آج کا دن یا شام کہہ لیں یا رات بھی بڑی عجیب تھی۔ کسی جاننے والے کا گردوں کا ٹرانسپلانٹ آپریشن ہونا ہے۔ فیملی افورڈ نہیں کرسکتی خاصا مہنگا کام ہے۔ نوجوان بندہ ہے۔ اس کی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ میرے ذہن میں ایک نام آیا۔ امریکہ مشتاق بھائی کو فون کیا۔ انہوں نے لاہور میں مجیب الرحمن شامی صاحب کو فون کیا کیونکہ جہاں سب کچھ ہونا ہے وہاں شامی صاحب کی مانی جاتی ہے۔ شامی صاحب نے بڑی مہربانی دکھائی۔
دل کو کچھ تسلی ہوئی۔
پتہ چلا کہ مشتاق بھائی نے کچھ دن بعد پاکستان آنا ہے۔ میں نے ان سے ایک آدھ فرمائش کی تو انہوں نے آگے سے کچھ اپنی طرف سے پیشکش کر دی۔
میں نے کہا میرے لیے ایک کتاب تولیتے آئیں۔ اس غیر معمولی کتاب کا تعارف کچھ دن پہلے امریکہ میں مقیم ہمارے مبشر زیدی نے اپنی فیس بک پر لکھا تھا اور کیا شاندار لکھا تھا۔ اگرچہ زیدی صاحب نے مجھے کمال مہربانی سے اس فکشن بک کا ای لنک بھیج دیا تھا لیکن ہم ٹھہرے اولڈ سکول جو کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھتے ہیں۔
مشتاق بھائی نے فوراََ وہ آڈر کر دیا۔
اب میرا دل کیا انہیں ایک اور کتاب کی فرمائش بھی کروں کہ وہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی نئی آٹوبائیوگرافی بھی لیتے آئیں۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا کہ یار وہ کیا کہیں گے کہ ایک کتاب تو لے لی تو ساتھ ہی دوسری کی بھی فرمائش کر دی۔
لہذا مشتاق بھائی کو کہتے کہتے رک گیا حالانکہ مشتاق بھائی سے 2014 سے خاندانی تعلقات ہیں لیکن یہاں میری شرمیلی عادت اور مروت آڑے آگئی کہ وہ کیا کہیں گے۔
خیر مشتاق بھائی کے فون کے بعد امریکہ سے آئے ملتانی دوست روشن ملک سے کافی بینز پر ملاقات ہونی تھی۔ ملاقات ہوئی تو روشن نے کچھ دیر کے بعد میرے سامنے انیجلا مرکل کی وہی آٹوبائیوگرافی رکھ دی جس کا میں مشتاق بھائی کو کہتے کہتے رک گیا تھا۔ روشن نے کہا آپ کے لیے لایا ہوں۔
مجھے مرفی لاز یاد آیا کہ آپ جو کچھ سوچتے ہیں وہی کچھ ہونا شروع ہوجاتا ہے لہذا سوچ سمجھ کر سوچا اور بولا کریں۔