سانسوں میں کوئی خوف بسا لگتا ہے
ہر جسم مجھے سر سے جدا لگتا ہے
مشکل میں ہوں میں اور ہوں خود سے الجھا
ہونا میرا دیکھو تو سزا لگتا ہے
اور پھر ڈر ہے کہ الٹ جائے نہ بستی ساری۔ ہر شخص یہاں ایک خدا لگتا ہے۔ سچ مچ ہمارے مشکل دن ختم ہونے پر ہی نہیں آتے۔ وہ تو خیر غا لب نے کسی اور تناظر میں کہا تھا کہ حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے، آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں۔ مسلمانی اور کافری تو ایک طرف ہم تو انسان کہلوانے کے بھی حقدار نہیں، بلا تمیز انسانی خون کی ارزانی، جتوانے والے بھی آپ کے پاس اور ہروانے والے بھی آپ کے پاس دستیاب۔
ذھن میں پیدا ہونے والے خیالات مکڑی کے جالے کی طرح بنتے اور ٹوٹتے جاتے ہیں، ہم شاید ذہنی مریض بنتے جاتے ہیں ہمارے ہیروز کو زیرو کر دیا گیا اور نہ جانے اگلا مرحلہ کیا ہو گا کبھی میں اقبال کا سوچتا ہوں تو کبھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سوچتا ہوں کہ اقبال نے ہمارے گھر کا خواب دیکھا، قائد نے تعبیر دی اور نقب لگانے والوں نے پھر اسے خواب بنا دیا اور بھیانک خواب۔ سوچتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ نفرتیں کس نے بوئیں اور فصلیں کس نے کاٹیں۔ مشرقی پاکستان سے بلوچستان تک ایک کہانی لکھی گئی جس کے حاشیے میں سندھ بھی بیمار دکھائی دیتا ہے جہاں وڈیرہ گردی نے ایک قیامت ڈھا رکھی ہے۔ ابھی تو کراچی کے خونچکاں افسانے ہی نہیں بھولے تھے:
یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے
اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا
دو روز سے طبیعت میں ایک بے کلی سی ہے۔ دل پر ایک ناقابل برداشت گرانی ہے کہ ہم کس دور میں رہ رہے ہیں۔ یہاں تک بھی دیکھا کہ بلاول کا دورہ ضروری ہے اگر اس دوران کوئی بچہ مر جائے تو اسے معمول کی بات سمجھ لیا جائے۔ چلیے اس سے بھی آگے چلتے ہیں اب آپ کی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ حشر برپا کر دیں جس کو چاہیں گھر سے بلائیں اور تشدد کر کے مار دیں۔ قصور اس کا یہ ہو کہ آپ کو قانون کا آئینہ دکھانے کی کوئی کوشش نہ کرے۔
قارئین!ناظم جوکھیو کے بہیمانہ قتل نے سب کو خون کے آنسو رلا دیا۔ یہ واقعہ بے حس اور ظالمانہ نظام کا چہرہ ہے۔ میں بہت دیر تک مغموم رہا ایک سچا بہادر اور محب وطن نوجوان جو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ویڈیو بناتا ہے کہ باہر سے آنے والے آقائوں کے ساتھ مل کر شکار کھلواتے ہوئے وڈیرے کیسے قانون کو پامال کرتے ہیں، ایسے نوجوانوں پر تو ملک کو فخر ہونا چاہیے کہ ناظم جوکھیو نے ہر اندیشے کو پس پشت ڈالا اور غنڈوں کے ساتھ جانے سے پہلے ویڈیو اپ لوڈ کی کہ وہ ڈرتا نہیں اور وہ جام اویس کے پاس لے جایا جائے گا۔ پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ شرمناک ہے فوزیہ سیال لاڑکانہ میں ان کی زمین کا مسئلہ تھا وہ خاتون قرآن پاک لے کر آئی کہ ان کے مردوں کو نہ مارو مگر ظالموں نے گولی اس پر چلائی جو قرآن پاک سے گزرتی ہوئی اس کے سینے میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئی ام رباب بیچاری تو کب سے سوشل میڈیا پر آ کر چیخ رہی ہے اور اپنے والد، دادا اور بھائی کے قتل کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔
