Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Rauf Klasra
  4. F-10 Markaz Ki Old Box Shop Ki Kahani

F-10 Markaz Ki Old Box Shop Ki Kahani

کل رات بارہ بجے کے قریب قبلہ جنید اور میرا پروگرام بن گیا کہ چائے پیتے ہیں۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ کہاں سے پی جائے۔ میں نے کہا چلیں ایف ٹین چلتے ہیں وہاں اس وقت اچھی چائے مل جائے گی۔ مارگلہ سائیڈ والے مرکز میں پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ یہاں تو ایک اولڈ اینڈ اولڈ بکس شاپ بھی ہے کیوں ناں پہلے وہاں چیک کیا جائے اور بکس لے کر چائے پیں جاے۔ میرا خیال تھا اولڈ بکس شاپ پر کبھی کبھار اچھی بکس مل جاتی ہیں۔

قبلہ جنید کہنے لگے اس وقت گیارہ ساڑھے بجے کہاں کھلی ہوگی۔ کون کتابوں کا گاہک ہوگا وہاں کہ وہ کھلی رکھیں۔

میں نے کہا قبلہ ہم دو گاہک ہیں ناں۔ چیک کرنے میں کیا ہرج ہے۔

قبلہ مان گئے اور میں گاڑی اس طرف لے گیا۔ کچھ دور پارک کی اور اس دکان کی طرف چل پڑے۔

لو جی رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ دکان کھلی تھی۔ میں نے کہا قبلہ دیکھ لیں اگر رات کو کھانے کی دکانیں کھلی ہیں تو کتاب کی بھی کھلی ہے۔ دکان میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی گاہک نہ تھا۔ مہر صاحب نے کچھ کتابیں اٹھائیں۔ تین ہزار اس کا بل دیا۔ ایک بارہ سو روپے والی بک کا مجھے کہا آپ بل دیں گے۔

میں نے بھی آدھا گھنٹہ لگا کر پرانی کلاسک بکس پک کیں۔ ان کا بل 8800 کے قریب بنا۔ میں نے کہا یار سیدھا آٹھ ہزار کر لیں۔

دو لڑکے کھڑے تھے جو سیلز مین تھے۔ دکان کے مالک عامر صاحب نہیں تھے۔

میں نے کہا یار ان بکس کی جلدیں بھی مجھے کرانی ہے کیونکہ اکثر کے صحفات بکھرے ہوئے تھے۔ سیدھا آٹھ ہزار کر لو۔

ایک نوجوان مان گیا لیکن دوسرا نوجوان جس کی عمر بیس اکیس سال ہوگی ڈٹ گیا کہ نہیں پہلے رعایت کر دی ہے۔ میں نے کہا گاہک کی حجت ہوتی ہے۔ آپ دکان بند کرنے والے ہیں۔ آخری گاہک آٹھ ہزار روپے کا مل رہا ہے اس وقت ضد نہیں کرتے۔ اس دوران دوسرا لڑکا میرا بنک کارڈ مشین میں ڈال چکا تھا اور وہ آٹھ ہزار پر راضی تھا۔ لیکن بیس سالہ نوجوان نے کہا ہرگز نہیں۔

میں نےمشین سے کارڈ باہر نکالا اور کہا ان بکس کے بغیر بھی گزارہ ہورہا تھا۔ ہم تو چائے پینے آئے تھے۔ آپ کو بارہ تیرہ ہزار کا بزنس دےرہے ہیں۔ اگر پوری نہیں تو آدھی تنخواہ تو آپ کی نکل رہی تھی۔ اچھا سیلز مین کبھی دس بارہ ہزار کی پارٹی رات کے اس پہر نہیں جانے دیتا۔ ہم تو آپ لوگوں کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی بکس لے لیتے ہیں تاکہ پرانی اور نئی کتابوں کی دکانیں چلتی رہیں۔

میں نے کوشش جاری رکھی اور اسے سمجھایا کہ اس میں دوستووسکی کے کلاسک شاہکار برادرز کرامازوف کا دوسرا حصہ بھی نہیں ہے۔ صرف ایک جلد ہے۔

دیکھا جائے تو میں اپنا نقصان کررہا ہوں کہ ایک ایسا ناول خرید رہا ہوں جس کا دوسرا پارٹ آپ کے پاس نہیں اور کوئی گاہک نہیں خریدے گا۔ یہ سب بکس ادھر پڑی ضائع ہوتی رہیں گی۔

وہ پھر بھی نہ مانا۔

پتہ نہیں مجھے کیا ہوا۔ میں نے بکس واپس کر دیں۔ کارڈ واپس لیا اور باہر نکل آیا۔ میں نے قبلہ جنید کو کہا اگر اس دکان کا مالک خود یہاں کھڑا ہوتا تو وہ کبھی پانچ سو روپے کی خاطر آٹھ ہزار کا گاہک رات کے بارہ بجے کبھی نہ جانے دیتا۔ یہ نوجوان بچہ اپنی انا میں پھنس گیا کہ میں نے کہہ دیا تو سو کہہ دیا۔ اس نے ابھی کچھ سبق سیکھنے ہیں۔ سیکھ تو جائے گا لیکن اس دوران اپنا اور دکان مالک کا خاصا نقصان کر چکا ہوگا۔

بھارتی فلم ٹیکسی 9211 یاد آئی جس میں نانا پاٹیکر اور جان ابراہم لیڈ رول میں تھے۔ ایک دن ایک جیسے مزاج کے لوگوں کا سامنا ہوگیا تھا۔ مجھے بھی کچھ ایسا لگا کہ اس اولڈ بکس شاپ پر دو ایک جیسے مزاج کے لوگوں کا ٹکرائو ہوگیا۔ وہ نوجوان بچہ اڑ گیا کہ وہ پانچ سو روپے نہیں چھوڑے گا اور میں بھی ضد کر گیا کہ میں نے بھی پھر بکس نہیں خریدنی۔

یہ الگ بات ہے کہ نقصان دکان کے مالک عامر صاحب کا ہوا جو اس نوجوان سیلز مین کی رات گئے پانچ سو روپے بچانے کے ضد/چکر میں آٹھ ہزار کا آخری گاہک کھو بیٹھے اور اگلا پورا ماہ وہ ایک ایک کتاب بیچ کر آٹھ ہزار اکھٹے کریں گے۔ انسانی انا کی ایک قیمت ہے جو ہم سب ادا کرتے ہیں۔ میں نے وہ پرانی دس کتابیں کھو کر ادا کی تو اس اولڈ شاپ کے سیلز مین نے آٹھ ہزار روپے کا آخری گاہک کھویا۔ ہم دونوں کی انا کا گھاٹا مالک کو ہوا جو اپنے ناتجربہ کار اور انا پرست نوجوان سیلز مین پر اعتبار کرکے گھر سویا ہوا تھا۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.