Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Roshan Malik

Roshan Malik

روشن ملک میرا ملتانی دوست ہے بلکہ یوں کہہ لیں 1994 سے دوستی ہے۔ دوستی کیا ہے یوں کہہ لیں ملتان میں ان کا گھر میرا اپنا گھر تھا۔ ملتان کی گرم راتوں میں رات گئے روشن ملک کے گھر پر ہم دوستوں کی محفل جمتی۔ روشن کی اماں مزے کی دال بناتیں اور اوپر سے گرم گرم تندور کی روٹیاں اور پھر چائے کے دور۔ ہر روز یہی مینو ہوتا کہ ہم سب دال کے شوقین ہوتے۔ گھر سے کچھ اور بھی پک کر باہر آتا تو بھی میری فرمائش دال ہی ہوتی۔

رات سے پہلے شام کو سرسبز لان میں separate چائے کا اپنا مزہ تھا۔ خوبصورت ملتانی رنگوں میں بنی رنگدار ٹکوزی میں ڈھکی چینک ساتھ چائے کی پیالیوں میں روشن ملک پہلے تو کچھ دیر دم دینے بعد ٹکوزی ہٹاتا۔ چینک سے گرم بھاپ نکلتی۔ روشن ملک چینی کا ایک چمچ چائے کے اس ابلتے قہوے میں ملا کر اپنے کنوارے ہاتھوں سے ہلاتا۔ پھر اس قہوے کو پیالیوں میں ڈال کر ان میں گرم گرم دودھ انڈیل کر ہم سب کو پوری عزت اور احترام ساتھ پیش کرتا تو اس چائے کی خوشبو اور ذائقہ پورے بارہ گھنٹے دل و دماغ پر سوار رہتا۔

ایسی چائے پھر ہمارے مرحوم دوست ذوالفکل بخاری کے گھر بنتی تھی یا پھر اپنے سسرال میں شادی سے پہلے پی تھی۔ (آج بھی کبھی کبھار بیگم صاحبہ کا موڈ ہو تو وہ بناتی ہیں)۔

روشن کے والد صاحب کمال روایتی اور مروت بھرے انسان تھے۔ یہ پانچ بھائی تھے۔ بہن کوئی نہ تھی لہذا سب دوستوں کا گھر تھا جس کا بے دھڑک جب دل کرے جا ٹپکے۔ گھریلو ملازم ناجہ ہر وقت میزبانی کو تیار۔

روایتی ملتانی حویلی میں رنگدار چارپائیاں رکھی ہوتیں۔ خوبصورت تکیے سرہانے تو رنگیلے کھیس قدموں کی طرف ترتیب سے رکھے ہوتے۔ ملازمین نے صفائی بعد گرمیوں میں پانی کا فرش پر ترکائو کیا ہوتا۔ ساتھ صاف ستھرا باغ پھر سبز لان اور پھر ہم دوستوں کی رات گئے تک محفلیں۔

اس دور میں جتنی مروت اور عزت اس گھر میں ملی وہ ساری عمر ساتھ رہی۔ مہمان نوازی تو اس گھرانے پر بس تھی۔ ہر بھائی کے اپنے اپنے دوست اور اپنی اپنی محفلیں۔ وہاں ہر وقت رونق میلہ لگا رہتا تھا۔

ایک دفعہ ملتان میں میرا رہائش کا مسئلہ بنا تو روشن ملک ایک شام اپنے گھر لے گیا۔ ایک خوبصورت کمرے کا دروازہ کھول کر کہا سوہنڑا اب یہاں رہا کرو۔ اپنا گھر سمجھو۔ ہم پانچ نہیں چھ بھائی۔

روشن ملک ہی تھا جس نے مجھے تحریک دی تھی کہ جنرلزم کرنی ہے تو ملتان چھوڑ کر اسلام آباد کا رخ کروں۔ پہلی دفعہ سوچا واقعی۔۔ ورنہ بڑے بڑے نیک لوگ تو پوری دنیا سے ملتان آن بسے تھے۔ ملتان اور ملتانی دوست بھلا کون کافر چھوڑتا۔

میرے بعد روشن خود ملتان سے اسلام آباد شفٹ ہوا۔ ہم دونوں اکھٹے اسلام آباد رہے اور پھر روشن امریکہ 2005 میں شفٹ ہوا۔۔

روشن ایک با کمال انسان ہے۔ اس سے بھی ایک زندگی کا اہم سبق سیکھا جو عمر بھر کام آیا۔ روشن ملک پر پورا ایک باب میری نئی کتاب میں شامل ہے جو ان تیس غیر معمولی کرداروں پر مشتمل ہے جنہوں نے میری زندگی پر اثر چھوڑے۔ جن سے میں نے کچھ سیکھا۔ جن سے متاثر ہوا۔

روشن امریکہ سے آیا ہوا تھا۔ ساتھ میں بھائی شاہ رخ اور ہمارا دوست غضفر بھی تھا۔ جنید مہار اور لالہ عشرت ساتھ گپیں ماریں۔ روشن جیسے بہت کم ہوں گے جنہیں میں نے اپنی نئی کتب "جونا گڑھ کا قاضی، دکن کا مولوی" خود پیش کی اور دل خوش ہوا۔

ایک بے لوث انسان۔ ایک ایسا گھرانہ جنہوں نے ہمیشہ فیض بانٹا۔ خیر تقسیم کی۔

جو لوگ روشن ملک کو جانتے ہیں وہ گواہی دیں گے وہ صرف نام کا نہیں دل و دماغ کا بھی روشن ہے۔۔ روشن ملک جیسے دوست بھی ایک نعمت خداوندی سے کم نہیں ہوتے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.