صد شکر کے حلیم عادل شیخ جیسے کچھ سر پھرے اٹھے ہیں اور ایک لہر احتجاج کی اٹھی ہے، پیپلز پارٹی کے لئے یہ ٹیسٹ کیس ہیں ایک شور برپا ہے کہ سندھ اسمبلی میں کتنے قاتل بیٹھے ہوئے ہیں، دو معصوموں کو مارنے والے جوحاضر ایم پی ایز ہیں۔ یہ سندھ کا نظام ہے آہستہ آہستہ لوگ اسلحہ اٹھا رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ خانہ جنگی کی صورتحال پیدا نہ ہو جائے۔ یہ بہت ہی سنگین اور سنجیدہ معاملہ ہے جس کے لئے احتجاج کرنے والے چیف جسٹس اور فوج کے سربراہ سے کہہ رہے ہیں کہ کوئی ایسی جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں غیر جانبدار لوگ ہوں۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی اس جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خلاف عام محنت کش اور مزدور کے لئے بنائی تھی۔ اس لئے انہیں پذیرائی بھی ملی مگر پھر انہی وڈیروں نے انہیں اپنا اسیر بنا لیا کہ وڈیرا بھٹو کے اندر سے نہیں نکلا اور زرداری یا بلاول کا تو کہنا ہی کیا، یہ تو چیزیں ہی اور طرح کی ہیں یہ تو اقتدار اور مفاد کے لئے زرداری سے بھٹو بن جاتے ہیں، سندھ میں کچے کے ڈاکو اور پکے کے ڈاکو سب انہی کے ہیں، اتنے بڑے حادثہ پر یعنی ناظم جوکھیو اور فوزیہ سیال کے لئے فاتحہ پڑھنے بھی کوئی نہیں آیا۔ لوگوں کو کیا کچھ یاد آیا ہو گا اور کون کون سے زخم ہرے ہوئے ہونگے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ ہمیں دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔
میں لکھنے تو اقبال پر بیٹھا تھا اقبال فلسفہ خودی اور پیغام و تحرک پر، مگر کیا کروں کہ ناظم جوکھیو اور فوزیہ سیال والا قصہ ہی بہت درد ناک تھا۔ ناظم جوکھیو کی بیوی کی باتیں سنی نہیں جا رہی تھیں، وہ بیوہ اپنا بچہ گود میں لئے سندھ میں اپنا نوحہ بیان کر رہی تھی۔ اس کا لہجہ اس کے آنسو اور اس کی ٹوٹتی ہوئی آواز سب کچھ آشکار کر رہی تھی۔ اس گریہ زاری اور سینہ کوبی کا انجام معلوم!مجھے تو شمائلہ یاد آ گئی وہی جو فہیم کی بیوی تھی جسے امریکی کمانڈو ریمنڈ ڈیوس نے بھون ڈالا تھا شمائلہ غیرت مند تھی اس نے خودکشی کر لی کہ اسے انصاف کی رسی بھر امید نہیں تھی وہ تو امریکی تھا یہ جام اویس تو یہاں کے ہیں انکے خلاف بھی کچھ نہیں ہو گا ان مگرمچھوں سے بیر کون لے گا دوسرے مگرمچھ آنسو بہا کر دکھا دیں گے۔
کچھ قصور تو ان کا بھی ہے جنہوں نے بات اس نہج تک آنے دی کہ قانون کو صرف کمزور تک رکھا اور تگڑا اس سے بچتا رہا۔ آپ ایک الطاف حسین کو دیکھیے کہ اس نے پورے کراچی کو کتنے سال تک یرغمال بنائے رکھا۔ اس کے غنڈے جس بھی دروازے پر کراس کا نشان لگا آتے وہ اوپر سے نیچے تک بھتہ لیتے جو ٹیکس سے کئی گنا زیادہ تھا اور اس کا انکاری واجب القتل۔ بات بہت آگے نکل گئی ہے، بات اٹھائی سو مزدوروں کے زندہ جل جانے تک جا پہنچی۔ بات وہ بھی ایسے ہی شروع ہوئی تھی کہ اہل زبان کے حقوق غصب کئے گئے۔ ان پر ظلم ڈھایا گیا اور پھر مظلوم ظالم بن گئے۔ شکر ہے کہ سوشل میڈیا پوری طرح بیدار رہے وڈیروں کا محاسبہ ازبس ضروری ہے:
سر تو کٹ جائیں گے پر شوق نموبولے گا
دست قاتل پہ شہیدوں کا لہو بولے گا
تو بھی خاموش رہا شہر کے برجوں کی طرح
میں تو سمجھا تھا مرے یار کہ تو بولے گا