرف ایک سماجی بیماری اورعلت کے سواکچھ بھی نہیں ہے۔

    ہمارے عمومی، سماجی رویے کیا تھے۔ ان میں کتنا خوفناک بگاڑآچکاہے۔ اس پرہمارے معاشرے میں کھل کربات نہیں ہوتی۔ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ معاشرہ اس حدتک گل سڑ چکاہے کہ اس سے تعفن کے علاوہ کچھ بھی برآمدنہیں ہورہا۔ منافقت اتنی زیادہ ہے کہ جوہم ہیں، اس پربات کرناگناہ سمجھاجاتاہے۔ جونہیں ہیں اورنہ بن سکتے ہیں۔ اس پرہروقت کج بحثی جاری رہتی ہے۔

    تاریخی لوریاں سناسناکرہمیں ایک ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا کر دیاگیاہے کہ ہم ماضی میں سانس لینے کے علاوہ اورکچھ نہیں کرسکتے۔ انتہائی ضعیف روایات کومنطق کاحصہ بنا دیاگیاہے۔ اورہم اس صورتحال سے اب کسی طور پر باہر نہیں نکل سکتے۔ سچ بولنے اورسچ بتانے والے، سب لوگ معتوب گردانے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم میں سے اکثریت اپنے حال کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی۔

    مرداورعورت دونوں محنت کرتے نظر آئینگے۔ دفتروں، دکانوں، منڈیوں، بازاروں میں روزمرہ کے کام میں مصروف نظرآئینگے۔ تاجرحضرات روزانہ کثیر تعداد میں پیسے بینکوں میں جمع کرتے مصروف ہونگے۔ کسی بھی طبقہ، امیریاغریب، ان لوگوں سے پوچھیں کہ آپ اتنی شدیدمحنت کیوں کررہے ہیں۔ تواکثریت کاجواب ایک جیساہی ہوتاہے۔"اپنے بچوں کے سکھ کے لیے۔ ہماری زندگی جیسی تیسی گزری، مگراولادکوبہترمستقبل دینا چاہتے ہیں "۔ دیکھاجائے تواس میں آدھاسچ ہوتاہے۔

    انسان اپنی آسائش کے لیے بھی محنت کرتاہے اوراپنی اولادکے لیے بھی۔ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق وہ اولادکو تعلیم، کاروبار اور تجارت، سب کچھ سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عمومی رویہ ہے اوراس کی مثالیں ہم میں سے ہرایک کے اردگرد بکھری ہوئی ہیں۔ انسان اولادکے سکھ کو متعددباراپنے ذاتی آرام سے زیادہ ترجیح دیتاہے۔ مگر پھرہوتاکیاہے کہ اولادخودمختارہوکروالدین کی شدید ریاضت کو بھولنا شروع کردیتی ہے۔ ماضی کی تکالیف برداشت کرکے انھیں ترقی کے مواقعے دینے کومکمل فراموش کردیتی ہے۔ والدین کی اہمیت روزبروزکم ہونی شروع ہوجاتی ہے۔

    وہ بیچارے مکمل اکلاپے کاشکار ہوجاتے ہیں۔ اولادان پرروک ٹوک بھی روارکھتی ہے۔ آپکو یہ کرناچاہیے۔ یہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کے فقرے عام سننے کوملتے ہیں۔ اب آپکوفیصلے کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس اب توآپ اللہ اللہ کریں۔ نتیجہ یہ کہ بزرگوں کوانکی موت سے پہلے ذہنی طورپرختم کردیا جاتا ہے۔ ہرگزیہ عرض نہیں کررہاکہ تمام اولادایسے ہی کرتی ہے۔ میں نے توایسے بلندکردارلوگ بھی دیکھے ہیں جوبوڑھے والدین کی خدمت کرنے کو عبادت گردانتے ہیں۔ مگرانکی تعدادکم ہوتی جارہی ہے۔

    بے ادبی کا دور دورہ حددرجہ زیادہ ہے اورپھرکچھ رقیق القلب لوگ، اپنے والدین کوقتل تک کرڈالتے ہیں۔ اس سے بھیانک سماجی رویہ اورکیاہوگا۔ اولاد کو سمجھنا چاہیے کہ والدین کے دل توموم کے بنے ہوتے ہیں۔ انکا غصہ بھی بناوٹی ہوتاہے۔ دل سے بچوں کے لیے صرف دعائیں نکلتی ہیں۔ ان بے چاروں سے کیالڑنا!