Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sab Se Bara Antivirus Aur Bacteria

Sab Se Bara Antivirus Aur Bacteria

کچھ عرصہ پہلے ہم نے سورج کی روشنی اوردھوپ کاذکر کیاتھا کہ سورج کی روشنی اوردھوپ انسان کے لیے کتنے ضروری ہیں بلکہ دنیا کاسب سے بڑا اینٹی بائیوٹک اورام الشفاہے۔ آج ہم دوسرے اینٹی بائیوٹک یاام الشفا کاذکرکرناچاہتے ہیں جو زمین یامٹی ہے۔ کچھ عرصے سے روز روشن کے "اشتہاری" یا بقول حافظ شیرازی، چہ دلاوراس دزدے کہ بکف چراغ دارد۔ یعنی تشہیری دنیاکے "دلاور" اورچراغ بکف ڈاکٹرز ہزارہزار امراض کے نسخے دھڑلے سے بیچ رہے ہیں۔

کہیں صابن، کہیں سینی ٹائزرکہیں ڈیٹرجنٹ۔"نائنٹی نائن اعشارہ نائنٹی نائن "کی قوالی گارہے ہیں خاص طورپرکوروناکوتو انھوں نے اپنے لیے گنج بے بہا بنایا ہوا ہے، سب کچھ جھوٹ ہے، بیس منٹ تک فلاں چیزسے ہاتھ دھوئیں، اس کے مقابلے میں اگردس منٹ مٹی سے ہاتھ دھوئے جائیں تو زبادہ موثرہے کیوں کہ دنیا کاکوئی بھی صابن، ڈیٹرجنٹ اور سینی ٹائزر وائرس کومارنہیں سکتا، زیادہ سے زیادہ ہٹاسکتاہے جب کہ مٹی ان کو اپنے اندر جذب کرکے غیرموثرکرتی ہے کیوں کہ ایسا سب کچھ مٹی کی اولاد ہوتا ہے۔

دنیا میں اس وقت "تریانوے یاچورانوے " عناصر موجود ہیں جو سب کے سب زمین یا مٹی کی اولاد ہیں۔ یہ جراثیم، یہ بیکٹیریا، وائرس بلکہ اس دنیا میں موجود ہرچیززمین اورمٹی سے جنم لیتی ہے اوراسی میں جاکر ملتی ہے۔

کوئی اورچیزاگر کسی چیزکومارتی ہے تو صرف مارتی ہے فنا نہیں کرسکتی۔"فنا" صرف مٹی کرتی ہے، اپنے آپ میں جذب کرکے اوریہ "فنا" بھی مکمل فنا نہیں ہوتی کیوں کہ کائنات میں "فنا" نام کی کوئی چیزہے ہی نہیں، چیزیں صرف شکل بدلتی ہیں، فنا نہیں ہوتیں، مثلاًتمام نباتات، حیوانات مٹی ہی سے جنم لیتے ہیں، مٹی ہی سے بڑھتے ہیں، پھیلتے ہیں اور آخرکارایک دن مٹی میں جاملتے ہیں۔ فنا اور بقا کی بحث بڑی لمبی اورپیچیدہ ہے، اس لیے صرف غالب کے ایک شعر پرختم کرتے ہیں۔

نظرمیں ہے ہماری جادہ راہ فنا غالب

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

یہاں ہم مٹی کی معجزاتی تاثیرکاذکرکرتے ہیں۔ ابلیس تو احمق اور گمراہ تھا جو دوسرے تمام احمقوں اور گمراہوں کی طرح بیرونی چیزکی بنا پر اپنی برتری کامدعی تھا اوروہ چیزبھی کیا تھی؟ آگ۔ جسے اس نے مٹی کے مقابل "برتر"جانا اورمانا، حالاں کہ آگ بھی مٹی ہی کی پیداوار ہے۔

