Friday, 14 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Rauf Klasra
  4. Nirale Log, Nirali Kahanian

Nirale Log, Nirali Kahanian

یہ کتاب میں برسوں سے لکھنا چاہ رہا تھا۔ ابھی سے بتا دوں کہ اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی لکھا جائے گا اور بہت جلد۔ اس کتاب کے سب کردار ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہیں، میرے ساتھ جاگتے اور سوتے ہیں۔ یہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں پکایا گیا۔ یہ سب جیتے جاگتے کردار ہیں جو مجھے زندگی میں ملے، جن سے میں نے کچھ سیکھا یا جو مجھے سکھا گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی باتوں نے میری زندگی بدلی یا میرے سوچنے کا انداز بدلا۔

بڑے لوگوں کی کہانیاں سب لکھتے ہیں لیکن مجھے عام لوگوں کی کہانیاں لکھنے اور سننے کا شوق ہے۔ لندن سے برطانوی ادیب جیفری آرچر کے افسانوں کی کتاب لی تھی۔ اس نے دیباچے میں لکھا تھا، اس کتاب میں سب کہانیاں سچی ہیں۔ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی گیا وہاں کے ریسٹورنٹس اور ہوٹلز میں ہر طرف کہانیاں بکھری پڑی تھیں۔ وہ ان لوگوں کو سنتا رہتا تھا اور پھر اس نے وہ کہانیاں لکھیں۔

لیکن مجھے جیفری آرچر کی طرح کہیں نہیں جانا پڑا کہ میں وہ کہانیاں تلاش کرتا اور انھیں لکھتا۔ ان سب کہانیوں کا میں خود بھی ایک کردار ہوں۔ یہ سب لوگ مجھے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ملے۔ کچھ مجھے شرمندہ کر گئے یا پھر پہلے سے زیادہ سمجھدار۔ میں نے ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔

میری اَمر شاہد سے بات ہورہی تھی۔ میں نے کہا کئی ایسی کہانیاں بھی میں نے لکھی ہیں، جنھیں لکھتے ہوئے میری اپنی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ اگر لکھاری وہ دُکھ درد محسوس نہیں کرتا تو اس کے قاری پر بھی وہ اثر نہیں ہوگا۔ اگر آپ کے لکھتے وقت آنسو گرے ہیں تو تسلی رکھیں ان آنسوؤں کا قاری پر بھی اثر ہوگا۔ ان سب کہانیوں کا مجھ پر اثر ہوا ہے اور بہت گہرا ہوا ہے۔

میں نے ایک دن بیٹھ کران سب عام کرداروں کی فہرست بنائی جن پر میں لکھنا چاہتا تھا۔ روز بروز وہ فہرست لمبی ہوتی گئی۔ میں ڈر گیا۔ وہ سب انسانی کردار غیرمعمولی کردار اور سوچ کے مالک تھے۔ میں کتنا خوش نصیب تھا۔

کچھ واقعات ایسے ہیں جن پر میں آج تک شرمندہ ہوں کہ یہ میں نے کیا حرکت کی تھی۔ ایک ایسی حرکت جو میں نے نادانستگی میں 1986ء میں کی تھی، اس کا احساس چالیس سال بعد بھی دل سے نہیں جاتا۔

میں نے شاندار سندھی اداکار مرحوم گلاب چانڈیو سے سیکھا تھا کہ آپ جتنا چاہے مشہور ہو جائیں تب بھی آپ نے عام انسان کو کیسے عزت دینی ہے یا اسلام آباد چڑیا گھر کے ایک مہاوت نے کتنی آسانی سے مجھے سمجھدار، بےوقوف اور بہادر کے درمیان فرق کو سمجھا دیا تھا۔

ڈان لاہور کے مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر ظفر اقبال مرزا (ZIM)کی کہانی آپ کو انسانی تقدیر پر ایمان لانے پر مجبور کر دے گی کہ بعض دفعہ ایک انسان آپ کی قسمت کو کیسے بدل دیتا ہے۔ جب آپ مایوس ہو کر ایک دروازے سے باہر یہ سوچ کر نکلتے ہیں کہ آپ پر زندگی کے سب دروازے بند ہوگئے ہیں تو اسی لمحے ایک اور ہاتھ آپ کو تھام لیتا ہے۔

