Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Aik Self Made Insan Ki Rukhsati

Aik Self Made Insan Ki Rukhsati

میری شاہد حمید صاحب سے ایک ہی مُلاقات تھی۔ دو تین سال پہلے ان کی بیٹی کی شادی تھی۔ مجھے میسج آیا کہ اگر آ سکوں تو ان کے لیے خوشی کا مَقام ہوگا۔ میں نے کالم نگار دوست ارشاد بھٹی کو ساتھ لے لیا۔ جہلم میں شادی ہال میں شاہد صدیقی صاحب موجود تھے اور یوں محفل جم گئی۔ شاہد حمید صاحب اور ان کے بچوں گگن شاہد اور امر شاہد نے بالکل ایسے عزت دی جیسے اپنے گھر کے افراد کو دی جاتی ہے۔

اس خاندان جیسا منکسر مزاج کم ہی دیکھا ہوگا اور ان کی، کی گئی یہ تربیت ان کے بچوں میں دیکھی ہے۔ گگن اور امر کو اتنا ہی انکسار پسند پایا جتنا ان کے والد تھے۔ اتفاق کی بات ہے چند دن پہلے ہی میری امر شاہد سے ان کے والد صاحب کے بارے میں بات ہو رہی تھی اور میں نے یہی کہا کہ شاہد حمید صاحب سے میری زیادہ مُلاقاتیں نہیں ہیں لیکن یقیناً آپ لوگوں پر ان کا گہرا اثر ہے۔

علی اکبر ناطق کا شاہد حمید صاحب پر لکھا سٹیٹس پڑھ رہا تھا تو پتہ چلا شاہد حمید صاحب خود کتابوں کے رسیا تھے۔ پھر انھوں نے ایک آنہ لائبریری بھی بنا لی اور جہلم میں نوجوانوں کو انتہائی سستے داموں کرائے پر ناول پڑھانے لگے۔ شوق زیادہ بڑھا تو کتابیں چھاپ کر بیچنے لگے۔

حیرت ہوتی ہے شاہد حمید صاحب نے کہاں ایک آنہ لائبریری سے سفر شروع کیا اور کہاں پر چھوڑ کر گئے ہیں کہ ایک عالم بک کارنر کا دیوانہ ہے۔ سب سے بڑا کام وہ یہ کرگئے ہیں کہ اپنے بعد اپنے دو بچّے چھوڑ گئے ہیں جو اس کام کو آگے لے گئے ہیں۔ کم بچّے ہوتے ہیں جو اپنے باپ کے نام کو روشن کرتے ہیں، ڈبوتے نہیں۔ گگن اور امر ان بچوں میں سے ہیں جو باپ کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔

سیلف میڈ لوگوں پر دو طرح کے اثرات ہوتے ہیں۔ انھیں زندگی کی تلخیاں اور جدوجہد بہت سخت دل کر دیتی ہیں۔ کامیابی انھیں مغرور کردیتی ہے، وہ تلخ ہوجاتے ہیں۔ لوگوں سے بدتمیزی کرنا اپنا حق سمجھ لیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے سب کچھ خود کمایا۔ بدترین احساسِ برتری کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ان پر کسی کا کوئی احسان نہیں، انھوں نے اپنی دُنیا خود بنائی ہے۔

لہٰذا وہ لوگوں سے اکثر سخت انداز میں پیش آتے ہیں۔ جب کہ کچھ ایسے سیلف میڈ ہوتے ہیں جو انکساری سے بھرے ہوتے ہیں۔ وہ جتنا اوپر جاتے ہیں ایک پھل دار درخت کی طرح جھکتے جاتے ہیں کہ جو ان سے فیض اٹھا سکتا ہے، وہ اٹھا لے۔ ایسے سیلف میڈ لوگ ہر کسی کی مدد پر تیار ہوتے ہیں کہ چلیں جو مشکلات میں نے دیکھیں وہ اور کوئی نہ دیکھے۔ میں کسی کے کام آسکتا ہوں تو آ جاؤں۔ کبھی کسی نے میری بھی تو مدد کی تھی۔

شاہد حمید دوسری قسم کے لوگوں میں سے تھے۔ سیلف میڈ انسان جو ایک چھوٹی سی کتابوں کی دُکان سے اُٹھے اور اس وقت اس دُنیا سے رُخصت ہوئے ہیں جب ان کے بچّوں نے پاکستان کے سب سے اچھے، مشہور اور اچھی ساکھ کے پبلشنگ ادارے کو کھڑا کر دیا۔ آج پاکستان کا ہر ادیب اور لکھاری فخر سے اس ادارے سے کتاب چھپوانا چاہتا ہے۔ ان بھائیوں نے پبلشنگ میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔

