انسانی زندگی میں سب سے اہم ترین عنصر "وقت" ہے۔ پر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وقت اپنی ہیئت میں کیا ہے؟ یہ بذات خود کس چیز کا مجموعہ ہے؟ یہ صرف ہمارے ذہن کی تخلیق ہے یا اس کی واقعی کوئی ٹھوس حقیقت ہے؟ یہ تمام اور اس سے منسلک ان گنت سوال، انسان کے ذہن میں ہمیشہ سے ہیں اور سائنسدان، اس کلیہ کے متعلق نت نئی تحقیق میں مصروف کار رہتے ہیں۔
جس میں سے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس شعبہ میں Michel Siffreکا نام حد درجہ اہم ہے۔ جس کے تجربات سے "وقت" کے انسانی زندگی پر اثرات کے متعلق محیر العقول نتائج سائنسی اعتبار سے پیش کیے گئے ہیں اور سفرے کے تجربات نے خلائی ہوا بازوں پر وقت کی قید سے آزادی کی بالکل نئی جہتیں پیش کی ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ وقت بذات خود کیسے وجود میں آیا۔ آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے، قدیم مصری ماہر فلکیات نے پانی کے پیمانے ترتیب دیے۔ جن سے وقت ناپا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح انھی ذہین لوگوں نے سورج کی روشنی اور اوقات سے بھی وقت کو ماپنے کی کامیاب کوشش کی۔ جناب، اندازہ فرمائیے کہ آج سے ہزاروں برس پہلے، مصر میں موجود اہل علم اور سوچنے والے افراد، کس قدر ذہین تھے۔ دلیل کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ انھی لوگوں نے "اہرام مصر" بنا کر، آج تک دنیا کے لیے ایسے ذرخیز سوالات ایستادہ کر دیے ہیں جن کا آج کی جدید ترین سائنس اور علوم کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
گمان ہے کہ چند تحقیقی علوم میں قدیم مصری، آج کی دنیا سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ کیونکہ نہ ہی ان کے وقت کے ناپنے کے طور طریقے کو مکمل طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی "اہرام مصر" جو عجوبہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی بابت کوئی علم ہو پایا ہے کہ اتنے وزنی پتھر، عین صحرا کے بیچ میں کیسے لائے گئے؟ پھر ان کو حد درجہ جدید ترتیب سے کیونکر لگانا ممکن ہوا؟ ان سوالات کا مدلل جواب آج تک کوئی سائنسدان نہیں دے پایا۔ شاید آنے والے دنوں میں معلوم پڑ جائے۔ مگر ابھی تک یہ صرف ایک حیرت انگیز معمہ ہے۔
وقت پر بات کرتے ہیں تو Sacrobosco اور البیرونی کا نام روشن ستارے کی طرح سامنے آ جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ہر طرز کا وسیع فرق تھا۔ بلکہ اجمالی طور پر کسی قسم کی کوئی یکسانیت نہیں تھی۔ Sacrobosco انگلینڈ میں پیدا ہوا اور یونیورسٹی آف پیرس میں فلکیات پڑھاتا رہا۔ یہ 1225یا 1230کے زمانے کی بات ہے۔ البیرونی، ایرانی نسل سے تعلق رکھتا تھا اور فزکس، حساب، فلکیات، لسانیات اور اپنے وقت کی جدید سائنس کا عالم تھا۔ اس نے 146کتابیں لکھیں۔ جن میں سے 95، فلکیات، حساب اور جغرافیہ کے متعلق تھیں۔ ان کا دورانیہ آج سے کوئی چودہ پندرہ صدیاں پہلے کا بنتا ہے۔
