بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک مربی نے چندتصاویربھجوائی ہیں۔ ہمارے شہداء کی لازوال قربانی کی وہ عملی تصویرجنہیں دیکھنے کے بعددل سے ان کے لیے صرف اورصرف دعانکلتی ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے کے نزدیک، کوسٹل ہائی وے پرفرض نبھاتے ہوئے، ان نوجوانوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرڈالا۔ یقین ہے کہ یہ خداکی بارگاہ میں سرخرو ٹھہرے ہوں گے۔
یہ سات نوجوان، وردی پہنے ہوئے اپنے خالق کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ اسی طرح، رزمک میں بھی شدت پسندوں سے لڑتے ہوئے چھ فوجی جوانوں نے اپنی جان، اس مٹی پرقربان کرڈالی۔ ایک دن میں بیس بہادروں نے جامِ شہادت نوش کیاہے۔ صرف تین دن پہلے۔ حالانکہ قربانیوں کا یہ سلسلہ تقریباًایک دہائی سے جاری ہے۔ جوان کیا، دنیا میں کسی بھی فوج میں، افسروں کے شہیدہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد۔ کیایہ معمولی بات ہے۔ کیا اس عظیم کام پرکسی قسم کی آنچ آنی چاہیے؟ یہ وہ انتہائی سنجیدہ سوال ہے، جسے اب پوچھنے کاوقت ہے۔
اس لیے کہ سازش گہری ہے اورنشانہ صرف ایک، پاکستان کی فوج اوراس سے منسلک ریاستی ادارے۔ شواہدکے ساتھ بات کرنی ضروری ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہونے کی وجہ سے ہربات لکھ سکتاہوں۔ نہ ہی کسی مذہبی گروہ سے نسبت رکھتاہوں۔
گزارش ہے کہ کوئی بھی لکھاری، محقق جو پاکستان سے عشق کرتاہے، یہ نہیں کہہ سکتاکہ ریاستی اداروں سے غلطیاں نہیں ہوئیں۔ یقیناً غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ آمروں نے کئی ایسے کام کیے ہیں، جو نہیں کرنے چاہیے تھے۔ ماضی بعیدکی بات نہیں، 1977سے لے کر چندسال پہلے تک، ایک ایسی قیادت کوسامنے لایا گیا، جس کاجوہرہی کسی اُصول پرمبنی نہیں تھا۔
ایسی بے ثمر لیڈرشپ جس کا مقصد صرف اور صرف پیسہ تھا۔ ان میں سیاسی اورمذہبی شخصیات دونوں شامل تھیں۔ مگر پاک فوج، واحد ادارہ ہے جس نے غلطیاں، اپنے خون سے دھوئی ہیں۔ ملک کے کسی اورادارے نے ایسا نہیں کیا، ایک انتہائی اہم بات اوربھی ہے، کسی تعصب کے بغیر دیکھیے۔ ہمارے ملک میں صرف اورصرف ایک ہی نظم وضبط والاادارہ رہ گیاہے اوروہ ہے پاک فوج۔ باقی تمام ادارے یاتوباہمی کشمکش میں مبتلا ہیں یاان میں قربانی دینے کاوہ جذبہ موجود نہیں، جو سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہمارے محافظوں کے دل اور ذہن میں موجزن ہے۔ میں بیوروکریسی کاحصہ رہا ہے۔
اندرون خانہ تمام معاملات جانتا ہوں۔ سول افسران کی اکثریت، پیسے کی دوڑمیں شامل ہے۔ چند برگزیدہ سیاستدانوں کاآلہ کاربن کرخوب گنگا نہاتے ہیں۔ اچھی پوسٹنگ لینے کے لیے اکثریت ہراخلاقی اور انتظامی اُصول کو بالائے طاق رکھنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔
سیاستدانوں کے متعلق بات کرنی عبث ہے۔ اس لیے کہ صرف دس بارہ سال میں سائیکل سے لینڈ کروزرتک کا سفر کرتے ہوئے بہت سے لوگوں کو دیکھ چکا ہوں۔ دوبارہ عرض کروں گاکہ چند ریٹائرڈ فوجی افسروں نے دولت بھی کمائی ہوگی مگران کی تعداد ملک کے دیگر سرکاری اداروں کے افسروں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اورہاں، ان لوگوں کو کیفرِکردار تک پہنچانے کے لیے فوج کاایک اپنانظام ہے جو حددرجہ کڑااورسخت ہے۔ بات کی تصدیق کروالیجیے۔ اعدادوشمارلے لیجیے۔ فوج میں انتہائی سخت اور طاقتور اندرونی احتساب کا نظام ہے۔
تمہیدباندھنے کے بعد اصل بات، اصل نکتے کی طرف آتاہوں۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ ملکی فوج کے خلاف کام کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے کسی ٹی وی چینل، اخبارکودیکھ لیجیے، پاکستان کے خلاف خبروں سے اَٹاپڑاہوگا۔ ہمارے ملک کی معمولی سے معمولی خبرتک کو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کیاجاتاہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