ملتان کے اس ہیڈ ماسٹر کی کہانی بھی آپ کے دلوں کو گرمائے گی جو اپنے سکول میں صرف قابل اور ذہین بچوں کو پڑھانا چاہتا تھا اور ایک دن میرا اُس سے ٹاکرا ہوگیا جب اس نے میرے ایک دوست کے بیٹے کو سکول سے نکال دیا تھا۔

ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم کی کہانی تو آپ کو ایک اور جہاں میں لے جائے گی۔ ایک ایسا انسان جو ایک اجنبی نوجوان کی ضمانت کرانے کے لیے اپنی جوان بیٹی کو ضامن کے طور پر عدالت میں لے گیا تھا۔ دونوں باپ بیٹی اس نوجوان سے کبھی نہ ملے تھے، نہ ضمانت سے پہلے، نہ اس کے بعد۔ اس نوجوان کی پورے شہر میں کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پتا چلا تو اپنی بیٹی کو ضامن کے طور پر عدالت میں پیش کر دیا تھا۔ ایک ایسا واقعہ جو میرے دل سے نہیں اترتا اور اس دن مجھے پتا چلا تھا کہ انگریزی لفظ honorable کا اصل مطلب کیا تھا اور ایسے لوگ کون اور کس کردار کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے انسان آپ کو زندگی میں بس ایک دفعہ ملتے ہیں، وہ ڈاکٹر ظفر الطاف ہوں، نعیم بھائی ہوں یا ہمارے لیہ کا راجپوت مرحوم رانا اعجاز محمود ہوں۔ ان تینوں سے، جو اَب دنیا میں نہیں رہے، میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان کابہت اثر لیا۔

سول بیوروکریٹ محمد ابراہیم جنید، جو ڈیرہ غازی خان میں ڈپٹی کمشنر رہے، کی ڈائری سے جو چند اوراق میں نے چرائے ہیں وہ پڑھ کر آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ دو واقعات تو ایسے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ دہل جائیں گے کہ کیا سگی اولاد بھی آپ کی نہیں ہے۔ آپ کا ایمان سب رشتوں سے اٹھ جاتا ہے اور پھر اس ڈپٹی کمشنر نے اپنی نوکری داؤ پر لگانے کا فیصلہ کیا کہ وہ بچوں کے ہاتھوں ہرٹ باپ کو اس کے طاقتور عہدے پر بحال کرے گا تاکہ ان رشتوں سے انسانی اعتبار بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواب صادق قریشی نے 1970ء کی دہائی میں جس طرح ملتان کے ڈپٹی کمشنر سے ان کو کیے گئے انکار کا بدلہ لیا تھا، وہ آپ کو ششدر کر دے گا۔ ایک حکمران اور بیوروکریٹ کی اَنا کی جنگ کا انجام آپ کو یقیناً پسند آئے گا۔

میں نے ایک انڈین ارب پتی بزنس مین کی کہانی پڑھی تھی جو تقسیم کے وقت یہاں پاکستان سے بھارت گیا تھا۔ اس سے پوچھا گیا، "اس ہجرت نے آپ کو کیا نقصان دیا تھا؟" اس کا جواب بھی آپ کو بڑے عرصے تک یاد رہے گا۔

سرائیکی علاقوں سے تقسیم کے وقت ہجرت کرکے بھارت جانے والی اَسّی سالہ ماں نے اپنے بیٹے کو کہا تھا، "بیٹا تم چاہتے ہو کہ میں سکون سے مر سکوں تو میری ایک خواہش پوری کرو۔ پاکستان سے کوئی بندہ تلاش کرو جو مجھ سے ملتانی زبان میں گھنٹوں بات کرے تاکہ مرتے وقت میری روح کو سکون مل سکے۔ " کمال دیکھیں، تقدیر نے اس کام کے لیے مجھے چنا تھا۔ اپنے دلّی کے گھر میں بیٹھ کر جو دردناک کہانی اس ماں نے مجھے 2004ء کی ایک سرد شام سنائی تھی، اسے بیس سال بعد آج بھی یاد کرکے مجھے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ میں حیران ہوں تقدیر مجھے کیسے ہندوستان لے گئی تھی تاکہ میں اس ماں کی آخری خواہش پوری کرسکوں۔ مجھے کیسے اور کیونکر اس اماں کی خواہش کی تکمیل کے لیے چنا گیا تھا؟