ان دونوں سائنسدانوں نے ایک گھنٹہ میں ساٹھ منٹ اور پھر ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ کشید کیے۔ مگر اس کا اصل منبع ببیلون کے زمانے کی فلکی تحقیق میں پنہاں ہے۔ دن کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کرنے کا کام، یونانی عالم، Hipparcusکا تھا۔ جو بذات خود ایک عظیم کارنامہ تھا۔ مگر یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ جدید طور پر "وقت" کے اوپر جس انوکھے اور جفا کش طریقے سے مائیکل سفرے نے تحقیق کی، وہ بذات خود ایک جہان حیرت ہے۔
Michel بذات خود ایک فرانسیسی سائنسدان تھا۔ وہ "غاروں" اور گلیشیرز پر تحقیق میں مصروف رہتا تھا۔ 1962 میں اس نے ایک فقید المثال تجربہ کیا۔ فرنچ ایپلز میں ایک غار جو کہ سطح زمین سے ایک سو تیس میٹر نیچے تھا۔ مائیکل اس غار میں جولائی کے مہینہ میں تن تنہا اتر گیا اور وہاں اس نے اپنے آپ کو دنیا سے مکمل طور پر کاٹ ڈالا۔ نہ روشنی، نہ کوئی گھڑی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سہولت۔ ہاں۔ ایک بات ضرور تھی کہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم غار کے نزدیک موجود تھی اور مائیکل کی ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی حالت پر بھرپور نظر رکھتی تھی۔
وہ اس نکتہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ جب انسان مکمل طور پر وقت، روشنی اور دنیا میں استعمال ہونے والی اشیاء سے جدا ہو تو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ اس وقت مائیکل کی عمر صرف تئیس برس کی تھی۔ جس غار میں اس نے اپنے آپ کو مقید کر رکھا تھا، اس کا درجہ حرارت، حد درجہ کم تھا۔ ہوا میں نمی98فیصد تھی۔ اس کی تحقیق کا لب لباب، پہلے سے بہت منفرد تھا۔ دن کے چوبیس گھنٹے کے دورانیہ کو بالکل تبدیل کر ڈالا تھا۔ اس نے انسانی نیند پر بھی ہر پرانی تحقیق کو تبدیل کر ڈالا۔ تجربہ کے مطابق، انسان بڑے آرام سے چھتیس گھنٹے جاگ سکتا ہے اور اس کے بعد، وہ بارہ گھنٹے کی نیند پوری کر سکتا ہے۔
یہ حیرت انگیز بات تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے سائنس کے مطابق چوبیس گھنٹے میں، انسان کو چھ، سات گھنٹے کی نیند ضروری تھی۔ مگر مائیکل کے مطابق، جب انسان وقت کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے تو چوبیس گھنٹے کا دورانیہ مکمل طور پر بے معنی معلوم پڑتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ مکمل اندھیرے میں انسان، چوبیس گھنٹے اور چھتیس گھنٹوں میں کوئی تفریق نہیں کر سکتا۔ مائیکل کی تحقیق نے Chronobiolgy کو بھرپور طریقے سے تبدیل کر دیا۔ انسانی جینز کی ساخت، کینسر کی چند قسموں اور جیٹ لیگJet Lag کے رویہ پر حد درجہ نئے اثرات ڈالے۔ اس تحقیق کا سب سے زیادہ فائدہ ناسا کے سائنسدانوں نے اٹھایا جو ہوابازوں کو خلا میں بھیجتے تھے اور جتنی دیر وہ خلا میں رہتے تھے وہ موجودہ وقت کی قید سے مکمل آزاد ہوتے تھے۔
2008 میں مائیکل نے کہا، کہ انسان "غاروں" کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم انھیں صرف معدنیات اور قیمتی دھاتوں کے نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر غاریں دراصل نئی تحقیق اور جدید تحقیق کے لیے منفرد جگہیں ہیں۔ مائیکل 2024 میں جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ مگر وقت کے دورانیہ کے متعلق وہ ایسے جدید نظریات دے گیا جسے آج بھی دنیا سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دراصل مائیکل نے Circadian Rythmsکی تھیوری کو غلط ثابت کیا تھا اور دن کے چوبیس گھنٹے کے فطری دورانیہ کو چیلنج کر ڈالا تھا۔ سائنس بہر حال آج بھی اس دقیق نکتہ پر تحقیق کر رہی ہے۔ آنے والے وقت میں "وقت" کی شکل مزید کتنی تبدیل ہوگی۔ اس پر وثوق سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
