Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dil Walay, Dimagh Walay

Dil Walay, Dimagh Walay

خداغریق رحمت فرمائے مرحوم جواد نذیر بڑے دلچسپ آدمی تھے، ایک مرتبہ انھوں نے بہت ہی مشہور اوربڑے آدمی کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا کہ میرے دوبیٹے ہیں، ایک کے پاس "دل "ہے اوردوسرے کے پاس دماغ، پھر ان کی یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی، جب وہ مشہور اور بڑا آدمی فوت ہوا تودل والااس کے جنازے اورتدفین میں روتا رہاجب کہ دماغ والے نے فوراً باپ کے کمرے کادروازہ کھولا، سارامال ومتاع اورکام کے ڈاکومنٹ قبضے میں لے لیے، چنانچہ باپ کی پوری ریاست اس کے حصے میں آئی اوردل والے کو ایک معمولی حصہ ملا۔

ایسی ہی ایک اورکہانی ہندی قدیم ادب میں بھی ہے جس میں ایک عورت اپنے شوہراوردیورکے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں ڈاکو پڑگئے، دونوں بھائیوں نے مزاحمت کی اورجان سے ہاتھ دھوبیٹھے، دونوں کے سر ڈاکوؤں نے قلم کردیے، عورت نے دیوتاؤں سے فریاد کی توغیبی آوازیعنی آکاش وانی ہوئی کہ دونوں کے سران کے دھڑوں کے ساتھ جوڑدو، عورت نے ایساکیاتودونوں زندہ ہوگئے لیکن عورت نے غلطی سے سراوردھڑغلط جوڑے تھے۔

اب اس کے شوہرکا سر اس کے دیور کے دھڑسے جڑا تھا اوردیورکا سراس کے شوہرکے دھڑ کے ساتھ پیوند ہوگیا، سب کو بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا، عورت بھی حیران تھی کہ کس کوشوہرسمجھے اورکس کودیور؟ وہ دونوں بھی حیران تھے آخر سب راجا وکرمادیتہ (بکرماجیت)کے دربار پہنچے اوراس کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا۔ راجا وکرما کو کہانیوں میں بہت بڑا بہادر اوردانشور کہاگیا ہے اوربہت ساری کہانیاں اس کی ذہانت اورہمہ صفت ہونے کے بارے میں مشہورہیں۔

راجا نے ان کا مسئلہ سنا توتھوڑی دیرغور کرنے کے بعد فیصلہ دیاکہ انسان کا سب کچھ اس کے سر میں ہوتا ہے، دماغ، آنکھیں، کان، ناک، منہ، زبان وغیرہ اس لیے باقی جسم سر کے مقابلے میں صرف ایک جسم ہوتاہے، عورت کاشوہروہی ہے جسے اس کے شوہرکا سرلگا ہے۔

ان کہانیوں سے ثابت ہوگیا کہ اصل چیز سر ہوتاہے اوران کہانیوں کو ہم جیتی جاگتی زندگی پرمنطبق کردیں تو صاف صاف نظر آجائے گا کہ ہمارے زمانے اورملک میں بھی "دل" اوردماغ والے صاف صاف پہچانے جاسکتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے ہم ڈارون بلکہ اصل میں فرانسیسی عالم "لامارک"کا نظریہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔

"لامارک"نے کہاہے کہ جس عضوسے زیادہ کام لیاجاتا ہے، وہ مزید طاقتور ہوتاجاتا ہے اورجس عضوسے کام نہیں لیاجاتاہے وہ کمزورہوتے ہوتے معدوم ہوجاتا ہے، جیسے اونچے درختوں کے پتے کھانے سے اونٹ اورزرافہ کی گردنیں لمبی ہوگئی ہیں، سانپ کے پیر بھی اس لیے نہیں ہے کہ بل میں رینگتے ہیں، گائے بیل کے صرف دوناخن مضبوط ہوگئے ہیں، گھوڑا تیزدوڑتا ہے، اس کی صرف انگلی کھرکی شکل میں مضبوط ہوگئی ہے، باقی برائے نام رہ گئے ہیں یاغائب ہوگئے ہیں، ان میں گوشت خوروں کے ناخن تیزہیں، پانی سے خوراک تلاش کرنے والے پرندوں کی چونچیں لمبی یا جالی دارہوگئی ہیں، کثرت استعمال سے انسان کی پانجویں انگلیاں کام کی ہوگئیں۔

