آج کل سوشل میڈیا پر میرے سرائیکی بھائی ایک دفعہ پھر بڑے غصے میں ہیں۔ اب یہ مستقل فیچر بن چکا ہے کہ کچھ عرصہ بعد سوشل میڈیا پر ہمارے سرائیکی اور پنجابی بھائیوں کا ایک بڑا دنگل لگتا ہے۔
ہمارا کوئی نہ کوئی پنجابی دوست غصے میں سرائیکیوں کو سرائیکی ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے۔ کچھ تو گالیاں دیتے ہیں تو کچھ مبینہ طور پر پڑھے لکھے طعنے تو بعض بڑے تضحیک آمیز جملے بھی کستے ہیں، گھٹیا جملوں سے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شناخت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ نہ وہ ان کی زبان مانتے ہیں نہ ان کا کلچر۔
جواباََ ہمارے سرائیکی چھت کو جا لگتے ہیں اور اپنے تئیں بھرپور کمپین چلاتے ہیں کہ آج ان کا نام اور زبان خطرے میں ہے، پھر لمبا چوڑا دنگل ہوتا ہے۔ پھر خاموشی اور پھر کچھ عرصہ بعد پھر بھڑکیں شروع۔
مجھے آج تک اپنے سرائیکی بھائیوں کی سمجھ نہیں آئی کہ لفظ سرائیکی تو اب مردم شماری میں شامل ہے، بقول آپ کے اقوام متحدہ تک کی زبانوں میں شامل ہے، پارلیمنٹ تک کی دستاویزات میں آپ اب الگ قوم اور زبان تسلیم کیے جاتے ہیں، انڈیا تک میں جو یہاں سے ہجرت کرکے جانے والے خود کو فخر سے سرائیکی کہتے ہیں، کئی یوٹیوب چینل انڈیا میں سرائیکیوں نے بنا رکھے ہیں لیکن ہمارے ابھی تک سرائیکیوں کو خود پر شک ہے۔ وہ ابھی بھی جواز تلاش کررہے ہیں، وضاحتیں دے رہے ہیں اور وہ اس پرانی بحث میں پڑے ہیں۔ میرا خیال تھا یہ بحث 1970/1980/1990 کی دہائی میں ہو کر کب کی ختم ہوچکی۔
اگر ہمارے کچھ دوست ہماری سرائیکی زبان یا ہماری شناخت پر سوالات اٹھاتے ہیں تو آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ کیوں ان پنجابی دوستوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں؟ ان کی اپنی الگ ایک رائے ہے اور انہیں اظہار کرنے دیں اگر وہ آپ سرائیکی نہیں مانتے۔ کیا ان دوستوں کے نہ ماننے سے آپ مان لیں گے کہ آپ سرائیکی نہیں ہیں؟
ہر قوم کو اپنے علاقے کی حاکمیت یا سلطنت سے پیار اور محبت ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے لندن گولڈ اسمتھ کالج کی Literature colonialism کی کلاس میں ہماری خوبصورت گوری ٹیچر انگریز بچوں کے لیے ٹرم استمعال کرتی تھیں کہ وہ ابھی بھی colonial hangover کا شکار ہیں۔ ان میں احساس برتری ختم نہیں ہورہا کہ وہ کبھی ایسی سلطنت کے حاکم تھے جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ انہیں ہندوستان جیسی بڑی سلطنت کو چھوڑ آنا آج تک ہضم نہیں ہوا۔ باقی کو چھوڑیں خود وزیراعظم چرچل کتنی دیر افسردہ رہا کہ ان کے ہاتھ سے ہندوستان نکل گیا تھا۔
میرے سرائیکی بھائی زرا اپنی توپوں سے گولہ باری روکیں۔ آپ کو کسی پر کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مجھ سے ایک دوست نے کہا تم تاریخی حوالوں سے ثابت کرو کہ تم سرائیکی ہو۔
میں نے کہا مجھے آپ سے سرٹیفکٹ لینے کی کیا ضرورت ہے، میں خود کو سمجھتا ہوں۔ اتنا کافی ہے۔ اپنی شناخت یا زبان کا فیصلہ میں نے کرنا ہے آپ نے نہیں۔ آپ اپنا فیصلہ بھی خود کرتے ہیں کہ آپ کی شناخت یا زبان کیا ہے اور میری شناخت اور زبان کا فیصلہ بھی آپ کرنا چاہتے ہیں۔
باقی کوئی بھی فارم بھر کر پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے کس جگہ، کب، کہاں، کون سا مذہب یا علاقہ یا زبان یا رنگ لے کر پیدا ہونا ہے۔ یہ قدرت فیصلے کرتی ہے اور ہم زمین پر اپنی اپنی عدالتیں لگا لیتے ہیں۔ سرائیکی دوستوں سے گزارش ہے جو ایشوز تیس چالیس سال پہلے سیٹل ہوچکا ہے اس پر دوبارہ نہ شروع ہو جائیں۔ آپ اپنے ناقدین کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس فضول بحث کا حصہ بن کر آپ ان کا کام آسان کررہے ہیں۔ کچھ سمجھ کا مظاہرہ آپ بھی کر لیا کریں۔ جو آپ کو سرائیکی نہیں سمجھتے اس سے آپ کو کیا فرق پڑنا ہے؟ کیا آپ نے اپنی رائے بدل لینی ہے۔ انسان خود کو جو سمجھتا ہے وہ آپ کی اصل شناخت ہوتی ہے۔ کوئی مجھے کیا سمجھتا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہاں مجھے اس سے فرق پڑتا ہے کہ میں خود کو کیا سمجھتا ہوں۔
شاید جو سرائیکی جوابی گولہ باری کررہے ہیں اور اندھا دھند شروع ہوگئے ہیں انہیں دوسروں سے اپنا سرٹیفیکٹ لینا ہے۔