Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Rauf Klasra
  4. Dr. Anwar Ahmad Ki Khubsurat Ghalatiyan

Dr. Anwar Ahmad Ki Khubsurat Ghalatiyan

ملتان جائوں تو ڈاکٹر انوار احمد سے ملاقات کا وقت ان سے ضرور مانگتا ہوں۔ اکثر میں اور جمشید رضوانی گھر جاتے ہیں یا سکینڈ کپ ISP کے کیفے پر مل لیتے ہیں۔ اس دفعہ نیویارک سے ندیم سعید تو لندن سے صفدر بھائی بھی آئے ہوئے تھے ساتھ میں افضل شیخ صاحب۔

ڈاکٹر انوار صاحب سے پرانا رومانس ہے جب یونیورسٹی میں 1991 میں داخلہ ہوا تھا۔ جس محبت بھرے انداز سے وہ اس وقت ملتے تھے وہی انداز آج 2025 میں بھی ہے۔

اب ڈھلتے وقت کے ساتھ وہ اپنی زندگی کو مڑ کر دیکھتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ شاید ان سے دوستوں اور شاگردوں کے حوالے سے کچھ غلطیاں ہوئی تھیں۔ اس دفعہ پہلی دفعہ انہوں نے اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف کیا کہ شاید جب ان کے کولیگز، دوست اور حتی کہ شاگرد ان کی جگہ چیرمین اردو ڈیپارٹمنٹ بن گئے تھے تو پھر انہیں مظلوم اور مستحق طالب عملوں کی مدد کے لیے "سفارشی رقعے" نہیں لکھنے چاہئے تھے۔

ترکی سے ایک طالب علم کی مدد کے لیے اپنے کولیگ کو خط لکھا جس پر کچھ احسانات بھی تھے تو جواب ملا اب آپ چیرمین نہیں ہیں، میں ہوں۔

ایک شاگرد جس کا انہوں نے اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر خیال رکھا اس نے زیادہ گستاخانہ رویہ رکھا جس پر مجھے اور جمشید رضوانی دونوں کو دکھ تھا کہ انوار احمد جیسا استاد کچھ بھی لکھ دے تو بھی ان کے اتنے احسانات ہیں کہ آپ ان کی جوتیاں سیدھی کریں نہ کہ فیس بک پر تبرہ پڑھیں۔

زندگی میں دو لوگ ایسے ملے جن کا رومانس ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے ماتحتوں، دوستوں، واقف کار یا شاگردوں پر ختم نہیں ہوا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف فیڈرل سیکرٹری سے ریٹائرڈ ہوئے تو بھی ان کے پاس اگلے بارہ برس تک لوگوں کا رش لگا رہتا تھا حالانکہ وہ اب کسی کا فائدہ نقصان نہیں کرسکتے تھے۔

ایسا ہی رش ملتان میں ڈاکٹر انوار احمد کے پاس دیکھا ہے جنہیں ریٹائرڈ ہوئے بھی 18 برس ہوگئے ہیں لیکن ان کا جادو اور رومانس ابھی بھی شاگردوں کے سروں پر سوار ہے۔ یقیناََ ہم انسان بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے بھی ہوئی ہوں گی جس کا وہ اظہار کررہے تھے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ایک بات کہوں اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جو غلطیاں آپ کے بقول آپ نے کیں وہی خوبصورت غلطیاں (طالب علموں کی مدد) تو ہمیں آپ تک کھینچ لاتی ہے ورنہ زندگی میں کتنے استاد ملے، کتنوں نے پڑھایا، آج کس کے گھر پر یہ مجمع لگتا ہے جو آپ کےہاں ہے۔ حتی کہ وہ کولیگز یا شاگرد جو آپ کی کرسیوں پر بیٹھ کر کہتے تھے کہ اب انوار احمد کو کہو کسی کی سفارش نہ کیا کرے کہ وہ اب چیرمین نہیں رہے، وہ بھی ان سفارشی رقعوں کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک تھے۔

آپ کا 1993 میں ایک ایسا ہی رقعہ مجھے آج تک 32 برس بعد بھی آپ سے ملنے پر مجبور کرتا ہے جو آپ نے ملتان میں مظہر عارف صاحب کے نام لکھا تھا کہ رئوف کو اپنے ساتھ فرنٹیر پوسٹ اخبار میں کچھ عرصہ انٹرشپ کرنے دو اور ان تین ماہ نے میری زندگی بدل دی تھی۔

آپ اپنی ان خوبصورت غلطیوں کو احساس جرم نہ بننے دیں۔ ورنہ کون کسی کے ریٹائرڈ ہونے کے اٹھارہ برس بعد بھی رومانس میں مبتلا ہو۔ یہی تو آپ کی خوبی تھی۔ اپنے بچوں کے لیے سب کرتے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ دوسرے کے کمزور پس ماندہ بیک گراونڈ والوں کے لیے کیا خصوصا ہمارے جیسوں کے لیے جن کی کوئی سفارش اور ریفرنس نہ تھا۔ آپ ہمارا ریفرنس بنے۔ ہماری شناخت بنے۔ آپ نے ہمیں اون کیا۔ ہمیں بھی اپنا بچہ سمجھا جو دوردراز دیہاتوں سے ٹاٹ کے سکولز سے پڑھ کر یونیورسٹی تک پہنچے تھے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.