اگراصل معاملات کاعلم ہواورآپ حقیقت جانتے ہوں، تو فوراًہندوستان کی نفرت اور تعصب کاادراک ہوجاتا ہے۔ وہاں تمام اہم وزارتوں کے میٹنگ ہالزمیں جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کی ڈھاکہ میں ہتھیارڈالنے کی تقریب کی تصویرلگی ہوئی ہے۔ ان کی وزارت داخلہ، سیکیورٹی کے ادارے، سیاسی لوگ ایک نکتے پرمتفق ہیں، وہ ہے پاکستان کو بربادکرنااوراس کے حصے بخرے کرنا۔ وزیراعظم نریندرمودی سے لے کر ان کے ہر اہم آدمی نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف بیانات دے رکھے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ہندوستان کی تمام کوشش اوروسائل خرچ کرنے کے باوجود، ہمارا ملک مضبوطی سے کیسے کھڑاہے؟ چلیے، اسے سوال میں بدل دیجیے۔ کیاہماری عدلیہ، بیوروکریسی، کاروباری طبقہ، سیاستدان کوئی مثالی کام سرانجام دے رہے ہیں؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ملک محفوظ اوربچاہواہے۔ کم ازکم طالب علم کاجواب نفی میں ہے۔ نظام انصاف تمام مراعات لینے کے باوجودعام آدمی کو انصاف مہیاکرنے میں ناکام ہے۔ بیوروکریسی کے متعلق پہلے گزارشات پیش کر چکا ہوں۔
کاروباری طبقہ، دونوں ہاتھوں سے ملک کولوٹ رہاہے اور سیاستدانوں کے متعلق ہر ذی شعورآدمی اچھی طرح جانتاہے کہ وہ اپنے دورِاقتدارمیں کیاگُل کھلاتے ہیں۔ اس سوال کا جواب صرف اورصرف یہ ہے کہ تمام بیرونی طاقتیں محض اس لیے ناکام ہورہی ہیں، کہ آج کی تاریخ تک ملک میں ایک مضبوط فوج موجودہے جوکسی بھی خطرے یا سازش سے غافل نہیں ہے۔ بُرامت منائیے گا۔ کیا بجلی گھروں کی دنیامیں سب سے زیادہ منافع خوری ایک قومی جرم نہیں ہے۔ کیاچینی کی ملوں کی مشینری پاکستان کے صرف ایک سیاسی کارخانے میں تیارہوناغلط نہیں ہے۔
کیا بیوروکریسی جیسے اعلیٰ ادارے کوذاتی پسندناپسندکی بنیادپرتقسیم کرنادرست ہے؟ یہ سوالات نہیں ہیں۔ یہ نوحہ ہے جوہمارے چند عاقبت نااندیش حکمرانوں نے ذاتی فائدے کے لیے سوچ سمجھ کرکیاہے۔ یہی حال مذہبی بنیاد پرسیاست کرنے والوں کاہے۔ ملک، محب وطن لوگوں اور اداروں سے نفرت ان کی گھٹی میں ہے۔
تمام بیرونی سازشوں کے باوجودملک آہستہ آہستہ ترقی کی منزل کی طرف جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ حالیہ حکومت جو حددرجہ نالائق لوگوں پرمشتمل ہے، کم ازکم ملکی مفادمیں اکٹھی تو نظرآتی ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ بعض سیاستدان برملا کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف اورنریندرمودی کا بیانیہ ایک جیسا ہے۔ کیا یہ باتیں بیان برائے بیان کی حیثیت رکھتی ہیں؟ پاکستان کے ریاستی اداروں کے متعلق نوازشریف بالکل وہی بات کررہے ہیں، جو ہمارے دشمن کی زبان ہے، کیا یہ محض اتفاق ہے؟ کم از کم میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میاں صاحب کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ لندن میں وہ انتہائی غضب اورشدیدغصہ میں ہیں۔
ان کا مقصد بالکل سادہ سا ہے۔ مرکزی اورپنجاب کی حکومتیں، ان کی جماعت کو واپس دی جائیں۔ اگر یہ دونوں کام ہوجائیں تو ہرچیزٹھیک ہوجاتی ہے۔ جمہوریت بھی واپس آجاتی ہے۔ ملک میں امن و امان بھی درست ہوجاتا ہے اورحیرت انگیزبات یہ ہے کہ ہماری سرحدوں پرجھڑپیں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ مگر قدرت کااپنانظام ہے۔ شریف خاندان مقدمات کی دلدل میں پھنس چکاہے۔
جائیدادوں کاحساب مانگا جائے، اثاثوں کی کھوج لگائی جاچکی ہے۔ مگر یہ پیسہ کہاں سے آیا، اس کاکوئی جواب نہیں۔ کیا یہ بازپرس نہیں ہونی چاہیے؟ اگرملک نے زندہ رہنا ہے، اگران بیس کروڑلوگوں نے غلامی کا طوق نہیں پہننا تو شریف خاندان ہی نہیں بلکہ ہراہم آدمی کا بے لاگ احتساب ہوناچاہیے۔
ان معاشی جرائم کو ختم کرنے کے لیے مضبوط قانون سازی ہونی چاہیے۔ یہ تمام معاملات کاصرف ایک عدالت میں فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ پے درپے اپیلوں کاحق ختم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ کرپشن کسی قانون کے تحت نہیں کی جاتی۔ تو پھران ملزموں کے لیے اتناطویل نظام انصاف کیوں؟ ایک ماہ میں فیصلے پر جھٹکا ہونا چاہیے۔ مگرملکی نظام میں تبدیلی لاناکم ازکم اس وقت ناممکن نظر آرہا ہے۔
کسی بھی سیاسی رہنماکوقومی اداروں کے متعلق منفی تقاریرزیب نہیں دیتیں۔ مسلم لیگ ن کا سنجیدہ طبقہ، میاں صاحب کی ان مشکل باتوں کی وجہ سے حددرجہ پریشان ہے۔ وہ ان کی تقاریر کا دفاع نہیں کرپا رہا۔ پوچھیں، توبات بدل لیتے ہیں۔ مگرصاحبان!تمام ترغلطیوں کے باوجود ریاستی اداروں نے اپنے خون سے اس ملک کی حفاظت کی ہے۔ کیااس پر انگلی اٹھانا، شہداء کے خون سے وفا ہے؟ کیا یہ ملک کی خدمت ہے؟ آپ سمجھدار ہیں۔ یہ فیصلہ آپ خودکرسکتے ہیں!