حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان احمد خان بزدارنے سول سیکرٹریٹ میں واقع مقبرہ انار کلی کا معائنہ کیا۔ انہوں نے مقبرہ انارکلی میں نادر اور تاریخی اشیاء و دستاویزات دیکھیں اور تاریخی اشیاء اورنادر دستاویزات میں گہری دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔
یہاں پرسیکرٹری پنجاب آرکائیوز اور لائبریریز طاہر یوسف نے کو ان نادر و تاریخی مسودات اور دستاویزات کی اہمیت اور ان کو محفوظ کرنے بارے بریفنگ بھی دی گئی اور مقبرہ انارکلی کی تاریخی حیثیت کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
مقبرہ انارکلی 16 ویں صدی، مغل دور کی ایک ہشت پہلو یادگار ہے۔ اس کو مغلیہ دورکے ابتدائی مقبروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو تاحال موجود ہے۔ عمارت کو اس وقت پنجاب آرکائیوز کے میوزیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور عوام تک رسائی محدود ہے۔
انارکلی اکبر و جہانگیر دور کاایک افسانوی کردار ہے۔ جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ مقبرہ مغل شہنشاہ جہانگیر نے انارکلی کی محبت میں تعمیر کیا تھا۔
انار کلی ایک کنیز تھی جس کو شہنشاہ اکبر نے جہانگیر سے چوری چھپے محبت کرنے پر پکڑا تھا۔ انارکلی شہنشاہ اکبر کی ایک لونڈی تھی اور مبینہ طور پر اس عمل سے شہنشاہ اکبر اس قدر مشتعل ہو گئے کہ انارکلی کو ایک دیوار میں زندہ چنوا دیا۔ جب شہزادہ سلیم تخت پر بیٹھا اور اس کا نام "جہانگیر" مشہور ہوگیا تو اس نے دیوار کی جگہ پر ایک مقبرہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا جس میں اطلاعات کے مطابق انارکلی کو دفن کیا گیا تھا۔
سکھ سلطنت کے زمانے میں، اس قبر پر کھڑک سنگھ نے قبضہ کیا تھا اوراس میں لگا ہوا ماربل اکھاڑ دیا۔ بعد میں اس کی آرائش کی گئی۔ پھر برطانوی راج کے دوران 1851 میں انگلیکن سینٹ جیمز چرچ میں اس قبر کو دوبارہ سرجری کرنے سے پہلے 1868ء میں علمی دفاتر میں تبدیل کیا گیا اور بعد میں اسے لاہور کا "پروٹسٹنٹ کیتیڈرل" سمجھا گیا۔ 1891 میں، چرچ کی جماعت کو دوبارہ منتقل کر دیا گیا اور اس قبر کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا۔ یہ مغل عہدکی ابتدائی عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی مزید تزین و آرائش کی گئی اور اب اس میں پنجاب آرکائیو کا میوزیم ہے۔
اس عمار ت میں بہت سی قیمتی اور نادر دستاویزات محفوظ ہیں۔ جہانگیر کے دور حکومت کی بعض دستاویزات بھی ہیں جن سے اس کے طرز حکومت کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ جہانگیر کے بعد آنے والے مغل شہنشاہوں کے بارے میں تاریخی دستاویزات بھی موجود ہیں۔ پھر رنجیت سنگھ کا دور آیا اور لاہور پر سکھوں کی حکومت کے پلان، احکامات سب کچھ یہاں محفوظ ہے۔
انگریز دور حکومت سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی دستاویزات، پھر انگریزوں کا دور حکومت۔ اس دور میں آبپاشی کے نظام، ریلوے کے نظام کے کاغذات بھی یہاں موجود ہیں یعنی قیام پاکستان سے قبل کی دستاویزات، مسودات، نوادرات لاکھوں کی تعداد میں یہاں محفوظ ہیں۔ اس ذخیرے میں بعض ایسی دستاویزات بھی موجود ہیں جو برصغیر میں کہیں اور نہیں۔
مثلاً ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں کشمیر کا سودا کرنے کی دستاویز، قائدؒ، اقبالؒ اور دیگر مسلم مشاہیر کے خطوط، کتب وغیرہ یہاں موجود ہیں۔ آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے انارکلی میوزیم کا دورہ نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے اس تاریخی جگہ کا دورہ کیا اور ان نوادارات کی اہمیت و افادیت کو سمجھا اور انہوں نے ان تاریخی دستاویزات سے استفادہ کرنے کیلئے محققین کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ یہ ان کی پاکستان اور اس کے تاریخی ورثے سے محبت ہے جو وہ اپنی عوام میں بھی باٹنا چاہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت تاریخی ورثے کی حفاظت میں کتنی سنجیدہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اتنے نادر ذخیرے کو محفوظ کیا جائے۔ تاریخی دستاویزات اور نادر ریکارڈ کو محفوظ بنانے کیلئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے پنجاب آرکائیوز اینڈ لائبریریز کے ساتھ اشتراک سے سیکرٹری پنجاب آرکائیوز اور لائبریریز جناب طاہر یوسف کے زیر سایہ کام ہو رہا ہے۔ اب تک پانچ لاکھ دستاویزات محفوظ ہو چکی ہیں۔ تمام مواد کی اعلیٰ معیار سکینگ ہائی ریزولوشن تصاویر پر مشتمل ہے۔ سیکرٹری آرکائیوز طاہر یوسف کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے نایاب اور قیمتی اثاثوں کو محفوظ رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ تاریخی ریکارڈ اور ڈیجیٹل دستاویزات ہمارے ورثے کو محفوظ کریں گئیں۔
سیکرٹری پنجاب آرکائیوز اور لائبریریز طاہر یوسف بہت ہی محنتی اور قابل شخص ہیں۔ انتہائی ملنسار اور شفیق شخصیت رکھتے ہیں۔ وطن کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اسی حب وطنی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا اہم اور قیمتی ذخیرہ محفوظ ہے اور مزید محفوظ ہونے جا رہا ہے۔ طاہر یوسف کی دن رات محنت اور لگن سے ہم انشاء اللہ تمام قیمتی ورثہ کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ محکمہ آرکائیو نے اس اثاثے پر ایک کتابچہ بھی شائع کیا ہے۔
اس قیمتی و تاریخی ورثہ کو رکھنے کیلئے مناسب جگہ کاانتظام بھی بہت ضروری ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ایک علیحدہ سے عمارت میں ان تاریخی اشیاء کا میوزیم بنایا جائے جو عالمی معیار کے مطابق ہو تاکہ ہمارے اپنے طلبا اور باہر سے آنے والے دانشور، آثار قدیمہ کے ماہرین اور سیاح اس ذخیرے سے مستفید ہو سکیں۔