جب مسلمان ممالک پر نظر ڈالتا ہوں۔ بالخصوص پچیس کروڑ لوگوں کے اس بے ہنگم ہجوم کے سماجی رویہ کو پڑھتا ہوں تو ایک سچ سانپ بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ کہ ہم لوگ، یعنی مسلمان، جدید نظریات سے حد درجہ جاہل ہیں۔ ہماری اکثریت نئی باتوں اور سائنسی تجربات سے مکمل طور پر نا آشنا ہے۔ جدت پسندی، لگی لپٹی باتوں کو من و عن تسلیم نہ کرنا، تحقیق ہمارے ڈی این اے میں شامل ہی نہیں ہے۔ شاید ہم فکری طور پر بانجھ لوگ ہیں۔ بذات خود، محفلی انسان نہیں ہوں۔ گوشہ نشین بھی نہیں ہوں۔ مگر آج تک بہت ہی کم یا شاید نہ ہونے کے برابر لوگوں سے ملا ہوں۔ جو برملا، قدیم نظریات کو سائنسی بنیاد پر چیلنج کرتے ہیں۔
یوٹیوب جیسے عظیم پلیٹ فارم پر جائیے۔ آپ کو ہمارے ملک میں صرف دو موضوعات نظر آئیں گے۔ ایک تو سیاست، جس میں ہر فریق بے پر کی باتیں کرتا نظر آتا ہے اور دوسرا، مذہبی تاویلیں۔ ویسے ایک اور طبقہ بھی سوشل میڈیا پر حکومت کرتا نظر آتا ہے۔ وہ ہے، دینی تفریقوں کو اجاگر کرکے اپنی علمی حیثیت کو سکہ بند ثابت کرنے کا رجحان۔ فلاں فرقہ ٹھیک ہے۔
فلاں غلط ہے۔ اس سے آگے کوئی بات ہوتی ہی نہیں ہے۔ انسان تھوڑی دیر بعد، ان دونوں موضوعات کی یکسانیت سے گھبرا جاتا ہے اور خاموش بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ مگر حرام ہے کہ کوئی پاکستانی، جدید سائنس اور تحقیق کے مطابق کوئی نئی بات کر دے۔ یہی المیہ پورے عالم اسلام کا ہے اور شاید آنے والی کئی صدیوں میں ایسے ہی رہے گا۔ ویسے میرا پختہ خیال ہے کہ گزشتہ سات آٹھ سو برسوں سے مسلمان، جہالت اور تقلید کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں۔ کوئی بھی نئی بات، نیا کلیہ یا جدید فلسفہ، دینے کی فکری استطاعت نہیں رکھتے۔ اندازہ فرمایئے کہ ہمارے ملک میں سائنس کے حوالے سے جریدے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے پی ایچ ڈی افراد، نقل اور چربہ گری کے ملزم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ہماری پی ایچ ڈی کی اوقات بھی کافی کمزور ہے۔
دراصل دنیااب ہمیں اور ہمارے مزاج کو سمجھتی ہے۔ ہم فروعی اور ادنیٰ معاملات پر لا حاصل بحث کرنے والا ایک جم غفیر ہیں جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حیرت ہوتی ہے جب آٹھ صدیوں پہلے کے مسلمان سائنسدانوں کو پڑھتا ہوں۔ معلوم نہیں۔ البیرونی جیسے عظیم دماغ، ہمارے حصے میں کیسے آ گئے؟ مائیکل سفرے جیسے عظیم جدید محقق تو خیر دور کی بات ہے۔ ہم تو ایسے ایسے لا یعنی مباحثوں کے شکار ہو چکے ہیں جنھوں نے ہمیں جدید فکر اور تحقیق سے بہت دور کر ڈالا ہے۔ ہم اپنی جہالت پر نازاں ہیں اور پھر حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ہم مغربی دنیا سے اتنے پیچھے کیسے رہ گئے!