Wednesday, 19 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Rauf Klasra
    4. Kitab Na Bikne Ka Purana Rona Dhona

    Kitab Na Bikne Ka Purana Rona Dhona

    اب ایک یہ بھی فیشن بن گیا ہے کہ مسلسل گلہ کرنا کہ لوگ اب کتابیں نہیں پڑھتے۔ کتابیں بکنا کم ہوگئی ہیں۔ واقعی ایسا ہے یا جان بوجھ کر یہ بات کی جاتی ہے۔ حیران ہوتا ہوں پہلے کون سی کتابوں کا پہلا ایڈیشن ایک لاکھ کا چھپتا تھا اور اب ایک ہزار کا چھپتا ہے؟ میں نے تو پچاس سال پہلے کی کتابوں پر بھی ایک ہزار کا ایڈیشن چھپا ہوا پڑھا ہے۔ اب بھی ایک ہزار (اکثر پبلشرز انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے یہ حرکت کرتے ہیں)۔

    مان لیا وقت آبادی کم تھی اور لٹریرسی لیول بھی کم تھا۔ یقیناََ ایساہوگا۔

    لیکن جنہوں نے کتاب پڑھنی ہوتی ہے وہ پڑھیں گے چاہے انہیں کتنی تکلیف یا مشکل کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ لیکن کیا سارا قصور قاری کا ہے یا کچھ ادیب اور پبلشرز بھی اس کے ذمہ دار ہیں؟ اگر آپ اچھی اور معیاری کتاب نہیں چھاپیں گے تو لوگ کیوں خریدیں گے یا آپ لوگوں سے پیسے لے کر ان کی کتابیں چھاپ کر توقع کریں گے کہ اب پوری دنیا اس پر ٹوٹ پڑے گی تو پھر آپ کی غلط فہمی ہے۔

    اکثر پبلشرز ایسی ایسی کتابیں چھاپتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے اور اپنا نام اور ساکھ خراب کرتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے فلاں نے چھپوانے کے پیسے دیے تھے۔ مجھے بتائیں ایسی کتاب کون خریدے گا؟

    پبلشرز پہلے ہی صاحب کتاب سے اپنا خرچہ پورا کر چکا ہوتا ہے اور پھر وہ مسکین منہ بنا کر کہے گا ہن او گلاں نئیں رہیاں۔ اگر کتاب نہیں بکتی تو پھر وہ یہ کاروبار کیوں کررہے ہیں؟ کون برسوں تک اپنا نقصان کرتا ہے۔ کچھ نہ کچھ منافع ہو رہا ہے تو آپ کاروبار کررہے ہیں۔ جو بڑے نام ہیں جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں ان کی کی کتابیں آج بھی دھڑا دھڑ بکتی ہیں۔ یہ سب content کا کھیل ہے۔ content is king.

    یہ بات ادیب شاعر یا لکھاری اور اس سے بڑھ کر پبلشرز سمجھیں گے تو ہی بات بنے گی۔ اگر لوگ سب رنگ رسالے کے چھپنے کا تین تین سال تک کا انتظار کرتے تھے تو اندازہ لگا لیں کہ content and quality کتنی اہم ہے۔ اس وقت 1970-80 کی دہائی میں یہ رسالہ تین لاکھ تک چھپتا تھا۔ اس وقت بھی آبادی اور لٹریرسی لیول آج سے بہت کم تھا۔ پھر لوگ کیوں سب رنگ کے دیوانے تھے۔ تین سال کون انتظار کرتا ہے؟ آج بھی اچھے ادیب اور کتابیں پڑھی جاتی ہیں اس لیے پبلشرز چھاپتے ہیں۔ اگر کچھ پبلشرز نے محض یہ پراپگنڈہ کرتے رہنا ہے کہ کتاب نہیں بکتی تو وہ اپنے معیار پر توجہ دیں اور پیسے لے کر چھاپنے والے ڈرامے بند کریں۔

    علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایک دفعہ شاہد صدیقی صاحب نے کتب فروش کا مکالمہ کرایا تھا۔ اس میں دو تین بڑے پبلشرز نے بڑی خوبصورت بات کی تھی جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کتاب کیوں نہیں بکتی؟

    انہوں نے جواب دیا تھا اگر کتاب نہ بک رہی ہوتی تو ہم کتابیں نہ چھاپ رہے ہوتے اور نہ یہاں بیٹھے ہوتے۔

    آپ اپنا معیار بہتر کریں، لوگ پھر سب رنگ کی طرح تین سال بھی آپ کے ادارے سے چھپنے والی کتاب کا انتظار کریں گے۔ روتے بھی رہنا ہے اور کتاب بھی چھاپتے رہنا ہے لیکن یہ کہنا بھی نہیں بھولنا کہ کتاب نہیں بک رہی۔

    لاہور میلے میں بک کارنر، سنگ میل اور ریڈنگز پر تو رش تھا۔ آپ کے ہاں کیوں نہیں ہے۔ کچھ تو ایسا تو ہے جو وہ کررہے ہیں اور آپ سے نہیں ہو پا رہا تو آپ شکایت کر رہے ہیں۔ آپ اپنی نیت ٹھیک کریں۔ یا پھر آپ ادیب کی رائلٹی نہیں دینا چاہتے اور مسلسل روتے رہتے ہیں۔ کچھ ایمانداری دکھائیں۔ بانٹ کر کھائیں۔

    قصور قاری کا نہیں، آپ کا ہے کہ آپ انہیں مجبور نہیں کر پارہے کہ وہ آپ کے ادارے کی چھپی ہوئی کتاب دیکھے اور اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے بٹوے کی طرف نہ بڑھے۔

    اگر اس کا ہاتھ نہیں بڑھا تو قصور ادیب اور پبلشرز کا ہے، قاری کا نہیں ہے۔

    About Rauf Klasra

    Rauf Klasra

    Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.