مجھے یاد آیا، ایک دفعہ جمہوری پبلیکیشنز لاہور کے مالک فرخ سہیل گوئندی صاحب کا اسلام آباد میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز میں ایک کتاب کی رونمائی میں ایک شاندار لیکچر سنا تھا۔ گوئندی صاحب خود بھی کمال کی کتابیں چھاپتے ہیں، خصوصاً ٹرکش ادب کے تراجم کاببہت اہم کام کیا ہے۔ انھوں نے کسی اہم بندے کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ دُنیا کے چند اہم کاموں میں سے ایک اہم کام کتابیں چھاپنا بھی ہے۔ کتابیں چھاپنا ایک بڑا کام ہے اور جو کرتے ہیں ان سب کا میں بہت احترام کرتا ہوں کہ ان کے دَم سے انسانوں اور اس کائنات کی گروتھ اور ترقی ہو رہی ہے۔

جہاں تک بک کارنر کے معیار کی بات ہے، جہاں شکیل عادل زادہ جیسا Perfectionist بک کارنر کی تعریف کرتا ہے، جو اپنا رسالہ سب رنگ بھی تین تین سال نہیں نکالتے تھے، جب تک اس کے معیار سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ آج اگر بک کارنر کی تعریفیں شکیل عادل زادہ کرتے ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، معیار کہاں پہنچ گیا ہے۔

جہاں شاہد حمید صاحب کی اچانک وفات کا دُکھ ہے وہیں وہ یقیناً اس بات پر اس دُنیا سے مطمئن ہوکر رُخصت ہوئے ہوں گے کہ جو سفر جہلم کے ایک کارنر میں واقع ایک چھوٹی سی کرائے پر دستیاب کتابوں کی دُکان سے شروع کیا تھا۔ وہ دُکان آج عالمی ادارہ بن چکی ہے۔

یقیناً یہ گگن، امر اور ان کے پورے خاندان کے لیے مشکل وقت ہے۔ ان بھائیوں نے ایک سیلف میڈ باپ کی تکلیفیں اور مشکلیں دیکھی ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے اور اچانک کے دھچکے بہت تنگ کرتے ہیں۔ ایسے دُکھ اور غم جلدی دفن نہیں ہوتے۔ ایسے گہرے زخم وقت کے ساتھ بھی نہیں بھرتے۔

سیلف میڈ لوگ بھی کمال کے ہوتے ہیں۔ مرحوم شاہد حمید صاحب کی محنت اور ہمت کی داستان سن کر دنگ رہ گیا کہ کیسے ایک بندے نے جہلم کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی لائبریری سے سفر شروع کیا اور آج بک کارنر ایک برانڈ بن چکا ہے جس کی دُھوم پاکستان سے بھارت تک پھیلی ہوئی ہے۔

بعض لوگوں کی زندگی پر پوری فلم بنائی جاسکتی ہے، پورا سکرپٹ لکھا جاسکتا ہے۔ شاہد حمید بھی انہی میں سے ایک تھے۔ 1970ء کی دہائی میں پُرانے جہلم کے ایک چھوٹے سے کونے میں ایک آنہ کرایہ پر کہانیاں دے کر اپنی روزی روٹی کماتے کماتے جب قبر میں جا لیٹے تو ایک پوری ایمپائر کھڑی کر چکے تھے۔ ساری عمر کتابوں میں جیے اور کتابوں کے درمیان ہی دفن ہوئے۔ کامیابی لہو مانگتی ہے، محنت مانگتی ہے۔ ایک جنون، ایک پاگل پن درکار ہے۔ گھر بیٹھے کچھ نہیں ملتا۔ گوتم کی طرح نروان پانے کے لیے سات دریا اور سات جنگل عبور کرنے پڑتے ہیں۔ شاہد حمید صاحب نے یہی کیا۔

پچھلے سال اگست میں جب میری کتاب "گمنام گاؤں کا آخری مزار" چھپ رہی تھی تو اس کا مسودہ شاہد حمید صاحب پڑھ رہے تھے۔ پتا نہیں اس مسودے کو پڑھتے پڑھتے انھیں کیا خیال آیا کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے امر شاہد کو لکھ کر دیا کہ رؤف کلاسرا کو بھیج دینا، "کلاسرا کو کہنا، نعیم بھائی کا پڑھ پڑھ کر اُن سے برادرانہ محبّت محسوس ہو رہی ہے۔ خدا اُن کی مغفرت فرمائے۔ "

ایک سال کے اندر اندر وہ خود وہیں پہنچ گئے جہاں نعیم بھائی پہلے سے موجود ہیں۔ کیا پتا کہیں ان دونوں کی مُلاقات وہیں عالمِ ارواح میں ہو۔ مجھے یقین ہے دونوں کو ایک دوسرے کے تعارف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دونوں کی خوب جمے گی۔ نعیم بھائی کو کتابیں پڑھنے کا جنون تھا تو شاہد حمید صاحب کو کتابیں چھاپنے کا۔ کتابوں کے دو جنونی مل بیٹھیں گے تو محفل برپا ہوگی۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.