1979ء میں بھٹو صاحب کی پھانسی سے قبل کی جانے والی آخری خواہش بھی آپ کو زندگی کا نیا رُخ دکھائے گی۔ بھٹو کی اس آخری خواہش کے بارے جان کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ موت کے سامنے بھی بعض لوگ اپنا وقار نہیں بھولتے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے چودہ برس بعد اس آخری خواہش کا میری اپنی زندگی سے گہرا تعلق نکل آیا تھا۔

1995ء میں مجھے اجے دیوگن اور نصیرالدین شاہ کی فلم "ناجائز" کے ایک سین نے بھی ہمیشہ کے لیے بدل دیا تھا۔ میں واہ واہ اور بلے بلے جیسے الفاظ اور داد سے بے نیاز ہوگیا تھا۔

بات ایک سین سے شروع ہوئی تو پھر رومی، شمس تبریز اور طوائف کی کہانی آپ کے بدن میں سنسنی پیدا کردے گی۔ اس طوائف کی دردناک کہانی آپ کو اندر تک ہلا دے گی۔ رومی، شمس تبریز اور طوائف کی کہانی پڑھ کر آپ کو جسم میں سوئیاں سی چبھتی محسوس ہوتی ہیں۔ ان تین کرداروں نے بھی میری روح اور سوچ پر گہرا اثر ڈالا۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ بعض کردار اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ آٹھ سو سال بعد بھی وہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

مجھے نہیں پتا، آپ بلوچستان کی ان پانچ لڑکیوں کی دردناک کہانی پڑھ کر کیسے سو سکیں گے جنھیں ایک دن صحرا میں زندہ درگور کر دیا گیا۔ ان کا دردناک انجام سوچ کرکبھی کبھار میرے دل میں درد سا اٹھتا ہے۔ وہ معصوم روحیں جنھیں ان کے اپنوں نے ہی تپتے صحرا میں زندہ دفن کر دیا تھا۔ ان کا قصور جان کر آپ بھی کئی دن تک بے چین رہیں گے۔ ایسے انسان سے بڑا درندہ کون ہوگا جو اپنے ہی بچوں کو کھا جائے۔ میرے لیے بلوچستان کی ان پانچ معصوموں کی کہانی لکھنا سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔

میرے گاؤں کے کالو قصائی کی سچی کہانی بھی آپ کو اس بات پر یقین دلائے گی کہ انسانی کردار اور عزتِ نفس کا غربت یا امارت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عظیم انسانی کردار کالو قصائی جیسے ایک مزدور میں بھی ہوسکتا ہے۔ ایک غریب بھی امیر انسان سے کردار میں بڑا ہو سکتا ہے اور کالو قصائی وہ کردار تھا جس سے میں آج تک متاثر ہوں۔

بات متاثر ہونے کی نکلی ہے تو پھر آپ اس کتاب کے سرورق کے ہیرو کی کہانی پڑھیں۔ اگر آپ اس کی کہانی پڑھ کر اپنے آنسو روک سکیں یا احتراماً کھڑے نہ ہوں، تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ ایک باپ کی اپنی چار بچیوں کے لیے دی گئی قربانی، آپ کو اس کے کردار کی عظمت کا قائل کر دے گی کہ بعض دفعہ درندوں کی بستی میں انسان بھی مل جاتے ہیں۔

اس کتاب میں ہیروز اور ولن دونوں قید ہیں جو آپ کے ساتھ اپنی سنسنی خیز کہانیاں شیئر کرنے کو بےچین ہیں۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.