کسی زمینی چیز مثلاً پتھر لکڑی یاکچھ اورکی "رگڑ"سے پیداہوتی ہے اور زندہ رہتی ہے اوراگر زمینی یامٹی کاایندھن نہ ملے تو وہ ایک "سانس"بھی زندہ نہیں رہ سکتی توپھر مٹی سے برتر کیسے ہوئی؟ اس کاتووجود ہی مٹی سے ہے اوراگر بات مقابلے کی ہوجائے تو آگ مٹی کاکچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی بلکہ وہ اورمضبوط ہوکر اینٹ، برتنوں لوہے اورشیشے میں ڈھل کراور زیادہ قیمتی ہوجاتی ہے جب کہ مٹی یامٹی کاکوئی جزریت یاپانی آگ کے لیے پیام اجل ہے بلکہ اگر مٹی اپنا تعاون کھینچ لے تو بھی آگ زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ پیدا بھی نہیں ہوسکتی۔

اس کرہ ارض پرایسی کوئی چیزموجود نہیں جس کی بنیاد مٹی یا زمین نہ ہو۔ آگ، ہوا، گیس، سب کچھ اسی زمین کی اولاد یں ہیں اوراپنی ہراولاد کے لیے زمین یا مٹی ایک شفیق ماں ہے جس سے پیدائش، بڑھوتری، زندگی، صحت، خوشحالی، خوراک سب کچھ وابستہ ہے، اگر آج ہی زمین اپنی خوراک یاروٹی روک لے تو سب کچھ بے کارہوجائے گا، یہ زروجواہر، کرنسیاں، یہ ایجادیں، کچھ بھی ممکن نہیں، اگر انسان کے پیٹ میں روٹی یاپانی نہ ہو۔ بڑے سے بڑاسائنس دان، موجد، ماہر، سورما اور مالدار، اگربھوک پیاس کا شکار ہوجائے توکچھ بھی سوچ نہیں پائے گا۔

اب یہ ایک الگ درد ناک موضوع ہے کہ آدم کی زراعت پیشہ اولاد یں جو زمین سے خوراک پیدا کرتے ہیں، پاکستان میں ان کاحال سب سے برا ہے اورخود زمین اورمٹی کو بھی سب سے "حقیر"درجہ دیا گیا ہے حالانکہ انسان کابنایاہوا سارا تام جھام صرف اور صرف زمین اورمٹی ہی کے دم قدم سے قائم ہے۔

جہاں تک امراض کاتعلق ہے تو ہزار صابنوں، سینی ٹائزروں اورقیمتی ادویات سے بہتر ایک "مڈباتھ" یا مٹی کا غسل ہے کیوں کہ مٹی جراثم کو، وائرس کو، ہر قسم کے زہر کو اورموذی سے موذی امراض کو اپنے آپ میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، دوسری تمام چیزیں یاتو ان کوہٹاتی ہیں یامارتی ہیں جس میں کہیں نہ کہیں بچ جانے، باقی رہ جانے کاامکان رہتا ہے۔ آپ یقین کریں بلکہ تجربہ کریں کوئی عضویاجلد یا آلودگی مٹی اورپانی سے دھوئیں، ان تمام مصنوعات سے زیادہ موثر رہے گا جن کے ڈھنڈورے بجائے جاتے ہیں۔

آپ نے سنا ہوگا کہ مغرب میں باقاعدہ گرم کیچڑ کے غسل لیے جاتے ہیں جو بے پناہ مفید ہوتے ہیں اورہم یہ بات گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر انسان ہفتے میں یامہینے میں ایک باربھی مڈباتھ لیاکرے توجلد کے بہت سارے امراض سے چھٹکاراپایاجاسکتاہے اور ہاتھ کو اگر روزانہ مٹی لگا کرپانی سے دھوئے جائیں تو وائرس جراثم کیمکلزوغیرہ کاخاتمہ ممکن ہے، بہ نسبت ان جھوٹی اورقیمتی مصنوعات کے۔