اس وقت میرے سامنے ایک بہت ہی خوبصورت اور تاریخی اہمیت کی حامل کتاب "داستان عزم" موجود ہے جومحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت ہے، جسے ہم آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی اورتاریخ بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ تو ایک شخص کی اپنی خودنوشت ہے لیکن کسی ہزار داستان اورداستان طلسم ہوشرباسے کم نہیں، اس میں نہ صرف وہ سب کچھ درج ہے جو ایٹمی پروگرام کی تاریخ پرمبنی ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی جھلکیاں بھی موجودہیں اورانتظامی معاملات کی بھول بھلیاں بھی ہیں۔ کتاب کی ابتدامیں جو تین اشعار درج ہیں، وہ بھی اپنی جگہ بہت ہی قابل توجہ ہیں۔
اس ملک بے مثال میں اک مجھ کوچھوڑ کر
ہرشخص بے مثال ہے اورباکمال ہے
ہمارے ذکر سے خالی نہ ہوگی بزم کوئی
ہم اپنے کام کی عظمت وہ چھوڑجاتے ہیں
گزرتوخیرگئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر "کوفیوں " میں گزری ہے
اس آخری شعرکوغورسے پڑھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے، حیات توسب کی گزرجاتی ہے لیکن یہ سوال اپنے پیچھے ضرورچھوڑ جاتی ہے کہ کیسے گزرگئی۔ رب جلیل نے اسے جومہ وسال ودیعت کیے تھے وہ اس نے ضایع کیے اورصرف ایک حیوان کی طرح اپنے پیٹ کااسیرہوکررہاہے یاکچھ ایساکام بھی کیاہے جو یاد رکھا جائے گا، بقول سائیں کبیر، سانس لینے کو تولوہار کی دھونکنی بھی سانس لیتی ہے لیکن
زندگی اس طرح صورت گرحالات رہے
بعد مرنے کے بھی دنیامیں کوئی بات رہے
اورڈاکٹرعبدالقدیر اپنے پیچھے صرف "کوئی بات" نہیں بلکہ بہت بڑی بات بلکہ کام چھوڑ گئے ہیں جو اس وقت تک یادرہے گا جب تک پاکستان رہے گا۔
رہے "کوفی"توکوفیوں کاذکرہم پچھترسال بلکہ پندرہ سوسال سے کررہے ہیں لیکن نہ "کوفی"ختم ہو رہے ہیں اورنہ حسین۔ کہ یہ انسانیت کاایک ایک مستقل سلسلہ ہے جوابلیس وآدم سے شروع ہواتھا۔
مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولے گاجس دن ایک "ناجائز"نے اس جائزترین محسن پاکستان کواپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکرنے کی کوشش کی تھی جواتنا ناجائز تھا کہ عدلیہ نے اسے پانچ بارپھانسی کامستحق ٹھہرایا تھا۔ خیروہ سارے قصے اس کتاب میں موجود ہیں بلکہ بہت کچھ اوربھی۔
سب سے بڑی خوبی اس کتاب کی یہ ہے کہ اگرکہیں ان لوگوں کاذکرآیابھی ہے جنھوں نے اس معصوم شخص سے بدی کی ہے تو اس کاذکربھی اس شریف شخص نے نہایت شرافت اورممکن حد تک نرم اورشریفانہ الفاظ اورلہجے میں کیا، کسی کوبھلابرا نہیں کہاہے اور زیرلب اچھے الفاظ میں اس کاذکرکیاہے حالانکہ جو حالات رونما ہوئے، اس کے باعث ان کالہجہ تلخ ہونا چاہیے تھاکہ پڑوسی ملک نے مذہبی تعصب اورفرق کے باوجود عبدالکلام کو"راشٹرپتی" کادرجہ دیااورہم نے اپنے محسن کے ساتھ کیاکیا۔
رہ جاتی ہے یہ بحث کہ ایٹمی طاقت ہونا یا قوم کا نان شبینہ چھین کرہتھیار خریدنا یا بنانا درست ہے یا نہیں تواس سلسلے میں بظاہرتوپاکستان جیسا مقروض، غریب اورترقی پذیرملک کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ہے لیکن اس کے برعکس "توازن" کا نظریہ بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
اب اس پر کیا بحث کی جائے کیوں کہ جوہونا تھا وہ ہوچکاہے اورجن قوتوں نے کرنا تھا وہ کرچکے ہیں اور پاکستان کو ایسی پوزیشن پرکھڑا کیا جاچکاہے کہ سامنے ایک مستقل دشمن موجودہے، ایسے میں اگرپاکستان مسلح ہوکر کھڑا نہ رہے تو دشمن اسے تباہ دے گابلکہ مٹانے میں ذرابھی نہیں ہچکچائے گا، ایک نہیں بلکہ دو بداعمال بدنیت اور بدقماش دشمن جھپٹنے کو تیاررہتے ہیں لیکن اگر پتہ ہوکہ سامنے والابھی جواب کی طاقت رکھتاہے اور نقصان صرف اسے نہیں مجھے بھی پہنچ سکتاہے اس کے پاس بھی ہتھیار ہے اورمیں بھی گوشت کاہوں تووہ ہزار بار سوچے گا۔
چنانچہ پاکستان چاہے نہ چاہے اس کی استطاعت میں ہویانہ ہو اسے توازن قائم کرنے کے لیے تیاری کرنالازم ہے اورپاکستان کو یہ توازن ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے فراہم کیاہے، اسی لیے توان کے بھگتوں نے انھیں محسن پاکستان کانام دیا ہے کیوں کہ اگر صاحب نہ ہوتے اوروہ یہ کارنامہ سرانجام نہ دیتے تو آج پاکستان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتاتھا۔
وہ تو آرام سے کہیں بھی رہ کراپنی قابلیت کی بناء پردولت شہرت اورعزت حاصل کرسکتے تھے لیکن پاکستان کاکیاہوتا۔ بہرحال سب کچھ عوام کے سامنے ہے اورعوام اتنے بدھوبھی نہیں ہوتے جتنا یہ لیڈرلوگ سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس نے قوم سے "لیا" اورکس نے قوم کو "دیا"۔ میرے خیال میں تویہ کتاب ہرکسی کو لازماًپڑھناچاہیے کیوں کہ
گاہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را
تازہ خواہی داشت گرداغبائے سینہ را
لوگ کہتے ہیں کہ کتاب کلچرنہیں رہاہے لیکن یہ بات غلط ہے جوکتابیں خودکو قارئین سے پڑھواتی ہیں، ان کتابوں کاکلچر اب بھی موجود ہے اوریہ کتاب بھی ایسی ہی کتاب ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی "داستان عزم"خود ان کی زبانی۔