ادبی رسالوں کی روایت دھیرے دھیرے دم توڑ رہی ہے یا توڑ چکی ہے کہ اس ہفتے عطا الحق قاسمی صاحب کا سہ ماہی معاصر ہاتھ لگ گیا جس کے لیے یاسر پیرزادہ صاحب کا شکر گزار ہوں۔
نقوش کے بعد شاید بڑے عرصے بعد کسی ادبی رسالے کو اتنے شوق سے پڑھ رہا ہوں۔ اگرچہ مجوکہ صاحب کی ٹیم بھی ادب لطیف نکالتی ہے اور اسے بھی پڑھتا رہتا ہوں اور بعض دفعہ وہاں بھی کچھ اعلی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ یوں کہیں ادب لطیف سے ہی سابق بیوروکریٹ طارق محمود کی آٹوبائیوگرافی کے کچھ ابواب پڑھے تو پتہ چلا تھا کہ مسودہ سنگ میل کے جناب افضال احمد صاحب پاس رکھا تھا تو ان کے پیچھے لگ گیا کہ مہربانی فرمائیں چھاپیں۔ ان کی مہربانی کہ ایک اتنی اچھی اور خوبصورت سرگزشت (دام خیال) کو چھاپا۔
خیر ابتدا میں ہی اچھا لٹریچر پڑھ لینے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ پھر باقی برسوں میں آپ اس معیار پر ہر تحریر یا کتاب کو پرکھنا شروع کر دیتے ہیں اور اکثر مایوس ہوتے ہیں۔ ادبی رسالوں کا بھی یہی حال رہا۔ میں نے نقوش کو پڑھا اور پرانے شمارے ڈھونڈ کر پڑھے تو وہی میعار ٹھہرا۔ محمد طفیل صاحب کے اس ادبی شمارے کے معیار کو ہندوستان پاکستان کا کوئی اور رسالہ نہ چھو سکا۔ اگرچہ اس کے بعد "سویرا" کو اس مقام پر رکھا جاسکتا ہے۔ حنیف رامے صاحب سے چوہدری نذیر سے سلیم الرحمن تک کی کاوشیں قابل دید ہیں۔ سویرا بھی اپنی جگہ ایک کلاسک کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے پرانے شمارے بھی ڈھونڈ کر خریدے اور پڑھے۔
اگرچہ ہندوستان میں جوش صاحب بھی رسالہ ایڈٹ کرتے رہے، کراچی سے نیا دور جیسے رسالے بھی نکلے، لاہور سے اوراق، فنون نے بھی اپنی جگہ بنائی لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی والا حساب تھا۔ اس لیے میرے لیے نقوش ہی ہمیشہ پسندیدہ ادبی رسالہ رہا۔ ادبیات اکیڈمی بھی اپنا رسالہ نکالتی تھی۔ شاید اب بھی نکلتا ہوگا۔ پھر ہندوستان سے اشعر نجمی صاحب کے اثبات کے کچھ شمارے پڑھے تو اش اش کر اٹھے۔
لیکن پھر جب رسالوں کے پبلشرز، ادیب اور شاعر لڑائی جھگڑوں میں پڑ جائیں تو پھر قاری اکتا جاتا ہے۔
خیر اب چند دن پہلے لاہور سے عطاالحق قاسمی صاحب نے معاصر کا دوبارہ اجرا کیا۔ انہوں نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا "یہ دور ادبی مجلوں کے آخری دنوں کا دور ہے" تو دل جیسے مٹھی میں آگیا ہو۔ ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد اور ان کی ٹیم نے پیلھوں نکالا۔ کچھ عرصہ ہمت کی لیکن کب تک۔ وہی بات ایک ایک کرکے سب بھاری پتھر چوم کر واپس زمین پر رکھتے گئے۔ جہلم سے مشہور شاعر نصیر احمد ناصر کی ادارت میں اساطیر نے بھی نام کمایا۔ بک کارنر والے اسے چھاپتے ہیں۔
اس سے پہلے سب رنگ بند ہوا اور شکیل عادل زادہ سے ایک ملاقات جس میں سابق وفاقی سیکرٹری ظفر محمود بھی تھے سے پوچھا دوبارہ کب شروع کریں گے؟
کچھ دیر خاموش رہنے بعد جواب دیا تھا کہ سب رنگ تو دوبارہ شروع کروں لیکن کہانی کہاں سے لائیں۔ مطلب تھا کہ کہانیاں لکھنے والے ٹر گئے ہیں۔ نئی کہانی کوئی نہیں لکھ رہا۔
یاد آیا یہ گلہ شکوہ شکایت بہت پرانا ہے۔ نقوش کے ایک 1950 کی دہائی کے کسی سال کے ادارتی نوٹ میں طفیل صاحب نے بھی یہ گلہ کیا تھا کہ اچھی کہانی نہیں لکھی جارہی۔ اندازہ کریں یہ وہ دور تھا جسے ہم اردو ادب کا سنہری دور کہتے ہیں جب ہندوستان پاکستان میں بڑے ادیبوں کا راج تھا۔ لیکن پتہ نہیں ہر دور میں ہمیں لگتا ہے اچھی کہانی نہیں لکھی جارہی یا ادب اور ادیب نہیں رہے۔
خیر اس دور میں جب ادبی رسالے بند ہورہے ہیں عطا الحق قاسمی نے دوبارہ اجرا کیا ہے۔ مجھے کہنے دیں کہ کیا ہی خوبصورت اجرا کیا ہے۔ میں نے بھی یہی سوچ کر پڑھنا شروع کیا کہ اب بھلا کیا پڑھنے کو رہ گیا ہے۔ تکلیف کرتے ہیں کہ قسم کھانے کے لیے ہے سہی کہ جناب میں نے اگر پڑھا نہیں تو کھول کر ضرور دیکھا تھا۔
