میں شکیلہ فاطمہ سے بہت متاثر ہوں۔ اس لڑکی سے میری پہلی ملاقات 2011 میں ہوئی تھی جب میں ایکسپریس ٹریبون اخبار میں ایڈیٹر انویسٹیگشن تھا۔ شکیلہ لاہور سے آئی تھی۔ اس وقت وہ اپنی یونیورسٹی/کالج میں اپنے تھیسز پر کام کررہی تھی۔ اس نے میری ان دنوں بیسٹ سیلنگ بک ایک سیاست کئی کہانیاں پڑھ رکھی تھی اور اب اس پر کام کررہی تھی۔ وہ اس سلسلے میں میرا انٹرویو کرنا چاہتی تھی۔ میں انٹرویوز دینے سے گھبراتا ہوں۔ بہت زیادہ۔
خیر جب وہ میرے دفتر پہنچ گئیں تو انکار نہ کرسکا خصوصا یہ سوچ کر کہ آج کل کے نوجوان بچے کہاں ایک سیاست کئی کہانیاں جیسی کتابیں پڑھتے ہیں۔ اگر کسی ایک نے پڑھ لی ہے تو اس کو وقت دیں۔ اس دوران کبھی کبھار شکیلہ کا میسج آجاتا تھا۔ ایک دن پتہ چلا اسے کینسر کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ میری اپنی فیملی میں کینسر کو بڑے قریب سے دیکھا ہوا تھا۔ شکیلہ نے جس طرح ان برسوں میں کینسر سے فائٹ کی ہے وہ ناقابل یقین ہے۔
کینسر کا علاج اپنی جگہ مہنگا لیکن اس کی ہمت کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اس کے کئی آپریشن ہوئے، کیموتھراپی کے سیشن، بال جھڑ گئے، کمزوری حد سے زیادہ بڑھ گئی اور ڈاکٹروں نے تقریباََ جواب دے دیا اور پھر اس کا ہاتھ ڈاکٹر عاصم صبہائی نے تھام لیا۔ عاصم انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے۔ عاصم نے امریکہ سے اس کا علاج شروع کیا۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو گائیڈ کرتا رہا۔ اس دوران ایک اور انسان دوست مشتاق بھائی نے اسے اپنی بیٹی بنایا اور اس کے علاج کی ذمہ داری اٹھائی۔ اس دوران اس نے اپنے والد کو کھو دیا جو سب سے بڑی سپورٹ تھے۔
شکیلہ کا ماننا ہے اللہ کے بعد اس کی جان بچانے والے دو محسن ہیں۔ ایک کینسر سپیلسٹ ڈاکٹر عاصم صبہائی اور دوسرے میامی سے میاں مشتاق جاوید صاحب جنہوں نے ان کی بہت مدد کی ہے۔
شکیلہ سے برسوں بعد مجھے مل کر احساس ہوا کہ بندے کو ہمت اور حوصلہ کبھی نہیں ہارنا چاہئے۔ ہر نیا دن ایک نیا موقع ہے زندگی جینے کا۔ کچھ پتہ نہیں خدا نے نئی صبح آپ کے لیے کیا نیا رکھ چھوڑا ہے۔
کل سپر مارکیٹ کے کافی بینز کیفے پر شکیلہ کو یہ کتاب پیش کرتے وقت مجھے یاد آیا کہ اس لڑکی نے چند سال قبل بستر مرگ سے مجھے ایک میسج کیا تھا۔ سر میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے نہیں پتہ میں کتنے دن مزید زندہ رہوں۔ اگر میں مرگئی تو آپ کو پتہ نہیں چلےگا۔ میں نے اپنے بھائی کو آپ کا فون نمبر دے دیا ہے۔ آپ نے میری موت پر تعزیت کرنے ضرور چیچہ وطنی آنا ہے۔
آج وہ خدا کی مہربانی، اپنی ہمت، ڈاکٹر عاصم صبہائی اور میاں مشتاق کی مہربانیوں کی بدولت میرے سامنے تندرست بیٹھی تھی۔