Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Saeed Books Ka Hangama

Saeed Books Ka Hangama

میرے ایک کولیگ کہا کرتے تھے ہر ٹی وی شو یہ سوچ کر کیا کریں آج رات اس میں سے کسی کی لاش (محاورتا) نکال کر ناظرین کو پکڑانی ہے۔ جس شو سے کسی سیاستدان یا حکمران یا کسی بڑے بندے کی لاش (دھلائی) نکلے گی وہی کامیاب ہوگا۔ ریٹنگز لے گا۔

یہی حال سوشل میڈیا کا ہوچکا ہے یہاں بھی روز کسی کی لاش چاہئے۔ ہمیں پھڑکتا ہوا موضوع چاہئے۔ کوئی بندہ چاہئے جس کی کھل کر ہم دھلائی کر سکیں۔ لما پا سکیں۔ سارے دن کا اپنا غصہ نکال سکیں۔ اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھ سکیں۔ اپنی فرسٹریشن نکال سکیں۔ چاہے ہم ان ایشوز کے کرداروں کو جانتے ہیں یا نہیں ہمیں غرض نہیں ہے۔ بس لاش درکار ہے کہ کون سب سے زیادہ ٹھکائی کر سکتا ہے۔

میں سب پروفیشنلز کی عزت کرتا ہوں لیکن جو پروفیشن میرے دل کے قریب ہیں ان میں کتابیں چھاپنے اور کتابیں بیچنےوالے زیادہ اہم لوگ ہیں۔ میں نے لندن امریکہ انڈیا کے بکس اسٹورز سے انار کلی کے فٹ پاتھ تک سب جگہ خریدی ہیں۔

میں نے مسٹر بکس کے یوسف بھائی مرحوم اور سعید بکس کے احمد کو قریب سے دیکھا ہوا ہے۔ برسوں سے دعا سلام ہے کیونکہ میرا وہاں ہفتے میں دو نہیں تو ایک دن جانا ضرور ہوتا ہے۔ یوسف بھائی سوشل بندے تھے۔ وہ اپنے گاہکوں سے کتاب پر گپ شپ لگاتے اور ان کی ذاتی دوستیاں بن گئی تھیں۔ وہ گفتگو کا فن جانتے تھے۔

دوسری طرف احمد سعید introvert نوجوان ہے۔ کم گو ہے۔ سنجیدہ مزاج۔ احمد نے اپنی دکان میں ایسی ایسی کمال بکس لندن امریکہ یورپ سے ڈالروں پونڈز میں دے کر بحری جہازوں پر کینٹرز کا کرایہ دے کر منگوا رکھی ہیں کہ ممکن نہیں بک ریڈر کتاب لیے بغیر جائے چاہے کتنی مہنگی کیوں نہ ہو۔ سعید بکس اور مسٹر بکس پر غیرملکی سفارت کار یا انگریزی بکس پڑھنے والی اشرافیہ زیادہ جاتی ہے۔ حتی کہ اکثر جو باہر سے سربراہ ملکت پاکستان دورے پر آتے ہیں وہ اس سعید اسٹور پر ضرور جاتے ہیں۔

لندن میں مجھے خود برٹش فارن آفس کی ایک خاتون دوست نے بتایا تھا جیسی بکس سعید پر ملتی ہیں وہ لندن بھی نہیں ملتیں۔ وہ پاکستان جانے کا انتظار کرتی تھی کہ ایک تو کتابوں کی ورائٹی اور پھر اسے بہت سستی لگتی تھی۔ وجہ تھی وہ پونڈز سے روپے میں کنورٹ کرتی تو اسے لندن کی مہنگی کتاب یہاں چند سو روپوں کی لگتی تھی۔ نیویارک ٹائمز تک سعید بکس پر ریوز چھپے۔ ڈپلومیٹس یا انگریزی بکس پڑھنے والی اشرافیہ کتابوں کی قیمت پر بحث نہیں کرتی لہذا وہاں بک پر رعایت کا کلچر نہیں ہے۔ عام لوگ شاید ان کے ٹارگٹ بھی نہیں ہے۔

اوپر سے احمد سعید سوشل مزاج کا بندہ نہیں ہے لہذا اس سے کبھی کبھار شکایات ہوجاتی ہیں۔ وہ سیدھی بات کر دےگا جو دوسرے کو فطری طور پر تلخ لگتی ہے۔ سعید بکس عموما رعایت بھی نہیں کرتا جیسے میں لاہور ریڈنگز جائوں تو وہاں مجھے کوئی نہیں کرتا۔ ایک آدھ دفعہ ریڈنگز پر ریکوسٹ کی تو کھردا جواب ملا یہی قیمت ہے لینی ہے تو لیں۔ میں نے ایک دفعہ چالیس ہزار روپے کی بکس ریڈنگز لاہور سے لی۔ ایک روپیہ رعایت نہیں دی گئی۔ پوری قیمت ادا کی کیونکہ مجھے وہ بکس پڑھنی تھیں اور میں دکان کے اندر خاصا وقت گزار کر سوچ سمجھ کر کتاب خریدتا ہوں اور مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی کتاب واپس کرنے گیا ہوں۔

باقی ہر بندے کی کوشش ہوتی ہے وہ پیسے بچائے۔ دکاندار کا حال پوچھیں تو وہ بجلی کا کمرشل ریٹ سو روپے فی یونٹ تک دے رہے ہیں جب کنزیومر ساٹھ روپے فی یونٹ بجلی کا بل دے رہا ہے۔ پھر آپ نے پندرہ بیس ملازم رکھے ہیں۔ سب کی تنخواہیں خرچہ الگ۔ ڈالرز اور پونڈز مہنگا ہونے کی وجہ سے کتابوں کی قیمیتں آسمان پر گئی ہیں اور بکس کی فروخت کم ہوئی ہے۔ بھارت سے کتابیں منگوانے پر بین سے مزید نقصان ہورہا ہے۔ کورونا کا سال ڈیرہ بھی بہت برا گزرا۔

لندن یورپ امریکہ سے کتابیں منگوانا مہنگا کام ہے۔ ڈالروں پونڈز علاوہ بحری جہاز پر کینٹرز اور پھر کراچی سے اسلام آباد ٹرانسپورٹ خرچہ الگ۔

باقی جہاں تک کتاب واپسی کا سو ال ہے باہر کے ملکوں میں آپ کی رسید پر لکھا ہوتا ہے تیس دن کے اندر واپسی ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں نہ دکان میں لکھا ہوتا ہے نہ رسید پر نہ گاہک پوچھتا ہے واپسی کی کیا پالیسی ہے۔

آپ میں سے اکثر کاروباری ہوں گے یا رشتہ داد یا یار دوست۔۔ ان میں سے کتنے واپس سامان لیتے ہیں یا لکھ کر لگایا ہوا ہے؟

احمد سعید کو بھی سوشل سکلز بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ گاہک کو بھی پوچھ لینا چاہئے وہ جو چیز لے رہا ہے وہ واپس ہوگی یا نہیں؟ باقی جتنے دوستوں نے فائر ورک شروع کیا ہوا ہے ان میں سے شاید ہی کوئی اس دکان میں کتاب خریدنے گیا ہو۔ وہی بات ہمیں سوشل میڈیا پر روز لاش درکار ہے اور آج کی لاش بک اسٹور کی ہے۔ کل تک کوئی نیا ایشو، نیا فساد اور نئی لاش۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.