اس طرح استعمال اورعدم استعمال کی، اس نے بہت ساری مثالیں پیش کی ہیں۔ انسانوں میں سب سے بڑی مثال اشرافیہ اورعوامیہ کی ہے، ایک زمانے سے جب کچھ لوگوں لٹیرے اورڈاکوسے ترقی کرکے "محافظ" کاروپ دھارن کر لیا تھا، اس کے بعد ہزاروں سال سے پندرہ فی صد لوگوں پرمشتمل اشرافیہ باقی پچاسی فی صد عوامیہ کے سر پر بیٹھی ہوئی ہے، چاہے پرانی بادشاہت کی شکل میں تھا یااب جمہوریت کی شکل میں ہے۔

شہد کے چھتے میں نکھٹوؤں کی طرح "کارکن" مکھیوں کادیاکھارہے ہیں اورکارکن "مکھیوں " کو مسلسل سمجھارہے ہیں کہ تم صرف "جسم" سے کام لوکماؤ، بناؤ، اگاؤ اورلاؤ، باقی دماغ سے کام لینا ہماری ذمے داری کام ہے۔

ظاہرہے کہ صدیوں کے عدم استعمال سے عوامیہ کے دماغ اتنے بے کارہوگئے ہیں کہ عضومعطل بن چکے ہیں اورخود کوکالعدم بناچکے ہیں، جب کہ نکھٹو اپنے دماغ کو زیادہ استعمال کرکے شیطانی دماغ کے مالک ہوگئے ہیں جوعوامیہ کوانگلیوں پرنچاتا ہے، تقریروں سے بہلاتا ہے، نعروں سے گرماتا ہے اورنغموں، ترانوں سے اکساتا ہے اور صرف جسم کے مالک کالانعام اس پرعمل کرتے ہیں، یوں بات کوسمیٹ کر لمحہ موجود تک لائیے تواشرافیہ کے پاس ایک بے پناہ عیار، مکار، دھوکا باز اورچالاک دماغ ہے اورعوامیہ کے پاس صرف دھڑہے جس میں ایک دل بھی ہوتا ہے۔

یوں بات وہی ہوگئی کہ عورت کاشوہروہ ہے جس کے پاس سر ہے یا وہ جواد نذیر کے مطابق اس شخص کے دوبیٹے جس میں ایک کا دل نہیں ہے اور دوسرے کادماغ عوامیہ کادماغ جیساہے۔ یہ دماغ ہی ہے جو دل اورجسم والوں کو الفاظ سے اکساکرسب کچھ کراتاہے۔ دوست دشمن کابھی فیصلہ کرتاہے، قوانین بھی بناتاہے، نعرے بھی ایجادکرتاہے اوردل وجسم والوں کی کمائی بھی مفت میں ہڑپتا ہے۔

مصرکے اہرام دنیابھر کی مشہورعمارتیں، تاج محل، ایفل ٹاور وغیرہ کس نے بنائے، کیا ان بادشاہوں نے کبھی ایک کنکر بھی ادھر ادھر کیا ہے، ان کے پاس جولعل وجواہرکے خزانے تھے، کیاانھوں نے خود کانوں سے نکالے تھے یاآج کے جوکروڑوں اربوں میں کھیلنے والے ہیں، انھوں نے کبھی ایک پھول بھی اپنے گل دان کے لیے خود اگایا ہے یا توڑا ہے۔ یہی ہے دماغ اوریہی ہے دل یاجسم جو ہمارے سامنے خواصوں اوکالانعاموں کی شکل میں موجود اور متحرک ہے۔ وہ پچاسی فی صد دل یاجسم جو اگاتے ہیں، کماتے ہیں، بناتے ہیں، لاتے ہیں، وہ نان شبینہ کو محتاج ہیں اوروہ جو کچھ نہیں کرتے، سب کچھ ہڑپتے ہیں اور ان ہوس پھر بھی ختم نہیں ہوتی۔

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے "کتابوں " نے کیا دیا مجھ کو