صبح سویرے بک کارنر جہلم سے امر شاہد کا میسج تھا کہ بالزاک کے ناول "تاریک راہوں کے مسافر" کا ایڈیشن فروخت ہوگیا ہے۔ اب چوتھے ایڈیشن کی تیاری کرنی ہے۔
ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس پر خاصی محنت لگتی ہے۔ اگر ترجمہ اچھا تو آپ کا کوئی کمال نہیں۔ سارا کریڈٹ اوریجینل ادیب کو ملتا ہے اور ملنا بھی چاہئے، لیکن اگر ترجمہ معیاری نہ ہو تو متراجم پر سارا نزلہ گرتا ہے۔
کئی دفعہ شاندار کتابوں کا ترجمہ کرنے کو دل کرتا ہے لیکن پھر اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیتا پوں۔ کچھ خوبصورت کہانیاں پچھلے دنوں ترجمہ کیں لیکن پھر انہیں واپس ہی رکھ دیا۔
فرانسیسی عظیم ادیب بالزاک کو ترجمہ کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ بہت لمبا فقرہ لکھتا ہے۔ تفیصلات میں جا کر لکھتا ہے۔ بعض دفعہ تو صحفات پر صحفات گزر جاتے ہیں لیکن فل اسٹاپ نہیں آتا۔ اس لیے بالزاک کے دو ناول کا ترجمہ کرکے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
لیکن مجھے کہنے دیں بالزاک کا یہ ناول میرے دل کے بہت قریب ہے۔ اس ناول میں انقلاب فرانس کے بعد فرانس میں جو غربت، مادیت پرستی، خودغرضی، کنجوسی، دھوکا، فراڈ اور لوگوں کے اعتماد سے کھلواڑ نے رواج پایا اسے بالزاک نے اتنی خوبصورتی سے اپنے قلم سے امر کیا کہ یہ ناول آپ کے دل کے تاروں کو چھو لیتا ہے۔
جن لوگوں کو انقلاب کے لفظ سے رومانس ہے وہ بالزاک کی تحریروں میں اس انقلاب کی کہانیاں پڑھیں تو کانوں کو ہاتھ لگائیں کہ انقلاب نے پہلے فرانسسی معاشرے اور پھر پورے یورپ کا کیا حشر کیا تھا۔ انقلاب فرانس سے نپولین نے جنم لیا جس نے پورے یورپ کو آگ لگا دی۔ لاکھوں لوگ ان جنگوں میں مارے گئے جو نپولین آزادی اور لبرٹی کے نام پر لڑ رہا تھا۔
اس ناول میں جہاں سارے کردار مرد لالچی، کمینے، خود غرض اور حرامی دکھائے گئے ہیں وہیں اس ناول میں فی میل کردار سب اچھے دکھائے گئے ہیں جو سادہ لوح ہیں، محبت سے لبریز اور قربانی کے جذبے سے بھرپور جنہیں فرانس کے انقلاب کی بدروح اپنے قابو میں نہیں کرسکی۔
اس ناول کی ہیروئن یوجین گرینڈ، اپنی قسمت پر مطمئن یوجین کی ماں اور ان کی بوڑھی ملازمہ کے کرداروں کی معصومیت آپ کے دل جیت لیتی ہے۔
پیرس سے آئے کزن سے باپ گرینڈ کے سخت مخالفت کے باوجود محبت کی یوجین نے بڑی قیمت ادا کی۔ اس کزن نے ہی اسے دھوکا دیا اپنے جس کزن کو دلوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یوجین نے ساری جائیداد دے دی تھی۔ وہ کزن جب امیر ہوا تو اپنی اس دیہاتی کزن کو بھول گیا اور جب ایک دن وہ سب کچھ سمندر طوفان میں ڈبو بیٹھا تو اس کزن نے ہی اپنی جائیداد بیچ کر اسے پیرس کے ساہوکاروں سے بچایا۔ اس معصوم یوجین نے کبھی گلہ کیا نہ شکوہ۔ پہلے اپنے باپ تو پھر اپنے محبوب کزن کے ہاتھوں گھائل یوجین نے اپنے گائوں کے تاریک گھر میں ہی اسی ناکام محبت کے سہارے زندگی گزار دی۔
برسوں گزر گئے لیکن بالزاک کے اس خوبصورت ناول کی اداسی اور رومانس مجھ سے کبھی نہ اتری۔
اپنے اداس گھر کے صحن میں ہر شام تنہا یوجین کبھی میرے دل سے نہ اتری۔ ہر دفعہ اس کا اداس چہرہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا جسے انقلاب فرانس کی خودغرضی، لالچ، فریب اور دھوکے بھی نہ بدل سکے۔ خودغرض اور فریبی مردوں کے ہجوم میں یوجین اکلوتی روح تھی جو انسان تھی۔