Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. The Prime Ministers

The Prime Ministers

ٹی وی شو سے گیارہ بجے فارغ ہونے کے بعد کل رات بک اسٹور چلا گیا۔ دکان بند ہونے کا وقت سوا گیارہ تھا لہذا دفتر سے تقریباََ بھاگتا ہوا نکل گیا کہ دو نئی بکس آئی تھیں۔ اگلے دن دیر تک سویا رہا تو کہیں نکل ہی نہ جائیں کہ چند کاپیاں ہی منگوائی جاتی ہیں۔ میرا پڑھنے کا وقت رات کا ہوتا ہے جب ہر طرف سکون ہوتا ہے اس لیے اس دلچسپ کتاب کو رات بھر پڑھتا رہا۔

یہ ایک اعلی نسل کی کتاب ہے۔ اس میں برطانیہ کے 55 پرائم منسٹرز بارے لکھا گیا ہے۔ انتہائی دلچسپ انداز میں برطانیہ کی تین سو سالہ تاریخ کو سمو دیا گیا ہے۔

سب سے پہلے ونسٹن چرچل پر لکھے باب کی طرف گیا جہاں حیرانی میری منتظر تھی۔ چرچل کی باقی باتیں پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کیونکہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے پہلے ڈاکٹر انوار احمد یاد آئے اور پھر نعیم بھائی۔ اب آپ کہیں گے ان دونوں صاحبان کا چرچل کے اس باب سے کیا تعلق ہے؟

نعیم بھائی ہمارے گائوں کے اکثر کرداروں کا بڑے غور سے مشاہدہ کرتے اور ان کا موازنہ گارشیا کے ناول "تنہائی کے سو سال" کے کرداروں سے کرتے تھے۔ اس ناول کا انہوں نے اردو ترجمہ بھی کیا تھا جسے فکشن ہاوس لاہور نے چھاپا۔ خیر نعیم بھائی ہمارے گائوں کے کچھ کرداروں کو دیکھ کر کہا کرتے تھے (ہک وی کہیں کہیں دا چنگا ہوندے) اکلوتا بیٹا بھی کسی کسی کا نیک اور اچھا نکلتا ہے۔

اس طرح 1993 کی بات ہے ملتان یونیورسٹی میں ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے دفتر بیٹھے تھے۔ اس وقت ڈرائیور ان کے بیٹے تمثال کو سکول سے لے آیا۔ وہاں کچھ اور لوگ بیٹھے تھے۔ تمثال نے کوئی شرارت کی تو ڈاکٹر انوار احمد نے اسے سختی سے منع کیا اور ڈانٹا۔ کسی نے کہا خیر ہے بچہ ہے۔ ویسے بھی اکلوتا ہے۔ لاڈلا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب آج تک نہیں بھولا۔ بولے لاڈلا تو بہنوں کا ہے۔ اگر میں نے اس کی تربیت نہ کی تو لوگ کہیں گے جو استاد اپنے بیٹے کو نہ سدھار سکا یا اچھا انسان نہ بنا سکا وہ ہمارے بچوں کا کیا کرے گا؟

یہ سب باتیں چرچل کے باب کو پڑھتے ہوئے ذہن میں آئیں۔

چرچل کا بھی ایک بیٹا اور چار بیٹیاں تھیں۔ بچے کو لاڈ پیار سے چرچل نے بگاڑ دیا تھا۔ رانڈولف باپ کے لاڈ کی وجہ سے اتنا بگڑ گیا کہ جوانی میں ہی شراب اور لڑکیوں میں گم ہوگیا۔ پھر اسے شوق ہوا اس نے بھی پارلیمنٹ میں جانا ہے جس پر اس کے والدین کے درمیان لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ جنگ عظیم دوم شروع ہوئی تو باپ بیٹے میں اختلافات اتنے بڑھ گئے تھے کہ مسز چرچل کو لگا اس کے خاوند کو کسی وقت ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔

انہی دنوں چرچل کے بیٹے کی بیوی کا آفئیر امریکن صدر روزویلیٹ کے خصوصی ایلچی ساتھ چل پڑا جو یورپ میں تعنیات کیا گیا تھا۔ چرچل کی 1965 میں موت کے تین سال بعد اس کا اکلوتا بیٹا بھی صرف 57 برس کی عمر میں چل بسا۔

ہمیں بڑے لوگوں کی زندگیاں دور سے بڑی پرکشش اور لگژری لگتی ہیں لیکن ان خوبصورت گھروں کے اندر دکھ تکلفیں نظر نہیں آتیں۔ کچھ لوگ یقینا کہیں گے کہ اس چرچل کی عظمت کا ہم نے اچار ڈالنا ہے اگر وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی تربیت نہ کرسکا۔ اسے قوم کی فکر رہی بچوں کا خیال نہ تھا۔ وہی ڈاکٹر انوار صاحب کا جملہ یاد آیا۔

چرچل کی ایک بیٹی میری نے اپنے باپ بارے میں کہا تھا ہمارا باپ تو ہمیشہ گھر سے دور رہا۔ یا وہ جنگیں لڑ رہا تھا یا الیکشن— ہمارے لیے تو ان کے پاس وقت نہ تھا۔

بعض انسانوں میں خود کو عظیم مدبر لیڈر اور سیاستدان ثابت کرنے اور خبط عظمت کا جنون اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ انہیں نہ اپنا گھر یاد رہتا ہے اور نہ اپنے بچے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.