لیکن یقین کریں پڑھنا شروع کیا تو ایک ہی نشست میں چار پانچ تحریریں پڑھ گیا اور ان کا لطف ابھی تک سر پر سوار ہے۔ سب سے پہلے تو اصغر ندیم سید کا کمال احمد رضوی
پر لکھا گیا خاکہ دل کو چھو گیا۔ اصغر ندیم سید نے جو خاکوں کی کتاب فلک پھرتا ہے برسوں لکھی وہ اپنی جگہ کلاسک ہے۔ وہ خاکے بھی کمال ہیں بلکہ لاہور کی پچاس سالہ ادبی سیاسی کلچرل تاریخ پڑھنی ہو تو وہ خاکے پڑھ لے۔ لیکن اس الن والے خاکے میں شاہ جی موضوع سے ہٹ کر کچھ جلالی کیفیت میں لگے اور شدید غصے میں لکھا۔ اگر وہ احمد بشیر صاحب/اشفاق احمد/بانو قدسیہ والے ایشو کا غصہ الگ سے نکالتے تو کمال رضوی ساتھ پورا انصاف ہوتا۔
کمال رضوی کی شخصیت کے غیرمعمولی پہلو پڑھ کر کچھ حیرانی اور کچھ داد دینے کو دل کیا۔ (جی یہ وہی الن ننھا جوڑی والے ہیں)۔ ڈاکٹر انوار احمد کی حشمت وفا کی بیٹی پر لکھی تحریر دل کو اداس کر گئی تو قاسمی صاحب کا شعیب بن عزیز پرلکھا گیا خوبصورت مضمون دل کو گرما گیا۔ شعیب بن عزیز بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ بہت اعلی نسل کے مترجم ہیں اور انہوں نے ہی جنرل ایوب کے دس سال کا شاندار ترجمہ کیا۔ کیا خوب کتاب ہے۔ لیکن اپنا نام انہوں نے ساتھ نہیں دیا۔ جس طرح ایک اخبار والے نے اشتہار نہ ملنے پر ان کے مشہور زمانہ شعر "اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں" ساتھ بابا بنگالی کا اشتہار لگا کر جو حشر کیا اس پر آپ ہنسے بغیر نہیں رہ سکتے۔ میرے جیسے لوگ شعیب بن عزیز کی شخصیت کے چند خوبصورت پہلو سے معتارف ہوئے۔ ان کی میزبانی والی خوبی کا اب علم ہوا کہ منصور آفاق جیسے دوست بھی ایک سال گھر میں رہے۔
ابھی اس شمارے میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔ وجاہت مسعود کی جادو بھری تحریر اور میرے پسندیدہ نوجوان مزاح نگار گل نوخیز اختر ہوں اور دیگر کو ابھی پڑھنے لگا ہوں۔ استاد محترم ڈاکٹر نجیب جمال کو ابھی پڑھنا ہے۔ علی تنہا کا افسانہ رام پور کے شکرے رہتا ہے۔ نعیم بھائی علی تنہا کے افسانوں کے گرویدہ تھے۔
عرصے بعد لگا واقعی ایک ادبی رسالہ پڑھ رہا ہوں۔ اتنا ادبی مواد اور وہ بھی شاندار مواد جو آپ کو اپنی طرف کھینچے اور پڑھنے پر مجبور کرے۔
پھر یہ فقرہ پڑھ کر دل اداس ہوگیا کہ یہ دور ادبی مجلوں کا آخری دور ہے۔ جن کی قید میں وہ شہزادی یاد آئی جو ایک آدم ذاد کو دیکھ کر پہلے مسکرائی پھر روئی تھی۔ پوچھنے پر کہا تھا مسکرائی اس لیے کہ بڑی مدت بعد کسی انسان کو دیکھا، روئی اس لیے کہ ابھی جن آکر تمہیں کھا جائے گا۔
اپنا بھی وہی حشر ہوا کہ اتنا اچھا ادبی رسالہ دیکھ کر دل خوش ہوا لیکن ساتھ اداس ہوا کہ ہمارے ادب اور رسالوں کو بھی دھیرے دھیرے سوشل میڈیا کا جن کھا رہا ہے یا کھا چکا ہے۔ لیکن عطاالحق قاسمی صاحب کے معاصر کے اس شمارے کو دیکھ کر کچھ امید بندھی ہے کہ شاید ابھی کچھ لوگ آخری مزاحمت کررہے ہیں۔ انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ کہانی لکھی جارہی ہے، ادیب اور شاعر ابھی بھی لکھ رہے ہیں۔ میرا اپنا ماننا ہے کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ انسان صدیوں سے قصے کہانیاں سنتا اور سناتا آیا ہے۔ اس شوق اور جنون کو کوئی جن نہیں کھا سکے گا۔ صرف کہانیاں سنانے یا سننے کاانداز بدلتا رہے گا۔
اگر عطاالحق قاسمی چند مزید اسی معیار کے شمارے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین کریں ادبی رسالوں کے اس آخری دور کو کچھ عرصے تک ٹالا جاسکتا ہے۔ اس طوفانی یلغار کے سامنے بند باندھا جاسکتا ہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