Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Sahafi Ki Qalam Guzasht

Sahafi Ki Qalam Guzasht

کچھ دن پہلے بک اسٹور پر جانا ہوا۔ وہاں اپنے ملتان کے انتہائی قابل احترام صحافی جبار مفتی صاحب کی کتاب دیکھی تو فورا خرید لی۔ آج کل ان کی یہی سرگزشت یا پھر قلم گزشت پڑھ رہا ہوں جس کا نام بقول ان کے ملتان کے ہی ایک بڑے شاعر، ادیب اور صحافی رضی الدین رضی کا رکھا ہوا ہے۔

میں جب خود ملتان میں 1993/1998 تک صحافت سیکھنے یا انگریزی اخبار ڈان میں قدم جمانے کی کوشش کررہا تھا تو اس وقت جو بڑے معتبر نام اور بڑے صحافی تھے ان میں جبار مفتی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ وہ ملتان پریس کلب کے سیکرٹری اور پھر صدر بھی رہے۔ خوبصورت اور سلجھے ہوئے سمجھدار انسان۔ عزت دینے والے اور عزت لینے والے۔ سنا اور پڑھا تھا کہ فلاں بندہ چھوٹے بڑے سے عزت سے پیش آتا ہے۔ جبار مفتی صاحب سے ملتان ملا تھا تو اس کہاوت پر یقین آیا تھا کہ واقعی ایسے لوگ محض قصے کہانیوں میں نہیں بلکہ اصل زندگی میں بھی پائے جاتے ہیں۔

خیر ان کی یہ قلم گزشت میں اس لیے بھی زیادہ انجوائے کررہا ہوں کیونکہ اس کتاب میں سب سیاسی اور ملتانی کرداروں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس ماحول کا حصہ رہا ہوں جس میں یہ سب کردار تخلیق کیے گئے ہیں۔ اس کتاب نے مجھے اپنے ملتان میں آٹھ برسوں کی یاد تازہ کرا دی ہے خصوصا میرے صحافت کے ابتدائی سال جب دوستوں ساتھ سڑکیں چھاپتے تھے۔

خیر مفتی صاحب نے اپنے قلم کا جادو دکھایا ہے اور خوب دکھایا ہے۔ انہوں نے قاری کو کہیں بور نہیں ہونے دیا اور دلچسپ انداز میں قصہ سنانے کا فن جانتے ہیں خصوصا جو انہوں نے جیل کی زندگی کے حالات لکھے (ویسے مجھے کتاب پڑھ کر پتہ چلا کہ وہ سیاسی نظریات کی وجہ سے کچھ عرصہ پنڈی اور میانوالی جیل میں بھی قید رہے)۔

وہ دراصل ایڈٹیورل سائیڈ کے بندے رہے ہیں۔ نوائے وقت ملتان جب اپنے عروج پر تھا تو اس وقت وہ اس اخبار کے مرکزی کردار تھے۔ وہ نوائے وقت کے اہم عہدوں پر رہے۔ لہذا ان کی قلم پر بہت گرفت ہے۔ نیوز ڈیسک پر رہنے کی وجہ سے ان کے پاس نہ صرف ذخیرہ الفاظ بہت ہے وہیں ان کے قم سے ایک بھی ایک ایسا لفظ نہیں پڑھا جو غیر ضروری لگا ہو۔ یہی کمال ہوتا ہے جب آپ دوسروں کی خبریں ایڈیٹ، نوک پلک ٹھیک کرتے، سرخیاں نکالتے نکالتے ٹاپ پر پہنچتے ہیں اور خود لکھتے ہیں تو سیاسی تحریروں میں بھی ادب تخلیق کرتے ہیں۔

میں نے اب تک اس کتاب میں تین سیاسی شخصیتوں بارے تین باب پڑھے ہیں اور مجھے کہنے دیں انہوں نے ایک پرانے دوست جہاں میرے خیال میں بڑا گلہ بنتا تھا محض ہلکا سا اشارہ کرکے گزر گئے۔ کوئی اور ہوتا تو اس پرانے دوست کی اس بے رخی پر تین چار صحفات اور لکھتا۔ لیکن مفتی صاحب نے بڑا پن دکھایا اور آگے بڑھ گئے۔

شاید وہ دوست جبار مفتی صاحب کو outgrow کر گیا تھا یا اب مفتی صاحب اس نئے دور میں ان کے لیے relevant نہیں رہے تھے۔ جیسے ابھی یہی دیکھ لیں کہ 2006/07 لندن میں نواز شریف جلاوطنی میں جاوید ہاشمی بارے کیا گفتگو کررہے ہیں اور آج وہ اسی جاوید ہاشمی کا نام سننا پسند نہیں کرتے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہم انسان یا دوستوں یا اپنے ہیروز سے آگے نکل جاتے ہیں جسے outgrow کرنا کہتے ہیں۔ اب یہ نہیں پتہ کہ اس معاملے میں جاوید ہاشمی نے خود کو نواز شریف سمجھ لیا تھا کہ میں ان سے بہتر سیاستدان اور بہادر ہوں کہ بھاگا نہیں۔ ڈیل نہیں کی۔ بہادری سے پاکستان میں جیل کاٹی لہذا مجھے میرے اب قد کاٹھ کے مطابق ڈیل کیا جائے یا پھر نواز شریف کو لگا اگر آپ کا قد کاٹھ میری وجہ سے تھا۔ اپنا قد کاٹھ چیک کرنا ہے تو پھر کچھ عرصہ مجھ سے دور ہو کر دیکھ لیں۔ جاوید ہاشمی اور نواز شریف میں سے کس نے کس کو outgrow کیا ہے اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ انسانی نفسیات بھی عجیب ہے کہ اس وقت 90 فیصد وہ لوگ اب آپ کے دوست نہیں ہیں جن کے بغیر کبھی آپ کا وقت نہیں گزرتا تھا۔ اگر یقین نہیں آتا تو جبار مفتی کی کتاب کا یہ پیرا پڑھ لیں۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.